Getty Imagesامریکی پابندیوں کے باوجود وینزویلا کی تیل کی فروخت ڈرامائی طور پر بڑھی ہے (فائل فوٹو)
سنہ 2019 میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیکولس مادورو کی حکومت پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے وینزویلا کی تیل کی صنعت پر پابندیاں عائد کیں، تو اس ملک کے خام تیل کی برآمدات گھٹ کر تقریباً چار لاکھ 95 ہزار بیرل یومیہ رہ گئی تھیں۔
اگرچہ چھ سال بعد بھی یہ پابندیاں جُوں کی تُوں برقرار ہیں، مگر اس دورانیے میں وینزویلا کی تیل کی فروخت ڈرامائی طور پر بڑھ کر تقریباً دس لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔
اگرچہ تیل کی فروخت کی یہ مقدار اِس ملک کے لیے اب بھی بہت کم ہے، جو سنہ 1998 میں ہیوگو شاویز کے اقتدار میں آنے سے قبل لگ بھگ 30 لاکھ بیرل یومیہ پیدا کرتا تھا، لیکن پابندیوں کے باوجود اتنی مقدار میں تیل فروخت کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گذشتہ چھ سال سے عائد امریکی پابندیاں وہ نتائج نہیں دے پا رہیں جن کی توقع کی گئی تھی۔
وینزویلاکی مادورو حکومت امریکی پابندیوں سے بچتے ہوئے تیل کی پیداوار بحال کرنے اور خام تیل کی فروخت کے لیے نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ اور اِسی تناظر میں ایک خفیہ ’گھوسٹ فلیٹ‘ (تیل کی ترسیل کرنے والا گمنام بیڑا) مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ بیڑادراصل ایسے تیل بردار جہازوں کا نیٹ ورک ہے جو مختلف حربے اپنا کر اپنی نقل و حمل چھپاتا ہے اور اُس تیل کی ترسیل کرتا ہے جس پر امریکی پابندیاں عائد ہیں۔
ایسے تیل بردار جہازوں میں سے ایک جہاز کو امریکی فوج نے بدھ کے روز وینزویلا کے ساحل کے قریب سمندری حدود میں روکا اور پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔
اس کارروائی کے بعد وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’ہم نے ابھی وینزویلا کے ساحل کے قریب ایک بہت بڑا تیل بردار جہاز قبضے میں لیا ہے، یہ اب تک ضبط کیا جانے والا سب سے بڑا جہاز ہے۔‘
وینزویلا کی حکومت نے اس امریکی اقدام کو ’کُھلی ڈکیتی اور بحری قزاقی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو بین الاقوامی اداروں میں اٹھائیں گے۔
امریکہ کی یہ کارروائی وینزویلا کے ساتھ جاری اُس کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنی ہے جس کا آغاز رواں برس اگست میں اُس وقت ہوا تھا جب جب ٹرمپ انتظامیہ نے ’منشیات کی سمگلنگ‘ کے خلاف کارروائی کے نام پر بحیرہ کیریبین میں بڑے پیمانے پر فوجی تعیناتی شروع کی تھی۔
تاہم کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس تعیناتی کا اصل مقصد وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی کے لیے دباؤ بڑھانا ہے۔
سیاسی پہلو سے ہٹ کر، اِس اقدام (کیریبین میں فوجی تعیناتی) کے معاشی اثرات بھی ہیں کیونکہ اس کی مدد سے گھوسٹ فلیٹ پر نظر رکھتے ہوئے وینیزویلا کی تیل کی برآمدات کو مزید مشکل بنایا جا رہا ہے۔
گھوسٹ فلیٹ: ایک بڑھتا ہوا رجحانAFPتجزیاتی فرم 'ونڈورڈ' کے مطابق تیل کی ترسیل کے اس عالمی خفیہ بیڑے میں تقریباً 1,300 جہاز شامل ہیں
گھوسٹ فلیٹ کا استعمال صرف وینزویلا تک محدود نہیں۔ امریکی اور مغربی ممالک کی پابندیوں کی زد میں موجود دیگر ممالک جیسا کہ روس اور ایران بھی اپنے تیل کی ترسیل کے لیے ایسے ہی گمنام بحری تیل بردار جہازوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
مالیاتی انٹیلیجنس فرم ’ایس اینڈ پی گلوبل‘ کے مطابق دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک تیل بردار جہاز، پابندیوں کے شکار ممالک کا تیل سمگل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اُن میں سے 10 فیصد صرف وینزویلا کا تیل، 20 فیصد ایرانی تیل جبکہ 50 فیصد روسی تیل کی ترسیل کے لیے مخصوص ہیں۔ باقی 20 فیصد مختلف ممالک کے تیل کی نقل و حمل کرتے ہیں۔
بحری تجزیاتی فرم ’ونڈورڈ‘ کے مطابق تیل کی ترسیل کے اس عالمی خفیہ بیڑے میں تقریباً 1,300 جہاز شامل ہیں۔
اگرچہ دنیا بھر کے ممالک اور کمپنیاں قانونی طور پر پابند ہوتی ہیں کہ وہ پابندیوں کے شکار ممالک سے تیل نہ خریدیں، مگر اس کا بھی حل موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ پابندیوں کا شکار ممالک ارزاں نرخوں اور رعایتوں پر مختلف ممالک اور کمپنیوں کو تیل فروخت کرتے ہیں اور فروخت کیے جانے والے تیل کی اصل شناخت چھپانے کے لیے بھی مختلف طریقے اپناتے ہیں۔
