’سب کچھ ایک منٹ میں ختم ہو گیا‘: غزہ کے آئی وی ایف سینٹر پر اسرائیلی حملے جس نے متعدد جوڑوں کا والدین بننے کا خواب توڑ دیا

بی بی سی اردو  |  May 28, 2025

Noura's family archiveنورا اور محمد جنگ شروع ہونے سے قبل بچوں کی پیدائش کو لے کر کافی پرامید تھے

’میری ہمت ختم ہو چکی ہے۔۔۔‘ 26 سالہ فلسطینی خاتون نورا ہمیں بتا رہی تھیں کہ ان کے پاس اب ’کچھ بھی باقی نہیں رہا۔‘

برسوں کے آئی وی ایف علاج کے بعد نورا جولائی 2023 میں حاملہ ہوئی تھیں۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میں بہت زیادہ خوش تھی۔‘

نورا اور ان کے شوہر محمد نے غزہ شہر کے ’البسمہ فرٹیلیٹی سینٹر‘ میں مزید دو ایمبریو (جنین) محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ مستقبل میں وہ مزید بچے پیدا کر سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ میرا خواب آخر سچ ہو گیا لیکن جس دن اسرائیلی آئے مجھے لگا کہ سب ختم ہو گیا۔‘

اسرائیل نے حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے جواب میں غزہ میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ حماس کے اس حملے میں 1200 افراد مارے گئے جبکہ 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائی میں اب تک کم از کم 54 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔

غزہ کے بہت سے شہریوں کی طرح نورا اور محمد کو بھی بار بار نقل مکانی کرنا پڑی اور اس دوران نورا کھانے، وٹامنز اور ادویات سے محروم رہیں جو ایک صحت مند حمل کے لیے ضروری چیزیں ہیں۔

Nouraبرسوں کے آئی وی ایف علاج کے بعد نورا جولائی 2023 میں حاملہ ہوئی تھیں

محمد بتاتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کی بمباری کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے انھیں گھنٹوں مسلسل چلنا پڑتا تھا۔

حمل کے ساتویں ماہ کے دوران نورا کا خون بہنا شروع ہوا۔

محمد بتاتے ہیں کہ ’نورا کا بہت خون بہہ رہا تھا لیکن ہمیں ان کو ہسپتال لے جانے کے لیے گاڑی بھی نہیں مل رہی تھی۔ آخر میں ہمیں انھیں کچرے کے ایک ٹرک میں لے جانا پڑا۔‘

’جب ہم ہسپتال پہنچے تو اسقاط حمل شروع ہو چکا تھا۔‘

نورا اور محمد کے جڑواں بچوں میں سے ایک پیدائش کے وقت ہی مردہ تھا جبکہ دوسرا بچہ پیدائش کے کچھ گھنٹے بعد ہی مر گیا۔

محمد بتاتے ہیں کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے کوئی انکیوبیٹر ہی نہیں تھا۔ نورا بتاتی ہیں کہ ’سب کچھ ایک منٹ میں ختم ہو گیا۔‘

اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ ساتھ اس جوڑے نے اپنے منجمد جنین بھی کھو دیے۔

’وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں‘: جب غزہ کی ڈاکٹر آلاء کو خبر ملی کہ ان کے نو بچے اسرائیلی حملے میں مارے گئےنڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت: غزہ کے ہسپتال میں لاغر اور خوفزدہ بچوں کی کہانیاسرائیلی فوج نے غزہ میں نہتی طبی ٹیم کے ’قریب جا کر 100 سے زیادہ گولیاں چلائیں‘’بس، بہت ہو گیا‘: نیتن یاہو کے لیے ہنگامہ خیز ہفتہ، غزہ میں بھوک اور عالمی ’سفارتی سونامی‘ کے بیچ خاموش بیٹھے ٹرمپہزاروں ایمبریو تباہ ہو گئے

’البسمہ فرٹیلیٹی سینٹر‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بہا غلائینی انتہائی دکھ کے ساتھ بتاتے ہیں دسمبر 2023 میں اس مرکز پر بمباری کی گئی۔

وہ اس بارے میں درست اعداد و شمار دینے سے قاصر ہیں کہ اس سینٹر کو آخری بار کب آپریشنل دیکھا گیا تھا۔

ڈاکٹر غلائینی کے مطابق اس کلینک کے سب سے اہم حصے میں دو ٹینک رکھے گئے تھے جن میں تقریباً چار ہزار منجمد ایمبریو (جنین) جبکہ سپرم اور انڈوں کے ایک ہزار سے زیادہ نمونے رکھے گئے تھے۔

Andalou via Getty Imagesعزہ میں تولیدی صحت کے تمام مراکز یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا ایسی حالت میں ہیں کہ وہاں سے کوئی کام نہیں ہو رہا

وہ بتاتے ہیں کہ ’10 ہزار ڈالر سے زیادہ لاگت کے دو تباہ شدہ انکیوبیٹرز مائع نائٹروجن سے بھرے ہوئے تھے، جن میں ان نمونوں کو محفوظ رکھا گیا تھا۔‘

’ان میں باقاعدگی سے نائٹروجن بھرنے کی ضرورت تھی تاہم ’گولہ باری سے تقریباً دو ہفتے پہلے ان میں نائٹروجن کی سطح کم ہونا شروع ہو گئی۔‘

لیبارٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد اجور کہتے ہیں کہ وہ ’النصیرات میں نائٹروجن کے ویئر ہاؤس پہنچے اور انھیں دو ٹینک مل گئے۔‘

لیکن ان کا کہنا ہے کہ شدید گولہ باری کی وجہ سے وہ صرف 12 کلومیٹر دور کلینک تک یہ ٹینک پہنچانے میں ناکام رہے۔ ’پھر مرکز پر گولہ باری کی گئی اور یہ نائٹروجن بے کار ہو گئی۔‘

ڈاکٹر بہا غلائینی کہتے ہیں کہ اس مرکز میں ایسے لوگوں کے جنین بھی محفوظ تھے، جن کا علاج دوسرے ہسپتالوں یا مراکز میں ہو رہا تھا۔

’میں چار ہزار جنین کی بات کر رہا ہوں۔ یہ صرف نمبر نہیں بلکہ لوگوں کے خواب تھے۔ ایسے لوگ جنھوں نے برسوں انتظار کیا، دردناک علاج سے گزرے اور جن کی امیدیں ان ٹینکوں سے جڑی تھیں، جنھیں تباہ کر دیا گیا۔‘

ان کا اندازہ ہے کہ 100 سے 150 خواتین کے کبھی بچے نہیں ہو سکیں گے کیونکہ وہ دوبارہ یہ علاج نہیں کروا سکتی ہیں۔

’کچھ خواتین بوڑھی ہو رہی ہیں، کچھ کو کینسر ہے، کچھ خواتین کو خطرناک بیماریاں ہیں۔ بہت سی خواتین نے حاملہ ہونے کے لیے ایسی ادویات لیں، جو وہ دوبارہ استعمال نہیں کر سکتی ہیں۔ اس سارے عمل سے دوبارہ گزرنا آسان نہیں۔‘

Andalou via Getty Images’البسمہ فرٹیلیٹی سینٹر‘ پر دسمبر 2023 میں بمباری کی گئی

جب اس بارے میں اسرائیلی فوج سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اسی صورت میں بہتر جواب دینے کے قابل ہوں گے اگر اس ’حملے کے صحیح وقت‘ کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جائیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ ’بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کرتے ہیں اور شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔‘

اس سال مارچ میں اقوام متحدہ کے خود مختار بین الاقوامی کمیشن برائے انکوائری نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے ’غزہ میں فلسطینیوں کی پیدائش روکنے کے لیے بسمہ آئی وی ایف کلینک پر جان بوجھ کر حملہ کیا اور اسے تباہ کیا۔‘

