جب آپ دہلی میں قائم 100 سالہ قدیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں چہل قدمی کرتے ہوئے ایک عمارت سے دوسری کی طرف جا رہے ہوں گے تو آپ کو کہیں ’باب قرّۃ العین حیدر‘، کہیں ’خیابان اجمل‘، کہیں ’باب ابوالکلام آزاد‘ تو کہیں ’باب محمود الحسن‘ نظر آتا ہے، اور جب آپ اس کے ثانوی اور پرائمری سکول کے حصے سے گزریں گے تو آپ کو ’ارونا آصف علی ہاسٹل‘، ’بی اماں ہاسٹل‘، ’بیگم انیسہ قدوائی ہاسٹل‘ نظر آتا ہے۔انہی کے درمیان جیرڈا فلپسبورن ہاسٹل کی تختی بھی آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے اور اسی طرح جب آپ سکول سے متصل قبرستان میں جاتے ہیں تو ایک قبر اسی نام سے نظر آتی ہے جس پر ایک کتبہ آپ کو متوجہ کرتا ہے جس پر جیرڈا فلپسبورن کے ساتھ ’آپا جان‘ بھی لکھا نظر آتا ہے۔اس کے ساتھ ان کا یوم ولادت اور یوم وفات بھی درج ہے۔ ساتھ ہی جامعہ میں ان کی خدمات کے سال بھی درج ہیں۔اس کے ساتھ ایک شعر بھی درج ہے:نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میراحباب موج رفتار ہے نقش قدم میرا
یہ تعارف اور خراج تحسین ہے ایک جرمن یہودی خاتون کو جنہوں نے تین انڈین مسلم نوجوانوں کے ملک و ملت کے لیے تعلیم کے جذبے اور خواب کو پورا کرنے کے لیے وطن چھوڑا اور تمام تر صعوبتیں برداشت کرتی ہوئی ہندوستان آئیں اور یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔
اگرچہ انڈیا میں مسلم یونیورسٹی میں علی گڑھ کو اولیت حاصل ہے لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ آزادی پسند ہندوستانی مسلمانوں کے خواب کی تعبیر تھی جس کو ایک جانب کانگریس کی حمایت حاصل تھی تو دوسری جانب دیوبند جیسے مذہبی ادارے کی بھی حمایت حاصل تھی۔گذشتہ سال برلن کی فری یونیورسٹی میں تاریخ اور احساسات کی تاریخ کی پروفیسر مارگریٹ پیرانو کی تصنیف ’جامعاز آپا جان: دی مینی لائف ورلڈس آف جیرڈا فلپسبورن‘ کیا شائع ہوئی کہ ان میں انڈین میڈیا کی دلچسپی نظر آنے لگی۔مارگریٹ پیرانو نے شاہی ریاست حیدر آباد پر اپنی پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھا اور انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی حالت، مسلمانوں کی تعلیمی بیداری وغیرہ پر تحقیق میں اپنی زندگی کی تقریباً دو دہائیاں صرف کیں۔تاہم ہم یہاں ان کے بجائے جیرڈا فلپسبورن پر بات کر رہے ہیں جنہوں نے 82 سال قبل یعنی 14 اپریل 1943 میں دنیا کو الوداع کہا تھا۔جیرڈا فلپسبورن ہاسٹل کے دروازے پر آج بھی ان کی تصویر اپنی طرف متوجہ کرتی ہے (فوٹو: دی وائر)جیرڈا فلپسبورن 20 ویں صدی کے اوائل میں سماجی اصلاحات سے سرشار ایک اہم شخصیت تھیں۔ وہ 30 اپریل 1895 میں جرمنی کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور وقت کے ساتھ وہ بچوں اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ایک بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تحریک کا حصہ بن گئیں۔ ان کی زندگی نے بڑے تاریخی واقعات دیکھے جن میں پہلی عالمی جنگ اور پھر جرمنی میں قوم پرستی کا عروج، دنیا میں رونما ہونے والے خلفشار اور بہت سے ممالک میں تحریک آزادی کی لہریں دیکھیں۔