ماروتی 800، مڈل کلاس انڈینز کے ’خوابوں کی کار‘: جب انڈیا سے معاہدے سے قبل سوزوکی نے پاکستان میں اپنے پلانٹ سے متعلق شکوہ کیا

بی بی سی اردو  |  Dec 14, 2025

Collins Business

جس طرح بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں فورڈ ماڈل ٹی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں ووکس ویگن بیٹل نے عام لوگوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا، یہ بھی کافی حد تک ایسی ہی ایک کہانی ہے۔

14 دسمبر 1983 کو گڑگاؤں میں فیکٹری کے گیٹ سے میری گولڈ کے پھولوں سے سجی ایک چھوٹی سی سفید کار نکلی۔ ہندوستانی ساختہ اس کار کو انڈین ائیرلائنز کے ملازم ہرپال سنگھ چلا رہے تھے، جو اسے گرین پارک میں اپنے گھر لے جا رہے تھے۔

اس گاڑی کی چابیاں ہرپال سنگھ کے حوالے کرنے کے بعد ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جذباتی تقریر کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’آپ لوگوں کو شاید اندازہ نہیں کہ اس کار کی وجہ سے ہمیں کس حد تک طعنوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔‘

اندرا گاندھی کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں جب انھوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے چھوٹے بیٹے سنجے نے انڈیا کی پہلی چھوٹی کار تیار کرنے کی کوشش میں ایک گرم اور گرد آلود ورکشاپ میں گھنٹوں گزارے۔

Collins Businessکار سازی میں تین نجی کمپنیوں کی اجارہ داری

سنجے گاندھی کو کاروں کا شوق تھا۔ یہ جذبہ انھیں اپنے والد فیروز گاندھی سے وراثت میں ملا تھا۔

ان کے پاس ایک سیاہ مورس کار تھی۔ انھیں اپنی گاڑی کو بہترین حالت میں رکھنے کا بہت شوق تھا۔ سنجے اکثر اپنے والد کو اس کی دیکھ بھال کرتے دیکھتے تھے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے دنیا کی مشہور کار کمپنی رولز روئس میں کار مینوفیکچرنگ کی پیچیدگیوں کو سیکھنے میں تین سال گزارے اور انڈیا واپس آنے پر انھوں نے ایک نئے کار مینوفیکچرنگ مشن کا آغاز کیا۔

سوزوکی ماروتی کے چیئرمین رویندرا چندرا بھارگوا اپنی کتاب ’دی ماروتی سٹوری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس وقت انڈیا کے لیے، جو سوشلزم اور مرکزی منصوبہ بندی کے اصولوں سے آگے بڑھا، عام آدمی کے لیے کار بنانے کا سوچنا ایک خواب تھا۔

وہ ترقی یافتہ ملک جہاں ہر پانچ منٹ میں ایک گاڑی چوری ہوتی ہےچین نے امریکی اور یورپی کار کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گاڑیوں کی عالمی صنعت پر غلبہ کیسے حاصل کیا؟ہماری یادوں سے جڑا ’کیری ڈبہ‘: سوزوکی کو 40 سال بعد بولان کی جگہ نئی ’ایوری‘ کیوں متعارف کروانا پڑی؟’ایک ٹینک میں 2100 کلومیٹر‘: چینی کمپنی کا نیا ہائبرڈ الیکٹرک سسٹم طویل سفر میں بار بار ری فیولنگ سے جان چھڑا سکتا ہے؟

اُن کے بقول اس وقت انڈیا میں صرف تین کار بنانے والی کمپنیاں تھیں۔ ان میں ہندوستان موٹرز آف کولکتہ بھی شامل تھی، جو ’ایمبیسیڈر‘ کار بناتی تھی۔ پریمیئر آٹو موبائلز آف بامبے، ’فی ایٹ‘ جبکہ سٹینڈرڈ موٹرز آف چنائی ’سٹینڈرڈ ہیرالڈ‘ کاریں بناتی تھی۔

کاروں کی طلب سپلائی سے کہیں زیادہ تھی اور انتظار کی فہرستیں 82 ہزار تک پہنچ گئیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کو گاڑی خریدنے کے لیے دو سال تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ’فی ایٹ‘ کار کا انتظار پانچ سال تھا۔

