پچھلے لامہ کی وفات کے وقت پیدا ہونے والا لڑکا، چتا کے دھوئیں اور مقدس جھیل کے اشارے: اگلے دلائی لامہ کی شناخت کیسے ہو گی؟

بی بی سی اردو  |  Mar 30, 2025

Getty Imagesاعلیٰ درجے کے راہب ایک ایسے لڑکے کی تلاش شروع کرتے ہیں جو پچھلے دلائی لامہ کی موت کے وقت پیدا ہوا تھا اور یہ تلاش وہ کئی ممکنہ سراغوں کی رہنمائی میں کرتے ہیں۔

دلائی لامہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کا جانشین چین سے باہر پیدا ہونے والا شخص ہو گا جبکہ بیجنگ کا اصرار ہے کہ اگلا لامہ ایسا شخص ہونا چاہیے جس کا جنم چین میں ہوا ہو۔

بدھ مت کے تبتی رہنما نے اپنی تازہ ترین تصنیف میں لکھا ہے کہ 'چونکہ اوتار کا مقصد پیشرو کے کام کو جاری رکھنا ہوتا ہے اس لیے نئے دلائی لامہ آزاد دنیا میں پیدا ہونے والے ہوں گے۔'

دلائی لامہ اس مت کے سیاسی اور روحانی پیشوا ہیں لیکن چینی حکومت کا اصرار ہے کہ نئے دلائی لامہ کی توثیق دلائی لامہ سمیت دیگر تمام بزرگ بدھ لامہ (اساتذہ) کو کرنی چاہیے۔

تو تبتی بدھ مت میں اوتار کیسے کام کرتے ہیں اور اگلے دلائی لامہ کو کیسے منتخب کیا جاتا ہے کیونکہ 15ویں دلائی لامہ کو اپنا کردار نبھانا ہے۔

دلائی لامہ کون ہیں؟Getty Imagesدلائی لامہ معروف عوامی شخصیت ہیں اور انھیں امن کے نوبل انعام سے نوازا جا چکا ہے

دلائی لامہ تبت کے روحانی پیشوا ہیں، وہ تبتی بدھ مت کا سب سے مشہور چہرہ اور تبت کے پیٹرن سینٹ کا مظہر ہیں۔ انھیں اولوکیتیشور یا چنریزگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس اعزازی لقب کا مطلب 'حکمت و دانش کا سمندر' ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جسے صدیوں سے عمل تناسخ یا اوتار کے ذریعے بھرا جا رہا ہے۔

بدھ مت مذہب کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ جنم لیتا ہے۔ دوبارہ وہ کس طرح جنم لیتا ہےاس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس نے پچھلی زندگی میں کیا اعمال یا کرم کیے تھے (بدھ مت، ہندو مت اور سکھ مت میں اسے کرما یا کرم کہا جاتا ہے اور یہ ایک اہم تصور ہے)۔

تبتیوں کا ماننا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اعلیٰ ترین روحانی منزل حاصل کر لی ہے (جیسے کہ دلائی لامہ) وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کب اور کہاں دوبارہ جنم لیں گے۔

موجودہ دلائی لامہ ٹنزن گیاتسو 6 جولائی سنہ 1935 کو شمال مشرقی تبت کے ایک غریب کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جب وہ صرف دو سال کے تھے تو انھیں 13 ویں دلائی لامہ تھوبٹن گیاتسو کے اوتار کے طور پر پہچانا گیا۔

ڈاکٹر تھپٹن جِنپا کہتے ہیں: 'تبتیوں کا ماننا ہے کہ دلائی لامہ کی ایک ہی روح ہے جو بار بار جنم لیتی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ موجودہ دلائی لامہ 13ویں دلائی لامہ کے اوتار ہیں۔'

Christopher Michelتبتیوں کا ماننا ہے کہ دلائی لامہ کی ایک ہی روح ہے جو بار بار جنم لیتی ہے

ڈاکٹر جنپا ایک سابق راہب ہیں اور انھوں نے تبتی بدھ مت میں اعلیٰ ترین مذہبی عہدہ حاصل کیا ہے۔ وہ 1985 سے دلائی لامہ کے سرکاری مترجم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ روایت یہ مانتی ہے کہ تمام دلائی لامہ ایک ہی شخص کا تسلسل ہیں لیکن موجودہ عہدہ دار اسے لفظی طور پر درست نہیں مانتے۔

ڈاکٹر جنپا نے بی بی سی کو بتایا: 'میں نے عزت مآب کو چند مواقع پر یہ کہتے سنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ تمام 14 (دلائی لامہ) ایک ہی شخص ہیں۔ لیکن اس نسب میں موجود ہر فرد کا دلائی لامہ کے نسب سے ایک خاص تعلق ہوگا۔'

