175 سال پہلے جنم لینے والا بہائی مذہب: امامِ غائب کے تصور سے جنم لینے والا ’خاموش عقیدہ‘ جو وحدت مذاہب کا پرچار کرتا ہے

بی بی سی اردو  |  Oct 28, 2025

Getty Imagesحیفا (اسرائیل) میں میرزا علی محمد یعنی ’باب‘ کا مقبرہ

دِلی کے جنوب میں اَدھکِھلے کنول کی شکل کی اِس عمارت کے مرکزی حصے میں داخلے کی شرط صرف خاموشی ہے۔

کئی سال پہلے موسم خزاں کی خوشگوار دھوپ میں اسے دیکھنے والے پاکستانی دانشور ڈاکٹر مشتاق مانگٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ 26 ایکڑ پر پھیلے میدان میں باغیچوں، کیاریوں اور سُرخ پتھر کی رَوِشوں سے گھِرے نو حوضوں کے درمیان ایک چبوترے پر 130 فٹ سے زائد بلند یہ عمارت سنگِ مرمر کی پَتیوں پر مشتمل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک کِھلتے کنول کے پھول کا تاثر دیتی اِس عمارت میںخاموشی لازم ہے، کوئی گفتگو نہیں، کوئی آواز نہیں۔ مرکزی ہال میں لوگ چپ چاپ بیٹھے تھے، جیسے مراقبے میں ہوں۔‘

’شہر کے شور سے دور، یہ سکوت گویا عبادت بن جاتا ہے۔ دیواروں پر نہ کوئی تحریر تھی، نہ تصویر۔ صرف سکون تھا جو انسان کو اپنے اندر جھانکنے، دل ہی دل میں اپنے خدا سے باتیں کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ میں بھی کچھ دیر وہاں اِسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔‘

مشتاق مانگٹ اب بھی دریائے جمنا کے کنارے بہاپور گاؤں میں واقع جس عمارت کے سِحر میں مبتلا ہیں اسے ’معبدِ کنول‘ یا ’لوٹَس ٹیمپل‘ کہا جاتا ہے۔

175 سال پہلے جنم لینے والے بہائی مذہب کی اس عبادت گاہ کے آرکیٹیکٹ ایرانی نژاد کینیڈین فریبورز صہباہیں۔ گلوریا فیضی کی کتاب ’سٹوریز اباؤٹ بہائی فنڈز‘ کے مطابق اس معبد کی زمین کی خریداری کے لیے اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی، حیدر آباد (پاکستان)میں ایک ریستوران کے مالک اردشیر رستم پور نے عطیہ کی تھی۔

Getty Imagesانڈیا میں واقع لوٹس ٹیمپل جہاں ’داخلے کی واحد شرط خاموشی ہے‘بابیَت سے بہائیت کا سفر

بہائی مذہب کی جڑیں ’بابیَت‘ میں ہیں۔

چارلس پریسٹن کی انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے لیے تحقیق ہے کہ 20 اکتوبر 1819 کو شیراز (ایران) میں ایک تاجر کے بیٹے میرزا علی محمد کے اس دعوے نے کہ وہ ’باب‘ (یعنی ’دروازہ‘) ہیں، جو امامِ غائب تک رسائی کا ذریعہ ہے، ایک نئے مذہب ’بابیَت‘ کو جنم دیا۔

’سنہ 1844 میں میرزا علی محمد نے اپنے 18 شاگرد مقرر کیے۔ اُن میں خود کو شامل کر کے انھوں نے ایک 19 رکنی گروہ بنایا جنھیں ’حروف ِحَیّ‘ (یعنی زندہ حروف) کہا گیا۔ یہ سب ایران کے مختلف علاقوں میں میرزا علی محمد کی تعلیمات پھیلانے نکل گئے۔ باب کی یہ چھ سالہ جدوجہد قید و بند، سرکاری مخالفت اور مذہبی طبقے کی سخت مزاحمت سے عبارت تھی۔

