’مجھے اُن کی درست تعداد کا اندازہ نہیں مگر حملہ آور گھاس کے میدان کے قریب والے جنگل سے اچانک باہر آئے اور انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ وہ لوگ خواتین کو چھوڑ رہے تھے اور مردوں پر گولی چلا رہے تھے۔‘
یہ کہنا ہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں کو خچر اور گھوڑے فراہم کرنے والے ایک شخص کے جو حملے کے وقت وہاں موجود تھے۔
اس عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’ایک طوفان سا تھا۔ کبھی وہ ایک گولی چلاتے اور کبھی ایک ساتھ کئی گولیاں چلا دیتے۔‘
پہلگام حملے پر بی بی سی اُردو کی لائیو کوریج
عینی شاہد نے بتایا کہ انھیں حکام کی جانب سے میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے اس لیے ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔
یاد رہے کہ منگل کی دوپہر پہلگام میں ہونے والے مسلح افراد کے حملے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 26 افراد ہلاک ہوئے ہیں تاہم سرکاری حکام نے مرنے والوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ہلاک ہونے والوں کی میتیں سرینگر پہنچا دی گئی ہیں جہاں انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
عینی شاہدین کا اس حملے سے متعلق کیا کہنا ہے؟ اس سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ یہ حملہ کس مقام پر کیا گیا۔
’بائی سرن‘ جہاں ہائیکنگ کر کے یا گھوڑوں کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے
پولیس اور فوجی ذرائع نے بی بی سی کے سرینگر میں نمائندے ریاض مسرور کو بتایا کہ یہ واقعہ جنوبی کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام سے چھ کلومیٹر دُور ایک خوبصورت وادی ’بائی سَرن‘ میں منگل کی دوپہر پیش آیا۔
بائی سرن ایک خوبصورت سیاحتی مقام اور وادی ہے جہاں تک صرف پیدل (ہائیکنگ کرتے ہوئے) یا گھوڑوں اور خچروں کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ ہندوؤں کے مقدس مقام ’امرناتھ گھپا‘ تک جانے کا راستہ بھی پہلگام کے اسی مقام سے ہو کر گزرتا ہے جہاں ہر سال ’امرناتھ یاترا‘ کے سلسلے میں لاکھوں یاتری کشمیر آتے ہیں۔
اس سال جون کے آخر سے شروع ہونےوالی اس یاترا کے لیے مارچ سے ہی اندراج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور سرکاری ترجمان کے مطابق ابھی تک تقریباً پانچ ہزار یاتریوں نے اس یاترا کے لیے اندراج کیا ہے۔
EPAوادی بائی سرن تک ہائیکنگ یا گھوڑوں کی مدد سے ہی پہنچا جا سکتا ہے اور اب اس علاقے میں ہر طرف سکیورٹی تعینات ہےعینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
پہلگام کے اس مقام پر موجود عینی شاہدین کے مطابق جس وقت اس حملے کے آغاز ہوا اس وقت بڑی تعداد میں سیاح اور مقامی افراد یہاں موجود تھے۔
خبررساں اداروں ’روئٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ نے نام ظاہر کیے بغیر ایک عینی شاہد کے بیان پر مبنی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس عینی شاہد نے بتایا کہ ’یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ ابتدا میں ہم نے سوچا کہ کوئی پٹاخہ پھوڑ رہا ہے۔ جب دوسرے لوگ چیخنے لگے تو ہم وہاں سے بھاگے اور اپنی جان بچائی۔‘
ایک دوسرے عینی شاہد نے بتایا کہ فائرنگ کی آواز سُن کر وہ ’چار کلومیٹر تک بھاگتے رہے اور رُکے نہیں۔ 'میں ابھی بھی کانپ رہا ہوں۔‘
اے ایف پی اور روئٹرز نے کرناٹک کی ایک مارکیٹنگ کمپنی میں کام کرنے والیخاتونپلّوَی سے بات کی ہے جن کے شوہر اس حملے میں مارے گئے۔ پلوی خود بھی اپنے شوہر کے ہمراہ موجود تھیں تاہم انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کو بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکیں۔
انھوں نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ ’میرے شوہر نے میرے سامنے جان دے دی اور میں کچھ نہ کر سکی۔‘
’میرے بیٹے اور میں نے حملہ آوروں کی مِنّت کی کہ انھیں نہ مارو۔ لیکن وہ نہیں مانے۔ ہمیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔‘
حملے کے وقت بائی سرن میں موجود ایک سیاح خاتون نے ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ اگر انھیں دو منٹ کی دیر ہو جاتی تو شاید آج وہ بھی دنیا میں موجود نہ ہوتیں۔
یہ خاتون سیاح اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ بائی سرن کی سیر کے لیے گئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب حملہ شروع ہوا تو ’لوگوں نے آواز دی کہ فائرنگ ہو رہی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ چلتے جائیے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم دوڑ رہے تھے اور پیچھے سے لوگ آ رہے تھے اور ہمیں دھکے لگ رہے تھے۔ میں لوگوں کے پیروں میں آ گئی تھی۔‘
خاتون سیاح کا کہنا تھا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تھی تو وہ اس وقت وہ بائی سرن سے واپس آنے کے لیے نکل رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہاں انھوں ایک شخص کو روتے ہوئے سُنا کیونکہ اس کے بھائی اس حملے میں مارے گئے تھے۔ ’لیکن وہاں کسی کے پاس ٹائم نہیں تھا کہ وہ واپس جا کر انھیں ڈھونڈے۔ سب بس آگے بڑھتے جا رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ہوش ہی نہیں تھا۔ بس دو منٹ کا فاصلہ تھا۔ اگر دومنٹ میں ہم باہر نہیں نکل پاتے تو آج ہم بھی یہاں پر دکھائی نہیں دیتے۔‘
انڈیا کے سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پہلگام حملے کے ایک عینی شاہد کا ویڈیو بیان شیئر کیا ہے۔
عمر نامی شہری نے بتایا کہ حملے کے بعد وہ شدید پریشانی کی حالت میں تھے کیونکہ اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔
’ہم بھی پریشان ہیں، ہمارے مہمان بھی پریشان ہیں۔یہ بہت غلط ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
اس واقعے میں حسین شاہ نامی شخص ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ حسین شاہ اس مقام پر سیاحوں کو گھوڑے فراہم کرتے تھے۔
ان کے رشتہ دار سید حیدر شاہ نے اے این آئی کو بتایا کہ ’حیسن مزدوری کے لیے وہاں گھوڑے چلانے گیا تھا۔ہمیں تین بجے اس واقعے کی رپورٹ ملی۔ جب ہم نے اس کو فون کیا تو کال نہیں مل سکی۔ چار بجے کے بعد اس کا فون آن ہوا مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ بعدازاں ہسپتال گئے تو وہاں اس کی میت پڑی تھی۔‘
’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونجپہلگام حملے میں انڈین بحریہ کے افسر سمیت 26 ہلاک: مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس، پاکستان کا اظہارِ افسوسکشمیر میں ’جنگل وار فیئر‘: انڈین فورسز کو دشوار گزار علاقوں میں آپریشن کے دوران مشکلات کا سامنابالاکوٹ فضائی حملہ: وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے