انڈیا کے وزیر خارجہ کا پانچ سال میں چین کا پہلا دورہ کیا پاکستان سمیت امریکہ اور روس کے لیے بھی ایک پیغام ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 21, 2025

انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ ہفتے چین کا دورہ کیا جہاں انھوں نے چینی صدر شی جن پنگ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔

جے شنکر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ملک گزشتہ کچھ سال سے جاری کشیدگی کے بعد دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2020 کے گلوان تنازع کے بعد یہ انڈیا کے وزیر خارجہ کا پہلا چین کا دورہ تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ انڈیا میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ تنازع کے دوران چین کی طرف سے اسلام آباد کی حمایت پر بہت زیادہ بحث چھڑی ہوئی ہے، جے شنکر کا دورہ چین صرف ایک سفارتی دورہ نہیں ہے بلکہ کئی اہم سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کے دوران چین نہ صرف کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہا تھا بلکہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ اس نے اسلام آباد کو ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ ایسے میں جے شنکر کا چین جانا کتنا درست ہے؟

کیا انڈیا چین کے قریب آ کر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے؟ کیا جنوبی ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں چین کا اثر و رسوخ انڈیا سے زیادہ ہے؟

مزید خبروں کے لیے بی بی سی اردو کے واٹس ایپ چینل کا رُخ کریں!

تعلقات میں نئے دور کا آغاز یا محض علامتی دورہ؟

گزشتہ سال اکتوبر میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے روس میں برکس سربراہی اجلاس کے دوران ملاقات کی تھی۔ 2020 میں کشیدگی کے بعد مودی اور شی جن پنگ کے درمیان یہ پہلی دو طرفہ ملاقات تھی جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔

گزشتہ ماہ جون میں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بیجنگ پہنچے تھے۔ ان دونوں نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں شرکت کی۔

اب جے شنکر کے دورہ چین کے بعد کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ تعلقات کی بحالی ہے۔ ساتھ ہی کچھ لوگ اسے محض علامتی دورہ بھی قرار دے رہے ہیں۔

بین الاقوامی امور کی ماہر شروتی پنڈال کا ماننا ہے کہ جے شنکر کے اس دورے کو دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے اور تنازعوں کے باعثاکثر جھڑپیں بھی ہو جاتی ہیں۔

انڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب’پاکستان اور انڈیا کی جنگ کے دوران پانچ طیارے گرائے گئے‘: امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ اور کانگریس کا مودی سے سوالتجارتی ہتھیار، ’ٹرمپ سے مایوسی‘ اور روس: کیا انڈیا چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟انڈیا کو برکس کے اندر امریکہ اور اسرائیل کا ’ٹروجن ہارس‘ کیوں کہا گیا؟

تاہم حال ہی میں، اپریل میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا اور چین دونوں پر تجارتی محصولات عائد کیے تھے۔ چین نے کھل کر احتجاج کیا جبکہ انڈیا نے مذاکرات کا راستہ چنا۔

ایسے حالات میں انڈیا کی ترجیح کیا ہے؟

بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر پشپ ادھیکاری اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’اصل مسئلہ سرحد کا ہے لیکن اب اسے ایک طرف کر دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ امریکی صدر کی پالیسیوں نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ تعلق کہاں تک جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ امریکہ انڈیا سے دو طرفہ تجارت کے لیے کہے اور خود کو روس اور چین سمیت برکس ممالک سے دور کر لے۔ اگر انڈیا ٹرمپ کی بات مان لیتا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات بہت آگے جائیں گے۔‘

Getty Imagesجب پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع اپنے عروج پر تھا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان کیاپاکستان، امریکہ اور روس کے لیے پیغام؟

جے شنکر کا دورہ انڈیا کی اندرونی سیاست میں بھی بحث کا موضوع بن گیا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس نے سوال اٹھایا کہ ’پاکستان کی حمایت کرنے والے چین کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ایسٹ ایشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ ’اگر وزیر خارجہ چین نہ جاتے تو کہیں نہ کہیں انڈیا کے مفادات کو نقصان پہنچتا۔‘

ان کے مطابق ’وزیر خارجہ نے ایس سی او کے پلیٹ فارم پر دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے، اگر وہ وہاں نہ جاتے تو ایسی آوازیں نہ اٹھتیں۔ اگر آپ انکار کرتے ہیں تو جو سمٹ انڈیا میں ہونا ہے، تو ممکن ہے کہ چینی قیادت انڈیا آنے سے انکار کردے۔‘

جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع اپنے عروج پر تھا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان کیا۔ پاکستان نے ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا جبکہ انڈیا نے اب تک جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کو قبول نہیں کیا۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے بارہا جنگ بندی میں اپنے اہم کردار کا اعادہ کیا ہے۔