رویندرا چندرا لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1968 میں کاروں کی قیمت 14 ہزار سے لے کر 16 ہزار روپے تک تھی، جو اس وقت کے معیار زندگی کو دیکھتے ہوئے بہت زیادہ تھی۔ کاروں کا معیار خراب تھا۔ اس خراب معیار کی وجہ مسابقت کی کمی اور طلب اور رسد کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔‘

Collins Businessجب ماروتی کو کاریں بنانے کا لائسنس ملا

ان دنوں کاریں لگژری سمجھی جاتی تھیں اور ان کے استعمال کی زیادہ ترغیب نہیں دی جاتی تھی۔

ہندوستانی سڑکوں پر نظر آنے والی غیر ملکی کاریں سفارت خانوں یا چند امیر افراد کی ملکیت تھیں۔ غیر ملکی سفارت کار درآمدی ڈیوٹی ادا کیے بغیر ان کاروں کو ہندوستان لاتے اور واپسی پر انھیں مہنگے داموں بیچ دیتے۔

اس کے جواب میں انڈین حکومت نے ایک اصول بنایا کہ یہ غیر ملکی کاریں صرف سرکاری ملکیت والی سٹیٹ ٹریڈنگ کارپوریشن کو فروخت کی جا سکتی ہیں، جو بعد میں ان کاروں کو نیلام کرے گی اور خاطر خواہ منافع کمائے گی۔

سنہ 1971 میں کاروں کی تیاری کے لیے تین لائسنس دیے گئے تھے، ان میں سے ایک سنجے گاندھی کو اور باقی دو بڑودہ کے منو بھائی ٹھاکر اور بنگلور کی سن رائز آٹو انڈسٹریز کو دیے گئے تھے۔

سنجے گاندھی نےکار بنانے کے بارے میں سب سے پہلے کیپٹن ٹِلو سے مشورہ کیا، جو دہلی فلائنگ کلب کے ایک انسٹرکٹر تھے۔

کیپٹن ٹِلو نے اُنھیں شمالی دہلی کے ایک پرہجوم علاقے گلابی باغ میں ایک شیڈ دیا۔

اس شیڈ میں سنہ 1966 میں ایک ورکشاپ شروع کی گئی تھی۔ اس وقت سنجے کے پاس کار بنانے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ اُنھوں نے دو مکینکس کی خدمات حاصل کیں اور اپنا کاروبار شروع کیا۔

معروف صحافی ونود مہتا اپنی کتاب ’دی سنجے سٹوری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1967 کے وسط سے سنجے نے اس کار پر پاگلوں کی طرح کام کرنا شروع کر دیا، وہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتے اور رات کو دیر سے واپس آتے۔ ایک بار، سنجے گاندھی ورکشاپ میں دھماکے میں جھلس گئے، ان دنوں گلابی باغ کے علاقے میں پانی بھرا ہوا تھا۔ اس ماحول میں وزیر اعظم کا بیٹا صبح 8 بجے سے شام 7 بجے تک موٹر پارٹس سے متعلق بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔

Getty Imagesماروتی کے خلاف انکوائری کمیشن

چونکہ جگہ بہت چھوٹی ہوتی جا رہی تھی، اس لیے کچھ دنوں کے بعد ورکشاپ کو مغربی دہلی کے موتی باغ کے صنعتی علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔

ماروتی کو چار جون 1971 کو شامل کیا گیا تھا اور اسے ایک سال میں 50 ہزار گاڑیاں بنانے کا لائسنس جاری کیا گیا۔

ہریانہ کے وزیرِ اعلی بنسی لال نےماروتی موٹرز لمیٹڈ کو گڑگاؤں میں 35 لاکھ روپے میں 297 ایکڑ کا پلاٹ فراہم کیا۔

جلد ہی فیکٹری کی تعمیر شروع ہوئی جو ایک ملین مربع فٹ کے رقبے پر محیط تھی اور ’یو‘ کی شکل میں تھی۔ ایک سال کے اندر سنجے نے کار کی باڈی تیار کر لی۔ یہاں تک کہ اسے 1972 کے انڈیا انٹرنیشنل ٹریڈ فیئر میں بھی دکھایا گیا تھا۔