’آخرکار سنہ 1848 میں اُن کے پیروکاروں نے بدَشْت کے مقام پر مذہب اسلام سے رسمی علیحدگی کا اعلان کر دیا۔‘

پیٹر سمتھ نے اپنی کتاب ’طاہرہ‘ میں لکھا ہے کہ ایران کی ایکشاعرہ، مذہبی مفکر اور خواتین کے حقوق کی علم بردار قرة العین طاہرہ (اصل نام فاطمہ برغانی) بھی بابی تحریک کے ’حروفِ حی‘ (19 شخصیات) میں شامل تھیں۔ ’بدشت کی مجلس میں انھوں نے سب کے سامنے نقاب اُتارا تو انھیں ’طاہرہ‘ یعنی ’پاکیزہ‘ کا لقب دیاگیا۔‘

پریسٹن نے لکھا ہے کہ سنہ 1850 میں سزائے موت سے پہلے اپنی زندگی کے آخری دور میں میرزا علی محمد نے ’باب‘ کا لقب چھوڑتے ہوئے خود کو امامِ مُنتظَر کا دروازہ نہیں بلکہ خود امامِ قائم (مہدی موعود) قرار دیا تھا۔ بعد میں انھوں نے خود کو ’نقطہ‘ (مرکز) اور آخرکار ’الٰہی مظہر‘ کہا۔ اُن کے پیروکار انھیں ’نقطۂ اولیٰ‘، ’حضرتِ اعلیٰ‘ اور ’جمالِ مبارک‘ جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں۔

’بہائی عقیدے میں انھیں بہاءاللہ کے پیش رو اور ایک نبی دونوں مانا جاتا ہے جنھوں نے ’بیان‘ سمیت فارسی اور عربی زبانوں میں کئیتحریریں چھوڑیں۔‘

بہائی مذہب کی ابتداGetty Imagesعبدالبہاء نے بہائیمذہب کو یورپ، امریکا اور دیگر خطوں میں پھیلایا

بابیت کے بانی میرزا محمد علی کی موت کے بعد اُنکے ماننے والے عراق جلا وطن ہو گئے۔ یہاں میرزا یحٰی نوری فرقہ بابیہ کے رہبر تھے، مگر چونکہ وہ خفیہ زندگی گزار رہے تھے چنانچہ اُن کے بھائی میرزا حسین علی نوری نے مذہبی امور سنبھال رکھے تھے۔

سنہ 1863 میں بغداد میں جلاوطنی میں میرزا حسین کا مظہریت کا دعویٰ بابیت کے ماننے والوں میں اختلاف کا سبب بنا۔

محمود صدری نے اپنے مقالے ’بہائیت‘ میں لکھا ہے کہ اختلافات جب شدت اختیار کر گئے تو سلطنت عثمانی نے میرزا حسین کو فلسطین کے شہرعکّا میں جبکہ میرزا یحٰی کو بحیرہ روم کے ملک قِبْرِص بھیج دیا۔

بابیت کے ماننے والوں میں سے وہ گروہ جس نے یحییٰ نوری کی جانشینی کو باقی رکھا وہ ’اَزَلی‘ یا ’اَزَلیہ‘ کہلانے لگے اور میرزا حسین کے پیروکاروں کو اُن کے لقب ’بہاءاللہ‘ کی نسبت سے بہائی کہا جانے لگا۔

پریسٹن کی تحقیق کے مطابق میرزا حسین علی نوری سنہ 1852 میں تہران میں قید تھے جب، اُن کے مطابق، انھیں یہ ادراک ہوا کہ ’اُن ہی کی آمد کی باب نے پیش گوئی کی تھی۔‘

7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفرزرتشت: ایک قدیم مذہب جس نے ’عقیدۂ توحید‘ کا پرچار کیاایران کا پراسرار اور قدیم مذہبی فرقہ ’یارسان‘’دی سیٹانک ٹیمپل‘: شیطان پرستوں کا گروہ جسے امریکہ میں مذہب تسلیم کیا جاتا ہے

