کیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے غزہ پر ’قبضہ‘ کر سکتا ہے؟ پانچ اہم سوالوں کے جواب

بی بی سی اردو  |  May 11, 2025

Getty Images

اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دینے اور مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے حماس کو تباہ کرنے اور باقی یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے مطابق آپریشن سے قبل غزہ کی تقریبا 21 لاکھ کی آبادی کو حفاظت کی غرض سے محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے گا۔

اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے کے اس آپریشن کے اعلان نے بین الاقوامی سطح پر نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

اسرائیل کا غزہ کے لیے منصوبہ کیا ہے؟

اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے گذشتہ ہفتے جس منصوبے کی منظوری دی اس میں غزہ پر قبضہ، علاقے کو اپنے زیر کنٹرول رکھنا، حماس کے خلاف بھرپور حملے اور اس کو انسانی امداد کی تقسیم کی صلاحیت سے محروم کرنا شامل ہے۔

اس فیصلے کے مطابق فوجی آپریشن کے تحت بیشتر فلسطینیوں کو غزہ کے جنوبی حصے میں منتقل کیا جائے گا جب کہ فضائی حملے اور فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں غزہ کے مزید علاقوں پر قبضہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے ساتھ واقع ’بفر زون‘ میں توسیع شامل ہے۔

اس تجویز میں نجی کمپنیوں کے ذریعے امداد کی ترسیل کا منصوبہ بھی شامل ہے جس سے گذشتہ دو ماہ سے جاری ناکہ بندی ختم ہونے کی توقع ہے۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزائی امداد نہ پہنچنے کے باعث غزہ کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق حماس کی قید میں موجود باقی 59 یرغمالیوں میں سے اندازہ دو درجن کے قریب زندہ ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے ناقدین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ کیونکہ فوجی کارروائی کے باوجود یرغمالیوں کی واپسی ممکن نہ ہو سکی اس لیے حماس کے ساتھ معاہدہ کیا جائے۔

وزیر اعظم نتن یاہو نے یہ واضح نہیں کیا کہ فوجی کتنے علاقے پر قبضہ کریں گے۔ تاہم انھوں نے زور دیا کہ ’وہ صرف اندر نہیں جائیں گے بلکہ وہاں ڈٹے رہیں گے۔‘

تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ منصوبہ اُس وقت تک نافذ نہیں کیا جائے گا جب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 13 سے 16 مئی کے دوران اس علاقے کا اپنا طے شدہ دورہ مکمل نہ کر لیں۔

اس عرصے کو حماس کے لیے ایک نایاب موقع قرار دیا جا رہا ہے جس میں وہ نئی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر رضامند ہوجائیں۔

غذائی قلت کا خدشہ کیوں ہے؟

اس منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی غزہ کے پورے علاقے میں قحط کے خدشات ایک بار پھر سر اُٹھانے لگے ہیں۔

یاد رہے کہ رواں سال دو مارچ کو اسرائیل نے غزہ کے تمام بارڈر کراسنگ بند کر دیے تھے جس کے نتیجے میں خوراک، ایندھن اور ادویات سمیت تمام اشیا کی رسائی بند ہو گئی تھی جبکہ دو ہفتے بعد ہی اسرائیل نے دوبارہ فوجی کارروائی شروع کر دی جس سے دو ماہ کی جنگ بندی کا خاتمہ ہو گیا۔

اسرائیل کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ یرغمالیوں کو رہا کر سکیں۔

تاہم اسرائیل پراپنی ناکہ بندی ختم کر نے کا بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ جان بوجھ کر شہریوں کو بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے اور اسرائیلی اقدام سے وہاں بڑے پیمانے پر قحط کا خطرہ ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ برائے خوراک اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا نے کہا ہے کہ ان کے پاس موجود تمام ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔

Getty Imagesمنصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی غزہ کے پورے علاقے میں قحط کے خدشات ایک بار پھر سر اُٹھانے لگے ہیں

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی آبادی دوبارہ غذائی قلت اور غذائی کمی کا شکار ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق وہاں اجناس اور اشیائے خوردونوش کے گودام خالی ہیں، بیکریاں بند ہو چکی ہیں جبکہ کمیونٹی کچن بھی چند دن میں خالی ہو جائیں گے۔

ناکہ بندی کے باعث غزہ میں ضروری ادویات، ویکسینز اور طبی آلات کی فراہمی بھی بند کر دی گئی ہے جن کی غزہ کے تباہ حال طبی نظام کو اشد ضرورت ہے۔

تاہم اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں امداد کی کوئی کمی نہیں ہے۔

اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ حماس امدادی سامان کو چوری کر کے اپنے جنگجوؤں کو دیتا ہے یا اس کو فروخت کر کے رقم حاصل کرتا ہے۔

غزہ پر ’قبضے‘ کے اسرائیلی منصوبے کے بعد جنگ بندی پر بات چیت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی: حماسجنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہ’غزہ میں اب ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں‘اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟

اقوام متحدہ اور دیگر ایجنسیاں اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے پاس سخت مانیٹرنگ کے نظام موجود ہیں۔

امداد کی نجی کمپنیوں کے ذریعے ترسیل کے نئے منصوبے کے اعلان کے بعد اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے اسے انسانی بنیادوں کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اس میں تعاون سے انکار کیا ہے۔

قحط کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کیا کہتے ہیں؟

یاد رہے کہ قحط دراصل وہ حالت ہوتی ہے جب کسی ملک میں خوراک کی اس قدر قلت ہو جائے کہ لوگ شدید غذائی کمی، بھوک یا موت کے دہانے پر پہنچ جائیں۔

کسی بھی ملک کے قحط کے دہانے پر پہنچنے کا تعین عام طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے دیا جاتا ہے جس میں بعض اوقات ملک کی حکومت اور دیگر بین الاقوامی امدادی یا انسانی اداروں کی رائے بھی شامل کی جاتی ہے۔

اس کا تعین اقوام متحدہ کے مخصوص سکیل سے کیا جاتا ہے جس میں کسی ملک میں خوراک کی کمی کو پانچ سطحوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور پیمانے میں قحط پانچویں اور سب سے شدید سطح ہے۔

کسی مخصوص علاقے میں قحط کے باضابطہ اعلان کے لیے تین شرائط پوری ہونی ضروری ہیں۔

کم از کم 20 فیصد خاندان شدید غذائی قلت کا شکار ہوں کم از کم 30 فیصد بچے شدید غذائی کمی میں مبتلا ہوںہر 10,000 افراد میں دو بالغ یا چار بچے روزانہ بھوک یا بھوک سے جڑی بیماریوں سے مر رہے ہوںGetty Imagesاقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی آبادی دوبارہ غذائی قلت اور غذائی کمی کا شکار ہو رہی ہے

جنیوا کنونشنز کے تحت عام شہریوں کو بھوکا رکھنا ممنوع اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل عالمی قانون کے تحت تقریبا غزہ کی تقریبا مکمل بے گھر ہو جانے والی آبادی کے لیے امداد کی فراہمی کا پابند ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق عمل کر رہا ہے اور غزہ میں امداد کی کوئی کمی نہیں ہے۔

لیکن تازہ ترین منصوبے کے تحت جنوبی غزہ میں فوج کے کنٹرول والے مراکز کے ذریعے امداد کی فراہمی کے منصوبے کو اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ادارے نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امداد کو ’ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی دانستہ کوشش‘ دکھائی دیتی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں امداد کی ترسیل مکمل طور پر بند رکھے گا حماس جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں دلچسپی نہیں لے گا۔

تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ زمینی حالات کی نگرانی کر رہا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ جنگ بندی کے دوران 25 ہزار سے زائد ٹرک تقریباً ساڑھے چار لاکھ ٹن سامان غزہ میں لے کر گئے۔

حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھوں نے نیتن یاہو کو آگاہ کیا ہے کہ ’ہمیں غزہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہوگا‘۔ صدر ٹرمپ نے غزہ میں زیادہ خوراک اور ادویات فراہم کرنے پر زور دیا۔

اس پر اسرائیل کا کوئی سرکاری ردعمل تو سامنے نہیں آیا لیکن اس سے قبل اسرائیلی وزارت خارجہ نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے ناکہ بندی کو ناقابل برداشت قرار دینے کی مشترکہ تنقید کو مسترد کر تے ہوئے اسے ختم کرنے پر زور دیا تھا۔‘

معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا؟

اسرائیلی فوج نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے شدید حملے کے بعد اسے تباہ کرنے کے لیے اپنی کارروائی شروع کی تھی۔

حماس کے حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق تب سے اب تک غزہ میں کم از کم 52,567 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے 2,459 اسرائیلی فوجی کارروائی کے دوبارہ آغاز کے بعد مارے گئے۔

تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ جنوری میں نافذ ہوا جس کے تحت حماس نے 33 یرغمالیوں کو رہا کیا اور اسکے جواب میں اسرائیل نے تقریباً 1,900 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا اور امداد کی ترسیل کی اجازت دی۔

جنگ بندی کے بعد جب ہزاروں بے گھر غزہ واپس لوٹے تو حماس اور اسرائیل کے درمیان دوسرے مرحلے کی بات چیت شروع ہونا تھی۔

اس حوالے سے فریقین نے اتفاق کیا تھا کہ دوسرے مرحلے میں باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا شامل ہوگا، جس سے جنگ کا خاتمہ ہو گا۔

پہلا مرحلہ یکم مارچ کو ختم ہو گیا، لیکن دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

غزہ کتنا بڑا ہے اور اسے کون کنٹرول کرتا ہے؟

2007 سے حماس غزہ کی عملی طور پر حکمران جماعت ہے۔ 41 کلومیٹر لمبا اور 10 کلومیٹر چوڑا یہ خطہ اسرائیل، مصر اور بحیرہ روم سے گھرا ہوا ہے۔

حماس کو اسرائیل، امریکہ اور کچھ دیگر مغربی حکومتوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ حماس نے 2006 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور غزہ پر اپنا کنٹرول مضبوط کیا۔

اس کے بعد کے سالوں میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کئی بڑے تنازعات ہوئے جن میں دو ہزار آٹھ، دو ہزار نو، دو ہزار بارہ اور دو ہزار چودہ کے تنازعات شامل ہیں۔

غزہ پر ’قبضے‘ کے اسرائیلی منصوبے کے بعد جنگ بندی پر بات چیت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی: حماسجنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہوہ 90 منٹ جن میں لیا گیا فیصلہ یہودیوں پر قیامت بن کر ٹوٹا’غزہ میں اب ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں‘اسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More