اسی دوران ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی اور سنجے کو سیاست میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ مارچ 1977 میں ہونے والے عام انتخابات میں کانگریس کو شکست ہوئی اور جنتا پارٹی اقتدار میں آئی۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اس نے ماروتی کے خلاف ڈی ایس گپتا کمیشن آف انکوائری قائم کیا۔

کمپنی میں مزدور تحریک شروع ہوگئی۔ آر سی بھارگوا لکھتے ہیں کہ ’ایک دن، ماروتی کے کارکنوں نے سنجے گاندھی کو 12 گھنٹے تک گھیرے رکھا، انھوں نے حکومت سے کمپنی کو قومیانے کا مطالبہ کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وہ سنجے کو صرف اسی صورت میں جانے دیں گے جب وہ کمپنی میں واپس نہ آنے کا وعدہ کریں گے۔ سنجے راضی ہو گئے۔ اس دن سے وہ کبھی بھی اس فیکٹری میں واپس نہیں گئے جو انھوں نے اتنی دیکھ بھال کے ساتھ بنائی تھی۔‘

یہ کمپنی باضابطہ طور پر 6 مارچ 1978 کو بند کر دی گئی۔

Getty Imagesجب ماروتی کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا

اندرا گاندھی تین برس بعد سنہ 1980 میں اقتدار میں واپس آئیں۔ ماروتی کو بحال کرنے کی کوششیں جاری تھیں، اور غیر ملکی کار ساز کمپنیوں کے ساتھ اشتراک پر بات چیت شروع ہوئی۔ دریں اثنا، 23 جون 1980 کو سنجے گاندھی ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں مارے گئے۔

اندرا گاندھی، اپنے بیٹے کی موت سے کاروں کی تیاری کے اپنے خواب کو مستقل طور پر بکھرنے دینے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

اُنھوں نے سنجے کی جگہ رُکن پارلیمنٹ بننے والے ارون نہرو کو بلایا اور پوچھا کہ ماروتی کے منصوبے کو بحال کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔

ارون نہرو نے کہا کہ یہ منصوبہ صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب اس میں غیر ملکی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور سال میں کم از کم ایک لاکھ کاریں بنانے کا ہدف رکھا جائے۔

ماروتی موٹرز کو قومیانے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، اور اسے قانونی جواز فراہم کرتے ہوئے بل منظور کیا گیا تھا۔

24 فروری 1981 کو ماروتی صنعت لمیٹڈ 100 فیصد سرکاری کمپنی بن گئی۔ وی کرشنامورتی، ہیوی انڈسٹریز کے سابق سکریٹری اور بی ایچ ای ایل کے سربراہ کو کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر کے طور پر چنا گیا۔ اُنھیں دسمبر 1983 تک یا اگلے 30 ماہ کے اندر کمپنی شروع کرنے کا ہدف دیا گیا۔

Getty Imagesدنیا کی بڑی بڑی کار کمپنیوں سے رابطے

جیسے ہی ماروتی بنی تو اس نے ہندوستان میں کاریں بنانے کے لیے دنیا کی بڑی کارساز کمپنیوں جیسے رینالٹ، ووکس ویگن، فی ایٹ، ٹویوٹا، مٹسوبشی اور نسان سے تعاون کی اپیل کی۔

ان سب نے ماروتی کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا، یہ مانتے ہوئے کہ ہندوستانی آٹوموبائل انڈسٹری کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کچھ ہی دنوں میں ماروتی کے ایگزیکٹوز پر یہ واضح ہو گیا کہ ہجوم والی، تنگ ہندوستانی سڑکوں پر صرف جاپانی کاریں ہی ٹھیک رہیں گی۔

چار سیٹوں والی جاپانی کاروں کی خاصیت یہ تھی کہ ان میں سامان رکھنے کی جگہ تھی، کم ایندھن کے ساتھ زیادہ فاصلہ طے کیا جا سکتا تھا اور اس وقت جاپان میں ان کی قیمت 30 ہزار روپے کے لگ بھگ تھی۔

