باجوڑ کے 16 دیہات میں آبادی کی نقل و حرکت پر تین روزہ پابندی: تحصیل ماموند میں ’ٹارگٹڈ کارروائیوں‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

بی بی سی اردو  |  Jul 30, 2025

صوبہ خیبرپختونخوا میں ضلع باجوڑ کی افغانستان سے متصل تحصیل 'ماموند' کے 16 دیہات میں 'عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیوں' کی غرض سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شہریوں پر عائد کردہ نقل و حرکت کی پابندیوں کا آج دوسرا دن ہے اور علاقہ مکینوں کے مطابق پہلے دن کے برعکس آج نہ تو فضا میں ہیلی کاپٹر گشت کر رہے ہیں اور نہ ہی فائرنگ یا بمباری کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔

باجوڑ کے مقامی صحافی بلال یاسر نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ نقل و حرکت پر پابندیوں کے پہلے دن (یعنی منگل کو) پورے علاقے میں شدید فائرنگ کی آوازیں سُنی گئی تھیں جس کے بعد چند ’خوفزدہ خاندانوں نے علاقے سے نقل مکانی بھی کی تھی۔‘

بلال یاسر کا کہنا ہے کہ تحصیل ماموند کی طرف جانے والے مرکزی راستے (عمری چوک) پر اِس وقت ایک احتجاج ہو رہا ہے جس میں شامل ’مظاہرین نے ہاتھوں میں قرآن اُٹھا رکھے ہیں اور وہ علاقے میں جاری ’فوجی آپریشن‘ پر تنقید کر رہے ہیں۔‘

یہ احتجاج پی ٹی آئی کے سابق رُکنِ اسمبلی گُل ظفر خان کی قیادت میں جاری ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز (29 جولائی) باجوڑ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں بتایا گیا تھا کہ تحصیل ماموند کے 16 دیہات میں آئندہ تین روز کے لیے عوام کی نقل و حرکت پر پابندی عائد رہے گی جس کا اطلاق 29 جولائی سے لے کر 31 جولائی کو شام پانچ بجے تک جاری رہے گا۔

اس نوٹیفیکیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹی (باجوڑ) کی سفارش پر نقل و حرکت کی یہ پابندی عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ ایکشنز (کارروائیوں) کے دوران عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

تاہم اس حوالے سے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی جانب سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ نقل و حرکت پر پابندی کے پہلے روز (29 جولائی) کو ہونے والی کارروائیوں کے دوران چند مقامی افراد مارے گئے ہیں تاہم ہسپتال یا سرکاری ذرائع اس کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے آفس سے جاری کردہ ایک بیان میں ضلع باجوڑ میں 'معصوم شہریوں کی شہادت' پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے خاندانوں کے لیے ایک، ایک کروڑ روپے جبکہ زخمی ہونے والے شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے خاندانوں کے لیے 25، 25 لاکھ روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔

تاہم وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہلاکتوں کی تعداد کتنی ہے۔

اس حوالے سے باجوڑ کے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ بی بی سی اُردو کے رابطہ کرنے پر باجوڑ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر حیات نے بتایا کہ اُن کے پاس اس ضمن میں جو بھی تفصیلات تھیں وہ انھوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر بھیج دی گئی ہیں اور میڈیا وہیں سے یہ تفصیلات حاصل کر سکتا ہے۔

صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد گنڈاپور نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ انھوں نے ’تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ صوبائی محکمہ داخلہ کی اجازت کے بغیر کہیں بھی کرفیو یا دفعہ 144 نافذ نہ کریں۔‘

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں بشمول ٹانک، وادی تیراہ اور باجوڑ میں حالیہ کچھ عرصے میں جہاں بے امنی کے واقعات میں تیزی آئی ہے، وہیں سکیورٹی فورسز کی ٹارگٹڈ کاررائیوں کے دوران شہریوں کی مبینہ ہلاکتوں پر مقامی افراد نے احتجاج بھی کیے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ٹانک اور وادی تیراہ میں پیش آئے دو الگ الگ واقعات میں دو بچیوں کی مبینہ ہلاکت کے بعد مقامی آبادی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا ردعمل

باجوڑ میں جاری کارروائیوں کے بیچ صوبے کی سیاسی جماعتیں بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہی ہیں۔

صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’دہشتگردی کے خلاف آپریشنز میں شہریوں کے جانی نقصانات کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور اس طرح کے واقعات سے فوج اور عوام کے درمیان اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ عوامی اعتماد ختم ہونے کی وجہ سے ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں جیت پا رہے۔‘

بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہو رہے ہیں لیکن ’غلط پالیسیوں کی وجہ سے اُن کی شہادتوں کی تکریم نہیں ہو رہی ہے۔ امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے صوبے کے قبائلی اضلاع میں جرگے منعقد کیے جائیں گے اور آئندہ دس دنوں میں مقامی جرگوں کے بعد ایک گرینڈ جرگے کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔‘

وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ ’صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو میری ہدایت ہے کہ محکمہ داخلہ کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی بھی کرفیو یا دفعہ 144 نافذ نہیں کرے گا۔‘

