BBCاسرائیلی فوج نے بعد میں اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ قافلہ لائٹ بند کر کے مشکوک طریقے سے سفر نہیں کر رہا تھا
غزہ کی پٹی میں 23 مارچ کو 15 طبی کارکنوں کی ہلاکت کے واقعے کی ایک موبائل فون سے بنی فوٹیج کے تجزیے سے پتا چلا ہے کہ اس حملے کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے سو سے زیادہ گولیاں چلائیں جن میں سے چند صرف بارہ میٹر کے فاصلے سے داغی گئی تھیں۔
بی بی سی ویریفائی نے 19 منٹ کی ویڈیو کا دو ماہرین کی مدد سے تجزیہ کیا ہے جس میں اس واقعے سے قبل پیش آنے والے لمحات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس تجزیے سے فلسیطینی حلال احمر کے اس دعوے کی حمایت ہوتی ہے کہ طبی کارکنوں کو بہت قریب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ پانچ اپریل کو اسرائیلی فوج کے ایک عہدیدار نے دعوی کیا تھا کہ فضائی فوٹیج کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے بہت فاصلے سے فائرنگ کی تھی۔
اسرائیلی فوج، آئی ڈی ایف، سے جب بی بی سی ویریفائی نے رابطہ کیا تو انھوں نے اس تجزیے پر جواب دینے سے انکار کیا۔ اسرائیلی فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ اس حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور انھوں نے یہ دعوی دہرایا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے چھ کا تعلق حماس سے تھا، تاہم انھوں نے اس دعوے کے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔
دوسری جانب فلسطینی حلال احمر نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس کے علاوہ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک طبی کارکن، جنھیں اسرائیلی فوج نے بعد میں 15 گھنٹے تک حراست میں رکھا تھا، نے بھی اس دعوے کی نفی کی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں حماس کارکن شامل تھے۔
فلسطینی حلال احمر کا کہنا ہے کہ انھوں نے مکمل ویڈیو فوٹیج اسی حملے میں ہلاک ہونے والے ایک کارکن کے فون سے بازیاب کی ہے جنھیں اسرائیلی فوج نے دفنا دیا تھا۔ رفعت رضوان کے فون سے ملنے والی اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں یہ قافلہ ایمرجنسی روشنیوں کا استععمال کرتا ہوا جا رہا تھا جبکہ کم از کم ایک کارکن کو اندھیرے میں چمکنے والی جیکٹ پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے بعد میں اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ان کا ابتدائی بیان درست نہیں تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ قافلہ لائٹیں بند کر کے مشکوک طریقے سے سفر کر رہا تھا۔
’اسرائیلی فوجی طبی قافلے کی شناخت کر سکتے تھے‘
ماہرین نے بی بی سی ویریفائی کو بتایا کہ انھوں نے سپیکٹوگرام اور ساوئنڈ ویوفارمز کا استعمال کرتے ہوئے موبائل فون کے مائیکروفون سے گولیوں کے فاصلے کو جانچا۔ ان کے مطابق موبائل فون، جو ایک ہلاک ہونے والے کارکن سے ملا، اور گولیوں کے درمیان فاصلہ بتدریج کم ہوتا گیا تھا۔
ان ماہرین کا ماننا ہے کہ پہلی بار فائرنگ 40 سے 43 میٹر کے فاصلے سے ہوئی لیکن اس ویڈیو کے اختتام سے قبل بارہ میٹر کے فاصلے سے گولیاں چلائی گئیں۔
یاد رہے کہ پانچ اپریل کو اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کی اپنی فوٹیج کے مطابق فوجی فاصلے پر تھے۔ ’یہ قریب سے نہیں ہوا، انھوں نے دور سے گولیاں چلائیں۔‘
ایک عسکری ماہر نے بی بی سی ویریفائی کو بتایا کہ 50 سے 100 میٹر کے فاصلے سے ہونے والی فائرنگ کو قریبی رینج مانا جاتا ہے۔
کیمیکل سے جلانا، بجلی کے جھٹکے، کُتے چھوڑنا اور جنسی عمل پر مجبور کرنا: فلسطینی قیدیوں پر بدنام اسرائیلی جیلوں میں کیا بیتی؟غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے 10 منٹ قبل مذاکرات کو ناکامی سے بچانے کی اندرونی کہانیغزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہ
مونٹانا سٹیٹ یونیورسٹی کے آڈیو فارنزک ماہر رابرٹ کا کہنا ہے کہ موبائل فون کی فوٹیج اور آواز کے مطابق شروع میں 43 میٹر کے فاصلے سے گولی چلی۔ رابرٹ اور سٹیون بیک، دونوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ آڈیو کے آخری لمحات میں گولیاں صرف 12 میٹر کے فاصلے سے چلائی گئی تھیں۔
سٹیون بیک، جو سابق ایف بی آئی کنسلٹنٹ ہیں، اب بیک آڈیو فارنزک کے نام سے کمپنی چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’فائرنگ کرنے والے اس وقت بہت قریب تھے، 12 سے 18 میٹر کے فاصلے پر۔ ایک عجیب سی آواز بھی سنائی دی جو شاید ٹائر پر گولی لگنے کی ہے۔‘
BBCگولیاں صرف بارہ میٹر کے فاصلے سے چلائی گئی تھیں
ان کا کہنا تھا کہ ’شاک ویوز سے عندیہ ملتا ہے کہ گولیاں فون کے مائیکروفون کے قریب سے گزر رہی تھیں جس کا مطلب ہے کہ ان کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔‘
برطانوی فوج کے سابق افسر کرس کوب سمتھ کو ایسے حالات میں کام کرنے کا 20 سالہ تجربہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’50 میٹر کی دوری سے اسرائیلی فوجی یقینا اس قافلے کو دیکھ کر شناخت کر سکتے تھے کہ یہ کون ہیں اور وہ یہ دیکھ سکتے ہوں گے کہ یہ غیر مسلح اور کسی قسم کا خطرہ نہیں۔‘
اس فون کی ریکارڈنگ کے اختتام پر کچھ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں جن میں سے ایک میں عبرانی زبان میں چلاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ’اٹھو‘ اور ’تم واپس جاؤ۔‘
ماہرین کے مطابق اس آڈیو کی مدد سے علم ہوتا ہے کہ کئی بار ایک سے زیادہ اسلحہ سے فائرنگ کی جا رہی تھی۔ رابرٹ کا کہنا تھا کہ ’یہ واضح ہوتا ہے کہ بیک وقت ایک سے زیادہ گنز سے فائرنگ ہو رہی تھی۔‘ دونوں ماہرین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ آڈیو میں سو سے زیادہ بار گولیاں چلائے جانے کے شواہد موجود ہیں۔
ماہرین یہ نہیں بتا پائے کہ یہ اسلحہ کون سا تھا تاہم رابرٹ کے مطابق آٹومیٹک گنز کے برسٹ سنے جا سکتے ہیں۔
BBCشاک ویوز سے عندیہ ملتا ہے کہ گولیاں فون کے مائیکروفون کے قریب سے گزر رہی تھیںماہرین نے آڈیو کا تجزیہ کیسے کیا
سپرسونک رفتار سے سفر کرنے والی گولی ایک ’سونک بوم‘ یعنی آواز پیدا کرتی ہے جسے اکثر ’کریک‘ کہا جاتا ہے جبکہ گولی چلنے سے ایک دوسری آواز پیدا ہوتی ہے جسے ’پاپ‘ کہتے ہیں۔
قریبی فاصلے سے ان دونوں آوازوں میں فرق پہچاننا مشکل ہوتا ہے لیکن اگر ان کی آڈیو کو قریب سے جانچا جائے تو ان دونوں کے درمیان وقت کو ناپا جا سکتا ہے اور اس کی مدد سے فاصلہ بھی طے کیا جا سکتا ہے۔
رابرٹ نے بتایا کہ ’پہلی بار سنی جانے والی گولیوں کے بارے میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ 43 میٹر کی دوری سے چلیں، اگر ہم یہ فرض کریں کہ گولی کی رفتار 800 میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے جبکہ آواز کی رفتار 343 میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ اگر گولی کی رفتار اس سے زیادہ تھی تو اس کا مطلب ہو گا کہ فاصلہ اس سے بھی کم تھا۔‘
بی بی سی ویریفائی اس واقعے کی مذید تفتیش جاری رکھے گا۔
تھامس سپینسر کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ
غزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟53 ارب ڈالر، 20 لاکھ فلسطینیوں کی منتقلی: عرب ممالک کا غزہ کو ’بحیرۂ روم کا دبئی‘ بنانے کا منصوبہ کیا ہے ؟غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے 10 منٹ قبل مذاکرات کو ناکامی سے بچانے کی اندرونی کہانیوحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہکیمیکل سے جلانا، بجلی کے جھٹکے، کُتے چھوڑنا اور جنسی عمل پر مجبور کرنا: فلسطینی قیدیوں پر بدنام اسرائیلی جیلوں میں کیا بیتی؟