آخر کار تین جاپانی کار کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا، جن میں میٹسوبیشی، ڈائیہاٹسو اور سوزوکی۔ کرشنامورتی کی قیادت میں ماروتی ٹیم نے میٹسوبیشی کے ساتھ بات چیت کے لیے ٹوکیو کا سفر کیا۔

وی کرشنامورتی اپنی سوانح عمری ’ایٹ دی ہیلم، اے میموئیر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میٹسوبیشی نے ہمیں چار دروازوں والی ’مینیکا‘ کار کی پیشکش کی۔

’جب ہم میٹسوبیشی کے حکام سے ملے تو ان کے 40 اہلکار ایک بڑی میز کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ میز کے دوسری طرف ماروتی کے صرف چار اہلکار تھے۔ ہم نے فوری طور پر محسوس کیا کہ میٹسوبیشی بہت بڑے عہدے داروں والی ایک بڑی کمپنی بن گئی ہے اور اس کے سربراہ سے ملاقات کرنا ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ہو گا۔‘

اندرا گاندھی کو بتایا گیا کہ میٹسوبیشی کے سربراہ سے ملنا تو درکنار، ان کے دوسرے درجے کے عہدے داروں سے ملنا بھی بہت مشکل ہو گا۔

Harper Collinsماروتی اور سوزوکی کے درمیان معاہدہ اور پاکستان کا ذکر

کچھ دنوں بعد جب ماروتی انتظامیہ نے سوزوکی کے حکام سے ملاقات کی تو صورتحال بالکل مختلف تھی۔ سوزوکی کے سربراہ اوسومو سوزوکی سمیت کمپنی کے چار عہدیداروں نے اجلاس میں شرکت کی۔ اس میٹنگ نے کرشنامورتی کو یقین ہوا کہ ان کے ساتھ کام کیا جا سکتا ہے۔

آر سی بھارگاوا لکھتے ہیں: ’کرشنا مورتی سوزوکی کے فوری فیصلہ سازی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ اُنھوں نے یہ بھی محسوس کر لیا کہ سوزوکی کمپنی بچت پر یقین رکھتی ہے۔ حتی کے ان کے دفتر میں ایئر کنڈیشنر بھی نہیں تھا۔‘

اُن کے بقول اس وقت سوزوکی کا پاکستان میں ایک پلانٹ تھا، جس کی کارکردگی سے وہ خوش نہیں تھے۔ سارا فرق کام کرنے کے کلچر کا تھا اور سوزوکی کو شکوہ تھا کہ ورکر یہاں کام پر تاخیر سے آتے ہیں۔

بھارگاوا مزید لکھتے ہیں کہ سوزوکی کے حکام نے کرشنا مورتی کو باور کرایا کہ اگر وہ جاپان جیسا معیار چاہتے ہیں تو انڈیا میں ورکرز کو جاپانیوں کی طرح کام کرنا سیکھنا ہو گا۔

سوزوکی کے اُس وقت کے چیف ایگزیکٹو اوسومو سوزوکی، یکم اپریل 1982 کو انڈیا پہنچے اور ماروتی انڈیا کے ساتھ 14 اپریل 1982 کو اُنھوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔

یہ ایسے وقت میں ہوا تھا، جب انڈیا کی سوویت یونین سے بہت قربت تھی اور جس کی سوشلست صنعتی پالیسیاں، جاپان کی پالیسیوں سے متصادم تھیں۔

یہاں تک کہ انڈیا میں جاپانی سفارت خانہ بھی اس سرمایہ کاری کے حق میں نہیں تھا لیکن سوزوکی نے اس کے باوجود آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

ماروتی کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر جگدیش کھٹر اپنی سوانح عمری ’ڈرائیوین‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سوزوکی کی منطق واضح تھی۔ ماروتی میں ان کی سرمایہ کاری سوزوکی کے ایک سال کے منافع کے برابر تھی۔ ان کے لیے یہ ایک جوا تھا: یا تو وہ دگنا منافع کمائیں گے یا دیوالیہ ہو جائیں گے۔‘