اس کمیشن نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اسرائیل نے ادویات سمیت ایسی امداد کو بھی خواتین تک پہنچنے سے روکا جو حمل، بچے کی پیدائش اور نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔

کمیشن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسرائیلی حکام نے ’غزہ میں فلسطینیوں کی تولیدی صلاحیت کو تباہ کیا، جو نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔‘

کمیشن کی اس رپورٹ کے وقت اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مشن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ’ان بے بنیاد الزامات کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے بھی غصے سے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس رپورٹ کو کمیشن کرنے والا ادارہ ’ہیومن رائٹس کونسل‘ یہود مخالف، بوسیدہ اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے والا اور غیر متعلقہ ادارہ ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ادارہ حماس کے جنگی جرائم پر توجہ دینے کی بجائے اسرائیل پر ’جھوٹے الزامات‘ کے ساتھ حملہ آور ہو رہا ہے۔

اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’وہ جان بوجھ کر تولیدی صحت کے مراکز کو نشانہ نہیں بناتے اور نہ ہی غزہ کی شرح پیدائش کو روکنے کی کوشش کی گئی۔‘

’میں نے سب کچھ تباہ ہوتے دیکھا‘Islamالبسمہ کلینک کی مدد سے سنہ 2023 میں حاملہ ہونے والی اسلام لبداد نے مس کیرج میں اپنے بچے کو کھو دیا

ڈاکٹر بہا غلائینی بتاتے ہیں کہ عزہ میں تولیدی صحت کے تمام نو مراکز یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا ایسی حالت میں ہیں کہ وہاں سے کوئی کام نہیں ہو رہا۔

نورا کہتی ہیں اس وجہ سے ان کے اور بہت سے دوسرے لوگوں کے بچے پیدا ہونے کے امکان انتہائی کم رہ گیا ہے۔

سارہ خوداری نے سنہ 2020 میں اپنا علاج شروع کیا۔ اکتوبر 2023 میں جب جنگ شروع ہوئی تو وہ ایمبریو ایمپلانٹ کروانے کی تیاری کر رہی تھیں لیکن ایسا کبھی نہ ہو سکا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سب کچھ تباہ ہوتے دیکھا۔‘

البسمہ کلینک کی مدد سے سنہ 2023 میں حاملہ ہونے والی اسلام لبداد نے بھی نورا کی طرح اپنے بچے کو کھو دیا۔

’ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کر رہے تھے۔ میرا جسم تھک چکا تھا۔‘

اسلام نے بھی اپنے کچھ جنین کو البسمہ کلینک میں محفوظ کروایا تھا لیکن اس مرکز کی تباہی کے بعد ان کے پاس اب کچھ نہیں بچا اور نہ ہی کوئی ایسا آئی وی ایف کلینک باقی ہے، جو ان کو حاملہ ہونے میں مدد کر سکے۔

’وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں‘: جب غزہ کی ڈاکٹر آلاء کو خبر ملی کہ ان کے نو بچے اسرائیلی حملے میں مارے گئےنڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت: غزہ کے ہسپتال میں لاغر اور خوفزدہ بچوں کی کہانیاسرائیلی فوج نے غزہ میں نہتی طبی ٹیم کے ’قریب جا کر 100 سے زیادہ گولیاں چلائیں‘’بس، بہت ہو گیا‘: نیتن یاہو کے لیے ہنگامہ خیز ہفتہ، غزہ میں بھوک اور عالمی ’سفارتی سونامی‘ کے بیچ خاموش بیٹھے ٹرمپ’میں اسے زندہ رکھنے کے لیے پہاڑ بھی کھودوں گی۔۔۔‘ غزہ پر اسرائیلی بمباری کے دوران پیدا ہونے والے بچے کی کہانیغزہ 101: جنگ کی ہولناکیوں کے عینی شاہد، ’میرے والد کا چہرہ قابلِ شناخت نہیں رہا تھا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More