شروتی پنڈال کا کہنا ہے کہ ’انڈیا نے امریکہ سے بارہا کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کا مسئلہ دو طرفہ مسئلہ ہے، اسی طرح انڈیا چین کے ساتھ تعلقات کو دوطرفہ رکھنا چاہتا ہے۔ ایس سی او میں وزیر خارجہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی تیسرا فریق دوطرفہ تعلقات کو متاثر نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے چین اور امریکہ کے مفادات میں توازن برقرار ہے۔‘

پروفیسر پشپ ادھیکاری کا کہنا ہے کہ ’روس سے خبر آئی ہے کہ وہ روس-چین-انڈیا کے سہ فریقی اتحاد کو فعال کرنا چاہتا ہے۔ اب انڈیا کو کچھ جواب دینا ہی پڑے گا کیونکہ دلی اس معاملے پر امریکہ کے قریب ہو رہا تھا۔ اب انڈیا کو اپنا پارٹنر منتخب کرنے کا چیلنج درپیش ہو گا۔‘

Getty Imagesگزشتہ سال اکتوبر میں وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر شی جن پنگ نے روس میں ملاقات کی تھیانڈیا کو درپیش چیلنج

انڈیا اور چین کے درمیان سفارتی سطح پر اگرچہ تعلقات میں بہتری کی کوشش ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے بنیادی اور مستقل چیلنجز بدستور موجود ہیں۔

پچھلے کچھ سال میں بالخصوص گلوان تنازع کے بعد تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے جو اب تک مکمل طور پر حل نہیں ہو سکا ہے۔

چین کی پاکستان سے قربت اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) جیسے منصوبوں سے انڈیا کے سیکورٹی خدشات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی، امریکہ اور کواڈ ممالک کے ساتھ انڈیا کا تعاون ایک ایسا عنصر ہے جو چین کو بے چین کرتا ہے۔

انڈیا اور چین کی تجارت میں بھی بہت عدم توازن ہے۔ انڈیا سب سے زیادہ سامان چین سے درآمد کرتا ہے لیکن خود چین کو بہت کم سامان فروخت کرتا ہے۔

اس عدم مساوات پر شروتی پنڈالے کہتی ہیں کہ ’وزیر خارجہ نے بھی یہی مسائل اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ آپ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن ہمارے مسائل بھی سنیں۔ دراصل چین کے ساتھ کچھ بھی آسان نہیں ہے۔ انڈیا چین کے ساتھ برسوں سے بات چیت کر رہا ہے۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی جغرافیائی سیاست کا رجحان اس وقت انڈیا کے حق میں ہے۔‘

چین کو دلائی لامہ کی انڈیا میں موجودگی اور تبت سے متعلق معاملات پر پہلے ہی اعتراض ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا برہم پترا دریا پر چین کی سرگرمیوں سے بھی کافی پریشان ہے۔

ایسے میں بھارت کو تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے کن چیزوں پر توجہ دینی چاہیے؟

اس سوال کے جواب میں پروفیسر پشپ ادھیکاری کا کہنا ہے کہ ’چین کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے انڈیا کو بہت سے معاملات پر اپنا بین الاقوامی موقف واضح کرنا ہو گا۔‘

’انڈیا اور چین دو مختلف تہذیبیں ہیں لیکن دونوں نے ایک ساتھ ترقی کی ہے اور اگر مستقبل میں دونوں کے تعلقات مزید مضبوط ہو جائیں تو دونوں مل کر امریکی دباؤ کو کم کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موثر علاقائی تعاون ہونا چاہیے، تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو۔‘

پروفیسر راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور چین کو سب سے پہلے تعلقات میں استحکام اور مضبوطی پر توجہ دینی چاہیے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ’سب سے پہلے تعلقات میں استحکام ضروری ہے۔ دوم، دیرینہ سرحدی تنازع کو حل کیا جانا چاہیے۔ سوم، امریکہ اور پاکستان کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اگر انڈیا اور چین ان تینوں باتوں پر توجہ دیں تو دونوں ممالک کے تعلقات اچھی سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘

ہنزہ کی چراگاہ اور ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ: وہ معاہدہ جس نے چین کی پاکستان سے دوستی کی بنیاد رکھیانڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب’پاکستان اور انڈیا کی جنگ کے دوران پانچ طیارے گرائے گئے‘: امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ اور کانگریس کا مودی سے سوالامریکہ نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہ کو ’عالمی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کا فیصلہ اب ہی کیوں کیا؟تجارتی ہتھیار، ’ٹرمپ سے مایوسی‘ اور روس: کیا انڈیا چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟انڈیا کو برکس کے اندر امریکہ اور اسرائیل کا ’ٹروجن ہارس‘ کیوں کہا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More