فلپسبورن نہ تو کوئی ممتاز سیاسی رہنما تھیں اور نہ ہی مشہور دانشور بلکہ وہ گراؤنڈ پر کام کرنے والی ایک سماجی کارکن تھیں جن کے کام بہت دنوں بعد نظر آتے ہیں اور اکثر نظر نہیں آتے۔مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ اپنے کام کے دوران وہ بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم سے متعلق پالیسیوں کو تشکیل دینے والی ایک اہم شخصیب بن گئیں، خاص طور پر پہلی جنگ کے بعد کی تعمیر نو کے تناظر میں۔بہرحال ان کی ہندوستان آنے اور یہیں کا ہو کر رہ جانے کی روداد بہت دلچسپ ہے۔ بعد میں انڈیا کے تیسرے صدر بننے والے سماجی کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین تعلیم کے سلسلے میں 1922 میں اپنی پی ايچ ڈی کے لیے برلن پہنچے اور 1926 تک وہ وہیں قیام پذیر رہے۔ اسی دوران محمد مجیب اور عابد حسین (جو بعد میں جامعہ ملیہ کے رجسٹرار بنے) بھی جرمنی پہنچے۔ ان تینوں کی ملاقات بچوں کی تعلیم میں دلچسپی رکھنے والی خاتون فلپسبورن سے ہوئی جنھیں ان تینوں نے اپنے ملک و قوم کے لیے تعلیم کے جذبے نے مغلوب کر دیا۔محمد مجیب نے اپنی سوانح عمری میں فلپسبورن سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فلپسبورن ذاکر حسین کو یونیورسٹی کے علاوہ ان کی فکری اور ثقافتی سرگرمیوں میں اپنا راستہ تلاش کرنے میں بہت مددگار رہی تھیں۔انھوں نے مزید لکھا: ’ہماری ان سے پہلی ملاقات وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والی شام کی ایک پارٹی میں ہوئی۔‘ان کے مطابق ’سروجنی نائیڈو کی بہن مسز نمبیار اس قسم کی پارٹیز کا اہتمام کرتی تھیں جن میں عالمی فکر رکھنے والے جرمنوں اور ہندوستانیوں کو اکٹھا کیا جاتا تھا لیکن پھر یہ پارٹیاں بند ہو گئیں۔‘’ایسے میں ایک دن ذاکر حسین نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں نہ ہم لوگ فلپسبورن سے ملاقات کریں تو ہم نے پوچھا کہ کیا ہماری ان سے کوئی اچھی شناسائی ہے؟‘جیرڈا فلپسبورن کو جامعہ کی ’آپا جان‘ کہا جاتا تھا (فوٹو: یوتھ کی آواز)ذاکر حسین نے جواب دیا ’ہم دیکھ لیں گے‘ اور پھر انہوں نے فون پر ان سے رابطہ کیا۔ فلپسبور نے فوراً فون اٹھایا اور کہا کہ ’انہیں ہم سے مل کر خوشی ہوگی۔‘پھر یہ لوگ ہندوستان واپس آ گئے اور اس دوران فلپسبورن نے ہندوستان آنے اور ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت فلپسبورن اپنی 30 کی دہائی میں قدم رکھ چکی تھیں۔ اگرچہ اس زمانے میں تین مسلم نوجوان اور ایک خاتون کی دوستی شاذ و نادر کے زمرے میں آتی تھی تاہم ان کے پاکیزہ رشتے کے سبب انہیں جامعہ میں ’آپا جان‘ کا لقب ملا اور لوگوں نے انہیں فلپسبورن کے بجائے ’آپا جان‘ کے نام سے پکارا۔آپا جان کو ان کے 100 سال پورے ہونے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اشاعتی شاخ مکتبہ جامعہ نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اردو زبان میں ان پر ایک مختصر سوانح عمری ’بچوں کی آپا جان: گرڈا فلپسبورن‘ شائع کی۔بہرحال ہندوستان آنے سے پہلے ان کا کوئی شہرہ نہیں تھا۔ انہوں نے جامعہ کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کے محرکات کیا تھے؟ کیا یہ صرف نازی جرمنی سے فرار تھا یا اس سے آگے بھی کچھ تھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک جرمن یہودی جس کی زندگی جامعہ کے بیشتر طلبہ، اساتذہ اور عملہ کے ارکان سے بالکل مختلف تھی، وہ نہ صرف جامعہ کا لازمی حصہ بن گئیں بلکہ آپا جان کا مرتبہ حاصل کیا۔پرناؤ نے لکھا ہے کہ ذاکر حسین، محمد مجیب اور عابد حسین کے واپس وطن آنے کے بعد ان کے درمیان خط و کتابت جاری رہی جس میں وہ قوم پرستی اور تعلیم پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔جب کبھی فلپسبورن ہندوستان آنے کا ارادہ ظاہر کرتیں، انہیں یہ حضرات منع کر دیتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ہندوستان ان کے لیے ایک اجنبی ملک ہو گا۔محمد مجیب کا تو یہ خیال تھا کہ '’ایک جوان، غیر شادی شدہ اور تنہا عورت جامعہ ملیہ میں کیسے فٹ ہوں گی جہاں خواتین مردوں سے پردہ کرتی ہیں۔‘بہرحال انہوں نے ان تینوں کی تنبیہ اور صلاح و مشورہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 1933 مین ہندوستان کا سفر کیا اور جامعہ کے پرائمری سکول میں ٹیچر بن گئیں اور وہاں سے شائع ہونے والی بچوں کے میگزن ’پیام تعلیم‘ کا بھی حصہ بن گئیں۔دوسری عالمی جنگ شروع ہونے کے بعد جرمن ہونے کی بنا پر جیرڈا فلپسبورن کو حراست میں بھی لیا گیا تھا (فوٹو: فیمینزم ان انڈیا)انہیں جامعہ کے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا لیکن اس وقت ہندوستان پر برطانوی راج تھا اور تاج برطانیہ کی جرمنی سے دشمنی تھی جس کا اثر ہندوستان میں رہنے والے جرمن نژاد پر پڑنا لازمی تھا۔جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو جرمنی سے تعلق رکھنے والوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی اور انہیں پکڑ کر ایسے کیمپوں میں رکھا جانے لگا جہاں کوئی بنیادی سہولتیں نہیں تھیں۔چنانچہ فلپسبورن کو 1940 میں حراست میں لیا گیا اور ایک ایسے ہی کیمپ میں انہیں بھیج دیا گیا۔ ایسے میں جامعہ میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ انہیں جرمنی واپس بھیج دیا جائے گا، جہاں یہودی ہونے کی وجہ سے ان کے لیے مزید خطرہ تھا کیونکہ وہاں کے آمر اڈولف ہٹلر نے یہودیوں کے قتل عام کی مہم شروع کی ہوئی تھی۔کیمپ میں بھی فلپسبورن نے اپنی انسانی اور سماجی خدمات جاری رکھیں، جن میں مریضوں کی دیکھ بھال جیسی چیزیں شامل تھیں، لیکن خراب حالات، بنیادی سہولتوں کی کمی اور غیر محفوظ کھانے ان کی صحت کے لیے مضر ثابت ہوئے اور انہیں پیٹ کا السر ہو گیا۔بہرحال ایک سال بعد انہیں رہا کر دیا گيا اور وہ جامعہ واپس آ گئیں اور اپنی تعلیمی سرگرمی پھر سے شروع کر دی تاہم ان کی صحت میں بہتری کے آثار نظر نہیں آئے اور پھر پتہ چلا کہ ان کا السر کینسر میں تبدیل ہو گيا ہے۔
وہ اب کلاسز نہیں لیتی تھیں لیکن انہوں نے پیام تعلیم کے لیے مضامین لکھنا جاری رکھا، پھر یہ سلسلہ بھی رک گیا اور پھر 14 اپریل کو جامعہ کی محسن نے اپنی آخری سانس لی اور انہیں جامعہ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا جہاں ان کے ساتھ ان کے ہم نوا محمد مجیب، عابد حسین اور دوسرے جامعہ کے مشاہیر بھی خوابیدہ ہیں۔