ماروتی نے پانچ برسوں میں ایک لاکھ ماروتی کاریں بنانے کا ہدف رکھا، جسے اُس وقت بڑا دعویٰ قرار دیا گیا۔

Getty Imagesاوسومو سوزوکی 1977 سے سنہ 2000 تک سوزوکی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر رہےلوگوں میں ماروتی کے لیے دیوانگی

فریقین کے درمیان طے پایا کہ اس کار کو انڈیا میں فروخت کرنے سے پہلے اسے یہاں کے لوگوں کو دکھانا ضروری ہے۔

کئی کاریں جاپان سے انڈیا لائی گئیں اور جاپانی ڈرائیوروں نے کولکتہ سے دہلی، پھر شملہ اور ممبئی تک انھیں چلایا۔ وہ جہاں سے گزرے لوگ انھیں دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ یہ پہلا موقع تھا، جب ہندوستانیوں نے اپنی سڑکوں پر ’ایمبیسیڈر‘ اور ’فی ایٹ‘ کے علاوہ کوئی اور گاڑی دیکھی تھی۔

آر سی بھارگوا نے لکھا کہ سوزوکی کی نفاست، رنگ کا معیار اور مائلیج، ان کاروں سے بہت بہتر تھی۔ شروع شروع میں لوگ، ٹریفک سگنلز پر رُکنے والی ان گاڑیوں کے گرد چکر لگا کر حیرت سے دیکھتے تھے۔

کرشنا مورتی لکھتے ہیں کہ ’اس وقت ہندوستانی صنعت میں سب سے بڑا مسئلہ کارکنوں کی غیر حاضری تھی۔ ہم نے ان لوگوں کو بونس دینا شروع کر دیا جو کام پر مستقل طور پر موجود تھے۔ ہم نے اُنھیں ترقی دی اور یہاں تک کہ اُنھیں تربیت کے لیے جاپان بھیجا گیا۔ شفٹ کے آغاز سے پہلے کارکنوں کے لیے جسمانی ورزش کا اہتمام کیا گیا۔

Getty ImagesGetty Imagesگاڑی کی قیمت 52 ہزار 500 روپے

جب ماروتی 800 فروخت ہوئی تو اس کی قیمت 52 ہزار 500 روپے رکھی گئی۔ یہ قیمت اگلے تین سال تک برقرار رکھی گئی۔

راتوں رات نئی ماروتی نے ایمبسیڈر اور فی ایٹ کو پیچھے چھوڑنا شروعکر دیا، جس کے نتیجے میں انڈیا میں کار کی صنعت کو ترقی ملی اور صارفین ماروتی 800 خریدنے کے لیے مقرر کردہ سرکاری قیمت سے زائد پر بھی گاڑی خریدنے پر تیار تھے۔

انڈینز کی آنے والی کئی نسلوں کے لیے ماروتی 800 اُن کی پہلی کار تھی۔ انڈین فوج کے فیلڈ مارشل سیم مانیک شاہ سے لے کر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سچن تندولکر تک ہر کسی نے اپنی زندگی میں ایک مرتبہ اس کار کو ضرور استعمال کیا۔

استعمال شدہ کاروں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد کی اجازت: ’اب پاکستان میں گاڑیاں پروڈکشن لائن سے نہیں، بندرگاہ کے ذریعے آئیں گی‘ہماری یادوں سے جڑا ’کیری ڈبہ‘: سوزوکی کو 40 سال بعد بولان کی جگہ نئی ’ایوری‘ کیوں متعارف کروانا پڑی؟جیگوار کی ’کانسپٹ‘ کار میں بڑے بڑے ٹائر، لمبے بونٹ کے علاوہ نیا کیا ہے؟الیکٹرا میٹرو: پاکستان میں سستی الیکٹرک ’گاڑیوں‘ کے خریداروں کو کِن چیزوں پر سمجھوتہ کرنا ہو گا؟وہ ترقی یافتہ ملک جہاں ہر پانچ منٹ میں ایک گاڑی چوری ہوتی ہےپیڈل، نہ سٹیئرنگ وہیل: ایلون مسک کی سائبر کیب روبو ٹیکسی کیسے چلے گی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More