میرزا حسین علی کی 100ویں برسی کے موقع پر شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق بہاء اللہ کے مشن کا آغاز سنہ 1852 کے ماہ اگست سے ہوا جب وہ قید کی زندگی گزار رہے تھے۔

اسی سال میں طاہرہ کو بابی عقائد، سیاسی خیالات اور نقاب کشائی کے جرم میں تہران میں موت کی سزا دے دی گئی۔

مارتھا روٹ نے اپنی کتاب ’طاہرہ، دی پیور‘ میں لکھا ہے کہ مرنے سے پہلے انھوں نے کہا تھا کہ ’تم مجھے قتل کر سکتے ہو، مگر عورتوں کی آزادی کو نہیں روک سکتے۔‘

سنہ 1892 میں بہاءاللہ (میرزا حسین) نے وفات سے قبل اپنے بڑے بیٹے عبدالبہاء کو اپنا جانشین اور تعلیمات کا ترجمان مقرر کیا۔ عبدالبہاء نے بہائیمذہب کو یورپ، امریکا اور دیگر خطوں میں پھیلایا جبکہ بعد میں بہاءاللہ کے نواسے شوقی افندی ربانی (1897–1957) اُن کے جانشین بنے۔

شوقی افندی کے بعد جانشینی میں اختلاف پیدا ہوا اور بہائی مختلف گروہوں میں بٹ گئے جیسے بیت العدلی بہائی اور آرتھوڈوکس بہائی۔ عصر حاضر میں بہائیوں کی قیادت بیت العدل اعظم کے ہاتھ میں ہے۔

عبادات اور اصولGetty Imagesقطر اور کویت سمیت خلیجی ممالک میں بھی اس مذہب کے پیروکار آباد ہیں

انسائکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق بہائی تعلیمات کے بنیادی اصول تمام مذاہب کی وحدت اور بنی نوع انسان کی یگانگت پر مبنی ہیں۔ اس مذہب میں کوئی پیشوائیت نہیں، نہ ہی عبادت کے روایتی طریقے۔

’باب، بہاءاللہ اور عبدالبہاء کی تحریریں اور اقوال اس مذہب کی مقدس کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ ہر بہائی پر روزانہ دعا کرنا، منشیات اور شراب سے پرہیز کرنا، والدین کی اجازت سے شادی کرنا اور ہر ماہ کے پہلے دن منعقد ہونے والی ’انیس روزہ ضیافت‘ میں شرکتلازم ہے۔ 15 سے 70 سال کی عمر کے افراد پر ہر سال 19 دن کے روزے فرض ہیں۔‘

بہائی، نماز، روزہ، حج جیسی عبادات بھی ادا کرتے ہیں۔

’بیت‌ العدل‘ بہائیوں کا سب سے اہم مرکز ہے۔ یہ مرکز حیفا شہر کی کَرمِل پہاڑی پر واقع ہے اور اس کے اراکین کا انتخاب بہائی قومی حلقے کرتے ہیں جو کہ ہر ملک کی بہائی برادری اور بیت العدل کے درمیان رابطہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔

انسائکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق اس کے علاوہ ’ہینڈز آف دی کاز آف گاڈ‘ اور ’کانٹینینٹل کونسلرز‘ جیسے غیر منتخب ادارے بھی مذہب کی تبلیغ اور تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔

بہائی کتب میں ہے کہ بہائیوں کے کیلنڈر، جسے بدیع یا دور بہائی کہتے ہیں، کے مطابق بہائیوں کا سال 19 مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر مہینے میں 19 دن ہوتے ہیں۔

بہائیوں کے کیلنڈر کی ابتدا سنہ 1844سے ہوئی ہے جو، اُن کی اصطلاح میں، باب کے ظہور کا سال ہے۔ اُن کے سال کا پہلا مہینہ شَہرُالبہاء ہے جس کا آغاز 21 مارچ سے ہوتا ہے جبکہ سال بدیع کا آخری مہینہ شَہرُالعلا ہے جس کا آغاز دو مارچ سے ہوتا ہے۔