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر ایمل ولی خان نے ’ایکس‘ پر دعویٰ کیا ہے کہ باجوڑ میں معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں اور اس سلسلے کو ’بند ہونا چاہیے۔‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) صوبے میں نشستوں کے اعتبار سے دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس کے ترجمان اسلم غوری کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ان کی جماعت باجوڑ کی صورتحال پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماضی میں کیے گئے کسی بھی آپریشن کے حوصلہ افزا نتائج نہیں نکلے ہیں۔‘

باجوڑ کی تحصیل ماموند کیوں اہم ہے؟Getty Imagesرواں مہینے کی ابتدا میں ایک بم دھماکے میں باجوڑ میں ایک اسسٹنٹ کشمنر بھی ہلاک ہوئے تھے

ضلع باجوڑ افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے اور تحصیل ماموند کی سرحد براہ راست افغانستان کے صوبہ کنڑ سے ملتی ہے۔

ماموند ضلع باجوڑ کی سب سے بڑی تحصیل ہے اور اس کا رقبہ لگ بھگ 250 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی سرحد سالارزئی، خار باجوڑ اور ناواگئی تحصیل سے بھی ملتی ہیں۔

افغانستان کے دو اضلاع شگئی اور مروانہ کے ساتھ بھی ماموند کی سرحد ملتی ہے۔

صحافی و تجزیہ کار احسان اللہ محسود نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ چونکہ ضلع باجوز کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اسی لیے یہاں مختلف عسکریت پسند تنظیموں سے منسلک لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں باجوڑ کے پڑوس میں واقع افغان صوبہ کنڑ نام نہاد دولت اسلامیہ کی خراسان شاخ کا اہم گڑھ سمجھا جاتا تھا اور سکیورٹی فورسز کے لیے اس سرحد پر نقل و حرکت کو روکنا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔

باجوڑ میں شدت پسندوں کی کارروائیاں: ٹارگٹڈ کارروائیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟Getty Imagesوزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ محکمہ داخلہ کی اجازت کے بغیر صوبے کے کسی علاقے میں کرفیو نافذ نہ کریں

خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں گذشتہ کچھ عرصے سے حالات کشیدہ ہیں اور یہاں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے گذشتہ کچھ عرصے کے دوران متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ گذشتہ اتوار کو بھی عسکریت پسندوں نے باجوڑ کے علاقے ٹھنگی میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا۔

رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں باجوڑ میں ہی ایک بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر فیصل اسماعیل، ایک تحصیلدار اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

چند ہفتے پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما مولانا خان زیب کو اسی علاقے میں اُس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ علاقے میں امن کے قیام کے لیے ایک پاسون کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

احسان اللہ ٹیپو محسود کہتے ہیں کہ ماضی میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی خُراسان شاخ نے باجوڑ میں کارروائیاں کی ہیں جن میں اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

احسان اللہ محسود کے مطابق ’اب ان علاقوں میں ٹی ٹی پی سرگرم ہے اور بعض شہری علاقوں میں ان کے عسکریت پسندوں کو دیکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے اب سکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔‘

پاکستان میں شدت پسند تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عبدالسید کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی رواں برس کی ابتدا سے ہی قبائلی اضلاع میں دوبارہ اپنے گڑھ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

’گذشتہ چند مہینوں سے باجوڑ میں تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے شواہد سوشل میڈیا پر مقامی عوام اور ٹی ٹی پی کے حامی میڈیا پلیٹ فارمز سے جاری ہونے والی ویڈیو فوٹیج کی شکل میں ملتے ہیں۔‘

’اِن ویڈیوز میں عسکریت پسند مختلف علاقوں، بازاروں اور سڑکوں وغیرہ پر محدود وقت کے لیے چیک پوسٹ لگا کر گاڑیوں کی چیکنگ کرتے اور آبادی میں مسلح گشت کرتے نظر آتے ہیں۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ماضی کے برعکس عسکریت پسند تنظیم اب کسی علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے اعلانات نہیں کرتی کیونکہ ’وہ فورسز کی موجودگی میں زیادہ دیر تک ان علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکتی۔‘

تیراہ میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ کے سامنے فائرنگ کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت: صوبائی حکومت متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر سیف’محرم کے بعد چھٹی پر آؤں گا‘: باجوڑ دھماکے میں ہلاک ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر جو دوستوں سے کیا وعدہ پورا نہ کرسکےخیبر پختونخوا میں تشدد اور ’تشویشناک صورتحال‘: متاثرہ علاقوں اور پس پردہ تنظیموں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟میر علی میں مبینہ ڈرون حملے میں چار بچوں کی ہلاکت کے خلاف دھرنا جاری: ’دو بیٹوں نے میرے سامنے اور تیسرے نے میری گود میں دم توڑا‘کاٹلنگ میں ’شدت پسندوں کے خلاف‘ حملہ اور پاکستان کی ڈرون صلاحیتخیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں مبینہ ڈرون حملوں کے بعد خوف: ’اب لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں‘
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More