بدھ مت کا وجود مسیحیت سے پہلے سے ہے لیکن دلائی لامہ بنانے ادارہ اس کے بعد کا ہے یعنی یہ حالیہ رواج ہے۔

ایس سی او اے ٹی برڈین یونیورسٹی کے ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر مارٹن اے ملز کہتے ہیں: اگرچہ پہلے دلائی لامہ کو (بعد میں) 1391 میں پیدا ہونے والے گیڈنڈرپ نامی شخص کے طور پر پہچانا گیا تھا لیکن بدھ مذہب کے رہبر کا بار بار جنم لینے کا خیال اس سے بھی کم از کم تین سو سال پرانا ہے جس کے تحت وہ اپنے پیشرو کی جائیداد اور طلبا کو وراثت میں حاصل کرتا ہے۔'

ملز کا مزید کہنا ہے کہ 'دوبارہ جنم لینے والے لامہ کے اب سینکڑوں سلسلے ہیں جن میں دلائی لامہ سب سے زیادہ مشہور ہیں۔'

’نرم، رحمدل، عاجز اور حیرت سے بھرپور‘ دلائی لامہ کی زندگی تصاویر میںکیا انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی کو مسلم حکمراں بختیار خلجی نے تباہ کیا؟عید الاضحیٰ اور قربانی: یہودیت، عیسائیت اور ہندومت جیسے مذاہب میں قربانی کا تصورسواستکا: خوش قسمتی کی قدیم علامت کو ہٹلر نے کیوں چنادلائی لامہ کی شناخت کیسے کی جاتی ہے؟

ڈاکٹر جنپا بتاتے ہیں کہ 'دلائی لامہ کے انتخاب کا عمل بہت سخت، پیچیدہ اور وسیع ہے۔ انھوں نے شمالی انڈیا کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کے شہر دھرم شالہ میں دلائی لامہ سے ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہم سے یہ باتیں کیں۔

ڈاکٹر جنپا نے مزید کہا: 'دلائی لامہ مختلف خاندانوں سے آتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی کسی دوسرے سے قریبی تعلق نہیں رکھتا ہے۔'

اس مخصوص فرد کی شناخت میں کئی سال لگ سکتے ہیں جیسا کے چودھویں اوتار کی تلاش میں پورے چار سال لگ گئے تھے۔

اعلیٰ درجے کے راہب ایک ایسے لڑکے کی تلاش شروع کرتے ہیں جو پچھلے دلائی لامہ کی موت کے وقت پیدا ہوا تھا اور یہ تلاش وہ کئی ممکنہ سراغوں کی رہنمائی میں کرتے ہیں۔

ان اعلی سطحی راہبوں میں سے کسی کو خواب میں لڑکے کی شناخت کے حوالے سے اشارہ مل سکتا ہے یا پھر پچھلے دلائی لامہ کی چتا سے نکلنے والے دھوئیں کی سمت ان مقامات کی جانب رہنمائی کر سکتی ہیں جہاں اوتار نے جنم لیا ہو۔ اس کے علاوہ وسطی تبت میں ایک مقدس جھیل بھی ہے جو تلاش کے لیے اشارے فراہم کر سکتی ہے۔

موجودہ دلائی لامہ ٹنزن گیاتسو کے گھر اور گاؤں کی شناخت اس جھیل کے ایک منظر سے ہوئی تھی۔

Peter Ruprechtتھپٹن جنپا تقریباً چار دہائیوں سے دلائی لامہ کے سرکاری مترجم رہے ہیں

ایک بار جب لڑکے کے مقام کا پتہ چل جاتا ہے تو بچے کو بہت ساری چیزیں دی جاتی ہیں۔ اگر لڑکا کامیابی سے یہ شناخت کر لیتا ہے کہ پچھلے دلائی لامہ کے پاس ان میں سے کون سی چیزیں تھیں تو اسے اوتار ہونے کا اچھا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔

ایک بار جب سرکردہ لامہ مطمئن ہو جائيں تو پھر لڑکے کو منتخب کیا جاتا ہے اور اسے سالوں مذہبی علوم سیکھنے اور مذہبی تربیت میں رکھا جائے گا۔

کچھ ماضی کے انتخاب متنازع رہے ہیں اور ان پر تبت کے اندر اور باہر شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے ہیں۔

پروفیسر ملز بتاتے ہیں کہ 'پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے تاشیل ہنپو میں پہلے دلائی لامہ کے اوتار کو ان کی اپنی ہی خانقاہ کے اندر کے راہبوں نے ابتدائی طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ پانچویں دلائی لامہ نے اپنی ڈائریوں میں اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے وہ ٹیسٹ پاس نہیں کیے تھے جو شناخت کے عمل کا حصہ تھے۔'