شیراز میں علی محمد باب کا گھر، بغداد میں بہاء اللہ کا گھر، باغ رضوان (بہاء اللہ کے ظہور کی جگہ)، مقام اعلیٰ (کرمل پہاڑی پر باب کا مقبرہ) اور روضہ مبارکہ (عکّا میں حسین علی نوری کا مقبرہ) بہائیوں کے مقدس مقامات ہیں نیز نوروز، باب اور بہاء اللہ کی وفات اور پیدائش کی سالگرہ بہائی عیدیں شمار ہوتی ہے۔

جی ای اِسلِمُنٹکی کتاب ’بہاء اللہ اور عصرِ جدید‘ کے مطابق عید نوروز، عید رضوان، باب کی پیدائش کا دن، بہاء الله اور باب کے اظہار کا دن بہائیوں کی بڑی عیدیں اور خوشی کے دن شمار ہوتے ہیں۔

بہاء اللہ کے قلمی آثار جیسے کتاب‌ اَقدس، ایقان، کلمات مکنونہ و الواح، عبد البہاء اور شوقی کے آثار، الفرائد نامی کتابیں اور گنجینہ حدود و احکام بہائیوں کی مقدس کتابیں شمار ہوتی ہیں۔

برطانوی ہندوستان میں بابیت اور بہائیتGetty Images

برصغیر میں بہائی مذہب کی جڑیں 1844 میں بابی تحریک کے آغاز تک جا پہنچتی ہیں۔

بابی اور بہائی مذاہب پر اپنی ایک کتاب میں سپہر منوچہری لکھتے ہیں کہ اس ابتدائی دور میںچار بابی ہندوستانسے تھے۔

’ان میں سب سے نمایاں نامشیخ سعید ہندی کا ہے، جو ملتان (اُس وقت برطانویہندوستان کا حصہ) سے تعلق رکھتے تھے اور ’حروفِ حی‘ میں شامل تھے۔ ایک اور شخصیت بصیر ہندی کی تھی جو جلالیہ سلسلے سے وابستہ تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہباب کو آذربائیجان کے پہاڑوں میں قید کر دیا گیا ہے تو وہ وہاں سے قلعہ طبرسی پہنچے، جہاں وہ ان چار ہندوستانی بابیوں میں شامل تھے جنھوں نے بابیوں کی تاریخی جنگ میں حصہ لیا۔

’بعدازاں انھوں نے لورستان کے گورنر یلدَرم مرزا کے دربار میں خدمات انجام دیں۔ لیکن جب گورنر کو معلوم ہوا کہ وہ بابی ہیں، تو انھیںقتلکر دیا گیا۔‘

ابتدائی بہائی دور

بہاءاللہ کے کچھ پیروکار اُن کے کہنے پر ہندوستان آئے۔ یہ تاجروں اور کمیشن ایجنٹس کے طور پر کامیاب ہوئے، مگر1870 کی دہائی تک بہائی عقیدہ زیادہ تر بمبئی اور شمالی ہند میں آباد ایرانی نژاد برادری تک محدود رہا۔

بہائی تاریخ کے مطابق اُن کے ایک نمائندے، جمال افندی نے 1875 میں بمبئی، کراچی، لاہور، سیالکوٹ، جموں، کشمیر اور لداخکا سفر کیا۔ اُن کے بعد عبدالبہاء نے مزید مبلغین کو اس خطے میں بھیجا۔

دسمبر 1920 میں بمبئی میں تین روزہ آل انڈیا بہائی کنونشن منعقد ہوا جبکہ سنہ 1921 میں کراچی کے بہائیوں نے اپنی پہلی مقامی روحانی اسمبلی کا انتخاب کیا۔

سنہ 1923 میں، جب موجودہ پاکستان برطانوی ہند کا حصہ تھا، ہندوستان اور برما کے لیے ایک قومی روحانی مجلس تشکیل دی گئی جبکہ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں کئی شہروں میں مقامی اسمبلیاں فعال ہوئیں۔

