بھارت ہر سال آم کی گٹھلیوں سے کروڑوں کیسے کما رہا ہے؟ جانیں ان گٹھلیوں سے مکھن اور تیل بنانے کا طریقہ اور فائدے

ہماری ویب  |  Aug 08, 2025

پاکستان میں آم کا موسم صرف ایک پھل کا موسم نہیں ہوتا بلکہ ایک تہوار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ بازاروں میں میٹھے آم کی خوشبو پھیل جاتی ہے، گلی کوچے رنگ اور ذائقے میں ڈوب جاتے ہیں، اور گھروں میں ٹوکریاں اور ڈبے بھر بھر کے آم آتے ہیں۔ ہم سب ان کا مزہ لیتے ہیں، رس چوس کر یا قاشیں کاٹ کر کھاتے ہیں، اور پھر گٹھلی کو بلا جھجک کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی گٹھلی ایک ایسا خزانہ چھپائے بیٹھی ہے جو اگر ہم سنجیدگی سے استعمال کریں تو اربوں روپے کی معیشت پیدا کر سکتا ہے۔

گٹھلی کے اندر چھپی قیمتی گری

ہر آم کے بیج کے اندر ایک گری موجود ہوتی ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثر کو معلوم ہی نہیں۔ اس گری سے نکالا جانے والا مکھن، جسے "Mango Butter" کہا جاتا ہے، شکل و صورت اور خصوصیات میں کوکا بٹر سے مشابہ ہوتا ہے۔ کوکا بٹر وہی چیز ہے جو دنیا کی مہنگی اور اعلیٰ معیار کی چاکلیٹس بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں آم کی گٹھلی سے حاصل ہونے والے مکھن کی قیمت تقریباً 10 سے 18 ہزار روپے فی کلو ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق آم کے مکھن کی خوشبو اور ذائقہ کوکا بٹر سے بھی زیادہ نفیس ہوتا ہے، جو اسے عالمی مارکیٹ میں ایک الگ مقام دیتا ہے۔

مکھن سے آگے کا سفر

آم کی گٹھلی کا خزانہ صرف مکھن تک محدود نہیں۔ اسی گری سے نکلنے والا تیل، "Mango Seed Oil"، ایک نایاب اور قیمتی پراڈکٹ ہے جو جلد اور بالوں کے لیے نہایت مفید ہے۔ بیوٹی انڈسٹری میں اس کی طلب بہت زیادہ ہے اور اس کی قیمت ٧ سے 9 ہزار روپے فی کلو تک جا پہنچتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تیل نکالنے کے بعد بھی اس گری کا کام ختم نہیں ہوتا۔ جو باقی بچتا ہے، وہ ایک صحت مند، گلُوٹن فری آٹے میں بدل جاتا ہے جو غذائیت سے بھرپور ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جو گلُوٹن سے پرہیز کرتے ہیں۔

پاکستان میں ضائع ہوتا سرمایہ

اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 15 لاکھ ٹن آم پیدا ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ٹن برآمد ہو جاتے ہیں اور باقی ہم خود کھا لیتے ہیں۔ اگر اوسطاً ہر آم کا 25 فیصد حصہ گٹھلی پر مشتمل ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہر سال تقریباً تین لاکھ ٹن گٹھلیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ وہی گٹھلیاں ہیں جن سے لاکھوں ٹن گری حاصل ہو سکتی ہے، اور پھر اسی گری سے ہزاروں ٹن مکھن اور تیل تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ دے سکتا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ خزانہ ہمارے کوڑے دان میں ختم ہو جاتا ہے۔

کاروبار کے مواقع اور آسان شروعات

یہ کام اتنا پیچیدہ یا مہنگا نہیں جتنا سن کر لگتا ہے۔ صرف ایک سولر ڈی ہائیڈریٹر اور ایک ہائیڈرالک آئل پریس مشین کے ساتھ ایک چھوٹے پیمانے کا یونٹ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی کل لاگت تقریباً پانچ سے چھ لاکھ روپے آتی ہے۔ اس یونٹ سے روزانہ 30 سے 60 کلو تک مکھن نکالا جا سکتا ہے، اور صرف ایک مہینے میں اتنی پیداوار ہو جاتی ہے کہ پوری لاگت پوری ہو جائے۔ اس کے بعد یہ یونٹ مستقل منافع دیتا رہتا ہے، اور اگر اسے گاؤں گاؤں لگایا جائے تو یہ ہزاروں خاندانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

بھارت کی کامیابی، ہمارا سبق

بھارت نے یہ موقع بہت پہلے پہچان لیا۔ وہاں آم کی گٹھلی سے مکھن اور تیل نکالنے کا باقاعدہ سسٹم موجود ہے اور ہزاروں ٹن مکھن ہر سال دنیا بھر کو برآمد کیا جاتا ہے۔ ان کی حکومت نے اس شعبے کو ایک ہدف بنا کر چلایا ہے اور وہ اب اس سے اربوں روپے کما رہے ہیں۔ ویب سائٹ Zauba کے مطابق 2015 میں بھارت نے آم کے مکھن کی برآمدات سے تقریباً 2.57 ملین امریکی ڈالر کمائے، جو اُس وقت کے ریٹ کے حساب سے کئی کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی وہی آم، وہی گٹھلی اور وہی مواقع موجود ہیں، لیکن ہم نے ابھی تک اس پر سنجیدگی سے کام شروع نہیں کیا۔

سوچنے کی ضرورت

آم کی گٹھلی کوئی بیکار چیز نہیں، یہ ایک چھپی ہوئی دولت ہے۔ صرف چند قدم آگے بڑھا کر ہم اس کو ایک بڑی انڈسٹری میں بدل سکتے ہیں، جو نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دے بلکہ غربت کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہم اس کچرے کو خزانے میں بدلنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More