تبت سے باہر صرف دو دلائی لامہ پیدا ہوئے ہیں: ایک منگولیا میں اور دوسرے شمال مشرقی انڈیا کے توانگ میں۔

موجودہ دلائی لامہ نے وعدہ کیا ہے کہ جب جولائی میں وہ 90 سال کے ہو جائیں گے تو وہ اپنے اگلے جنم کے بارے میں مزید وضاحت دیں گے۔

چينی تسلطGetty Imagesپنچن لامہ کا دلائی لامہ کے طور پر انتخاب آخری بار مئی 1995 میں ہوا تھا

چین دلائی لامہ کو سیاسی جلاوطن کہہ کر مسترد کرتا ہے جو اس کے مطابق مذہب کے لبادے میں علیحدگی پسند چین مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس نے 2007 میں نئے دلائی لامہ کے لیے یہ لازمی قرار دیا کہ انھیں 'درخواست اور منظوری کے طریقہ کار' کو پورا کرنا چاہیے۔ وہ انھیں 'دوبارہ جنم لینے والا زندہ بدھ' کہتے ہیں۔

سنہ 1950 میں چین نے تبت پر اپنا دعویٰ نافذ کرنے کے لیے ہزاروں فوجی بھیجے اور چین مخالف ناکام بغاوت کے بعد دلائی لامہ سنہ 1959 میں وہاں سے فرار ہو گئے اور انھوں نے انڈیا میں جلاوطنی میں حکومت قائمکی۔

کوئی بھی ملک تبت پر چینی کے اختیار کا مخالف نہیں ہے لیکن کئی دہائیوں سے دلائی لامہ تبت پر بیجنگ کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں۔ اور پروفیسر ملز کا خیال ہے کہ جلاوطنی کے دور میں تبتیوں میں مقبول رہنما کے طور پر ان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ وہ تبتی بدھ مت کے رہنما کے طور پر کوئی باضابطہ کردار نہیں رکھتے (2011 میں جلاوطن حکومت کی قیادت سے دستبردار ہو چکے ہیں) لیکن دلائی لامہ تبت کے لیے لابنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تبت سے باہر اوتار کے بارے میں دلائی لامہ کے تازہ ترین فیصلے کو چین کے زیر کنٹرول علاقے میں عملی ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تبتی بدھ مت کی دوسری اعلیٰ ترین شخصیت پنچن لامہ ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں جو عام طور پر اگلے دلائی لامہ کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

دلائی لامہ نے 1995 میں ایک نوجوان لڑکے کا نام پنچن لامہ رکھا تھا لیکن چین نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنا امیدوار منتخب کیا۔ دلائی لامہ کا منتخب کردہ پنچن غائب ہو گیا اور ان کا ٹھکانہ ابھی تک نامعلوم ہے۔

Getty Imagesپنچن لامہ کے طور پر چین کے منتخب کردہ شخص گیلٹسن نوربو سنہ 2018 سے بیجنگ کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے

ایسے میں اس بات کا امکان قوی ہے کہ چینی حکومت مستقبل میں اپنے دلائی لامہ کا اعلان کرے گی، لیکن کیا تبتی انھیں مانیں اور ان کی پیروی کریں گے؟

ڈاکٹر جنپا کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں 'لوگ شائستگی کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ وہ اپنی جان نہیں گنوانا چاہتے، لیکن وہ چینی حکومت کے مقرر کردہ دلائی لامہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔'

'چین لوگوں کو جسمانی طور پر کنٹرول کر سکتا ہے لیکن تبتیوں کے دل و دماغ کو نہیں جیت سکتا۔'

کیا انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی کو مسلم حکمراں بختیار خلجی نے تباہ کیا؟سواستکا: خوش قسمتی کی قدیم علامت کو ہٹلر نے کیوں چنامشرقی ایشیا میں لوگ اپنا ابتدائی مذہب چھوڑ کر دوسرے مذاہب کیوں اپنا رہے ہیں؟قدیم تہذیبوں میں ’جہنم‘ کا تصور اور دنیا کے مذاہب میں عالم برزخ کو کیسے بیان کیا گیا’مسلمانوں کا وہ فرقہ‘ جو نماز روزے کے بجائے محنت کو جنت کی کلید کہتا ہے مگر ناقد انھیں ’اسلام سے بھٹکا ہوا گروہ‘ کیوں قرار دیتے ہیںجنگ میں لوٹی دولت سے ہندوستان میں فلک بوس مندر بنانے والے چولا خاندان کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More