گھوسٹ فلیٹ میں شامل تیل بردار جہاز کیسے دھوکا دیتے ہیں؟Getty Images
ان جہازوں کی جانب سے حکام کی نظروں سے بچنے کی ایک عام حکمت عملی اپنا نام اور جہاز پر نصب پرچم کی بار بار تبدیلی بھی ہے۔
امریکہ کی جانب سے بدھ کے روز ضبط کیے گئے جہاز کا نام ’دی اسکیپر‘ بتایا گیا ہے۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق یہ جہاز سنہ 2022 سے امریکی محکمہ خزانہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہے کیونکہ اس پر الزام ہے کہ یہ ایران کی پاسدارانِ انقلاب اور لبنانی تنظیم حزب اللہ کی مالی معاونت کرنے والے تیل سمگلنگ نیٹ ورک کا حصہ ہے۔
جب ابتدائی طور پر اس جہاز پر پابندی عائد کی گئی تھی تو اُس وقت اس کا نام ’ادیسا‘ تھا جبکہ اس سے کچھ عرصہ قبل اسے ’دی ٹوکیو‘ کہا جاتا تھا۔ یہ جہاز روسی کاروباری شخصیت وکٹر آرٹی موف سے منسوب کیا جاتا ہے، جو خود بھی عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل کے مطابق ’دی اسکیپر‘ وینزویلا اور ایران کا تیل ترسیل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جہاز 20 سال پرانا ہے اور گھوسٹ فلیٹ میں شامل بیشتر جہازوں کی طرح ’عمر رسیدہ‘ (یعنی کافی پرانا) ہے۔
بڑی شپنگ کمپنیاں عام طور پر 15 سال بعد اپنے جہازوں کو فروخت کر دیتی ہیں جبکہ 25 سال بعد انھیں سکریپ (یعنی توڑنے کے لیے) میں بھیج دیا جاتا ہے۔
گھوسٹ فلیٹ میں شامل جہازوں کا ایک اور حربہ یہ ہے کہ یہ جہاز ایسے جہازوں کی شناخت استعمال کرتے ہیں جنھیں ماضی میں سکریپ کیا جا چکا ہو یعنی توڑا جا چکا ہو۔ اور یہ شناخت اپنانے کے بعد گھوسٹ فلیٹ کے جہاز |زومبی شپ‘ بن جاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ کوئی زندہ شخص کسی مردہ شخص کی شناخت اپنا لے۔
ایسا ہی ایک واقعہ رواں برس اپریل میں سامنے آیا تھا جب ’ورادا‘ نامی جہاز ملائیشیا پہنچا، حالانکہ اصل ’ورادا‘ کو سنہ 2017 میں بنگلہ دیش میں سکریپ کر دیا گیا تھا۔
چکمہ دینے کے دیگر طریقےGetty Images
گھوسٹ فلیٹ کے جہاز اکثر بین الاقوامی پانیوں میں اپنے اوپر لدا تیل ایسے جہازوں میں بھی منتقل کر دیتے ہیں جو قانونی حیثیت رکھتے ہیں، جو یہ جہاز بعد میں اسے غیر پابندی یافتہ ملک کا تیل ظاہر کر کے منزل تک پہنچاتے ہیں۔
ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں چین کو وینزویلا کے تیل کی ترسیل اسی طریقے سے کی جاتی رہی ہے۔
ایک اور عام طریقہ خودکار شناختی نظام (اے آئی ایس) کو بند کرنا ہے، جس سے جہاز کی شناخت، مقام اور سمت، جس جانب یہ محو سفر ہوتا ہے، وہ چھپ جاتی ہے۔
اپریل میں بلومبرگ کی تحقیق نے چار ’زومبی جہازوں‘ کی نشاندہی کی جو وینزویلا کے تیل سے لدے ہوئے تھے۔
حالیہ مہینوں میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق وینزویلا کی مختلف بندرگاہوں کے قریب درجنوں جہاز ’سٹیلتھ موڈ‘ میں کام کرتے پائے گئے، یعنی ان کے سگنلز بند کر دیے گئے تھے تاکہ انھیں نظروں سے پوشیدہ رکھا جا سکے۔
ٹرانسپیرنسی وینزویلا کے مطابق اکتوبر میں وینزویلا کی آئل کمپنی ’پی ڈی وی ایس اے‘ کی بندرگاہ پر 71 غیر ملکی آئل ٹینکر موجود تھے، جن میں سے 15 ایسے تھے جن پر پابندیوں عائد کی گئی تھیں جبکہ نوگھوسٹ فلیٹ سے منسلک تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 38 جہاز 20 دن سے زیادہ بندرگاہ سے دور رہے۔
ٹرانسپیرنسی کے مطابق بندرگاہوں کے قریب طویل قیام اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ یہ جہاز کس نوعیت کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
چونکہ بدھ کے روز جہاز ضبط کرنے کی امریکی کارروائی دنیا کے سب سے بڑے طیارہ بردار جہاز 'جیرالڈ فورڈ' سے شروع کی گئی، جسے حال ہی میں امریکہ نے بحیرہ کیریبین میں تعینات کیا ہے، اس لیے امکان ہے کہ آئندہ ہفتوں میں مادورو حکومت کے لیے گھوسٹ فلیٹ پر انحصار کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
فوجیان: کیا چین کا جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز امریکہ کے ساتھ بحری ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز ہو سکتا ہے؟ٹرمپ ایرانی تیل کی برآمدات ’صفر‘ پر دھکیل کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟گمنام بیڑے اور امریکی پابندیاں: سمندر میں پھنسے ایرانی خام تیل کے ’تیرتے ذخائر‘ چین تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