تاریخ سے ’دی بہائی ویکلی‘ کے نام سے 1930کے اواخر میں ایک اخبار کی لاہور سے اشاعت کا پتا چلتا ہے۔

بہائی بک کلیکٹرز کے رکن جیف البرٹ کے مطابق برصغیر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا بہائی اشاعتی تجربہ تھا۔

’چار صفحات پر مشتمل یہ انگریزی اخبار ہر ماہ تین بار، یعنی 9، 19 اور 29 تاریخ کو شائع ہوتا اور اس کی سرپرستی ہندوستان اور برما کی قومی روحانی مجلس کرتی تھیں۔ اس کے بانی اور مدیر پروفیسر پرتیم سنگھ (1881–1959) تھے جو سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے پہلے شخص تھے جنھوں نے بہائی عقیدہ قبول کیا۔‘

سنہ 1970 کی دہائی کے آخری دو سالوں میں افغانستان اور ایران میں سیاسی تبدیلیوں کے باعث بہائی بڑی تعداد میں پاکستان آئے۔

اگلی دہائی کے وسط تک، ایران سے آئے ہوئے بہائی پناہ گزین پاکستان سے دیگر ممالک کی جانب منتقل ہونا شروع ہو گئے۔

پاکستان نے سنہ1981 میں بہائی مذہب کو باضابطہ طور پر غیر مسلم مذہب قرار دیا۔

آئینی طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد، یوسف وردانی کےایک مطالعے اور عبدالفرید کی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے لیے کی گئی تحقیق کے مطابق، پاکستان میں بہائی برادری کو عوامی اجتماعات منعقد کرنے، تعلیمی مراکز قائم کرنے، اپنے عقیدے کی تعلیم دینے اور اپنی انتظامی کونسلوں کے انتخابات منعقد کرنے کا حق حاصل ہے۔

تاہم، دوسرے پاکستانیوں کی طرح حکومت بہائیوں کو زیارت کے مقصد سے اسرائیل سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

’بہائی مذہب نے ایک بین الاقوامی تنظیم کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک بالخصوص ایشیائی اور افریقی ممالک میں اس کی متعدد شاخیں موجود ہیں۔‘

انسائیکلوپیڈیا آف ماڈرن ورلڈ آف اسلام کے مطابق بہائیوں کے 165 قومی اور مذہبی حلقے اور 20,000 مقامی روحانی حلقے ہیں۔ بہائی آثار اور ادبیات کا 802 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

انسائیکلوپیڈیابرٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سنہ 2024 تک دنیا میں 14 ’مشرق الاذکار‘ یا بہائی عبادت خانے قائم ہو چکے ہیں۔

دلی کا معبد کنول یا لوٹس ٹیمپلاُن میں سے ایک ہے جو یکم جنوری 1987 سے دیگر بہائی عبادت خانوں کی طرح کسی بھی عقیدے کے لوگوں کے لیے کُھلا ہے۔

مانگٹ کے مطابق بس یہاں جانے کے لیے شرط صرف خاموشی ہے۔

7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفرایران کا پراسرار اور قدیم مذہبی فرقہ ’یارسان‘مولای ادریس: مراکش کا ’مقدس‘ قصبہ جس کے کچھ حصوں میں آج بھی غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہے’بہائی مذہب‘ کیا ہے اور قطر میں رہائی پانے والے اس کے رہنما کو سزا کیوں سنائی گئی تھی؟زرتشت: ایک قدیم مذہب جس نے ’عقیدۂ توحید‘ کا پرچار کیا’منظم مذہب‘ کی جائے پیدائش جسے جنت اور زمین کے درمیان رابطے کا مقام سمجھا جاتا تھا’دی سیٹانک ٹیمپل‘: شیطان پرستوں کا گروہ جسے امریکہ میں مذہب تسلیم کیا جاتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More