Getty Imagesروس نے 'سخوئی سو 57' لڑاکا طیاروں میں نئے فیفتھ جنریشن انجن کی آزمائشی ٹیسٹ شروع کر دیے ہیں (فائل فوٹو)
ایک وقت تھا جب دنیا میں سویت یونین (موجودہ روس) کے بنائے ہوئے آسلحے کی بہت مانگ تھی اور امریکہ، روس اور فرانس اسلحے کی فروخت کی مارکیٹ میں ایک دوسرے کے بڑے حریف سمجھے جاتے تھے۔
لیکن جہاں آئے دن جدید آسلحہ اور لڑاکا طیاروں کی ایڈونس تکنیکس متعارف کروائی جا رہی ہیں وہیں اِس مارکیٹ میں چین اور ترکی جیسے نئے اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ایسے میں سخت مقابلے کو دیکھتے ہوئے روس اپنے مشہور لڑاکا طیارے ’سخوئی 57‘ کے انجن کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔
ماسکو چاہتا ہے کہ بین الاقوامی اسلحے کی مارکیٹ میں اس جہاز کے اپ گریڈ ماڈل کو متعارف کروایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے ابتدائی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
روس کی فوج میں ان طیاروں کی تعداد کم ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ سخوئی 57 کے انجن میں اپ گریڈیشن کا مقصد اسے دوسرے ممالک کے لیے پُرکشش لڑاکا طیارے کے طور پر پیش کرنا ہے۔
اسی مقصد کے حصول کے لیے روس نے ’سخوئی سو 57‘ لڑاکا طیاروں میں نئے فیفتھ جنریشن انجن کی آزمائشی ٹیسٹ شروع کر دیے ہیں۔
روس کے سرکاری ادارے ’رویسٹک‘ نے اعلان کیا ہے کہ سخوئی سو 57 فائٹر جہاز نئے فیفتھ جنریشن انجن سے لیس ہیں اور اس انجن کا نام ’پراڈکٹ 177‘یا (Izdeliye 177) ہے۔
’رویسٹک‘ کا دعویٰ ہے کہ اس تجربے کے بعد کی گئی پہلی آزمائشی پرواز کامیاب رہی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ’انجن نے توقعات کے مطابق کارکردگی دکھائی اور قابلِ بھروسہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔‘
AFP2027 تک سخوئی کی نئے انجن کے ساتھ فراہمی روس کی ریاستی دفاعی پروگرام کا حصہ ہے (فائل فوٹو)
’رویسٹک‘ کمپنی کے مطابق ’پراڈکٹ 177‘ انجنکی تھرسٹ 16 ہزار کلو ہے یعنی جہاز کا انجن 16 ہزار کلو کے برابر فورس پیدا کرتا ہے۔
رویسٹک نے اپنی ذیلی کمپنی ’یونائیٹیڈ انجن بلڈنگ کارپوریشن‘ کے چیف ایگزیکیٹو کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جدید ٹیکنالوجی اور میٹریئل کے ساتھ ساتھ اس میں جدید ڈیزائن سلوشنز ہیں، جس سے یہ انجن واضح طور پرتکنیکی لحاظ سے بہت بہتر ہے۔‘
یاد رہے کہ سنہ 2010 کے بعد سے سخوئی سو 57 ایک عبوری انجن آرٹیکل 117 کے ساتھ پرواز کر رہا ہے اور یہی انجن سخوئی سو 35 میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔
سنہ 2017 میں روس کی نیوز ایجنسی ’طاس‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ سخوئی 57 کے لیے نئے جدید انجن پر کامہو رہا ہے۔
دسمبر 2021 میں ڈیفنس انڈسٹری کمیشن کے نائب صدر آندری ایلچانوف نے ’انٹروفیکس‘ نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ سنہ 2027 کے بعد سے سخوئی 57 نئے جدید انجن کے ساتھ دستیاب ہو گا۔
سنہ 2027 میں لڑاکا جہازوں کی نئے انجن کے ساتھ فراہمی روس کی ریاستی دفاعی پروگرام کا حصہ ہے۔
جدید چینی لڑاکا طیاروں کی موجودگی کے باوجود امریکی ایف-16 طیارے پاکستان کے لیے ضروری کیوں ہیں؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیں
بی بی سی مانیٹرنگ مطابق اس بات تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ آرٹیکل 177 کے بارے میں جو رپورٹس ہیں وہ Izdeliye 30 سے منسلک ہیں یا نہیں۔
رویسٹک کا کہنا ہے کہ وہ سخوئی 57 کو اپ گریڈ کر رہا ہے اور اُن کی پروڈکش بھی بڑھا رہا ہے۔ یہ 76 میں سے تقریباً 25 طیارے ہوں گے جو پہلے سے طے شدہ طویل مدتی معاہدے کے حصے کے طور پر آرڈر کیے گئے تھے۔
رویسٹک کے مطابق اس سے روس کی مسلح افواج کو نہ صرف زیادہ جہازوں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی بلکہ بیرونی خریداروں کو سخوئی 57 کا نیا ویرئنٹ فروخت بھی کیا جا سکے گا۔
روس کو جہازوں کے خریداروں کی تلاشGetty Imagesصدر پوتن نے حال ہی میں انڈیا کا دورہ کیا ہے اور حکام کے مطابق دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان دفاعی معاملات پر بھی بات چیت ہوئی ہے (فائل فوٹو)
روس کی ایئرو سپیس فورس میں سخوئی 57 طیاروں کی تعداد بہت کم ہے لیکن حالیہ کچھ برسوں سے روس کی حکومت ان لڑاکا طیاروں کو بیرون ملک فروخت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
نومبر 2024 میں چین میں منعقدہ ایئر شو، مارچ 2025 میں انڈیا کے ایئر شو اور گذشتہ ماہ دبئی میں ہونے ایئر شو میں اس طیارے کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
روسی حکام کا دعویٰ ہے کہ کئی ممالک نے سخوئی سو 57 ای ویرنیٹ کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن اُن ممالک کے نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
نومبر 2024 میں روس میں اسلحے کی فروخت کے سرکاری ادارے کے سربراہ الیگزینڈر میکائیو نے کہا تھا کہ اس جہاز کی فروخت کے لیے پہلا معاہدہ ہو گیا ہے اور اس کے لگ بھگ ایک سال بعد ’رویسٹک‘ کے سربراہ نے کہا ہے کہ انھیں جہاز فروخت کرنے کے آڈرر ملے ہیں جنھیں بیرونی ممالک کو ڈیلیور کیا جائے گا۔
کسی بھی روس عہدیدار یا حکام نے تاحال یہ نہیں بتایا ہے کہ کون سے ممالک یہ جہاز خرید رہے ہیں، تاہم بعض اطلاعات کے مطابق اِن کا پہلا خریدار الجیریا ہو گا۔
روس نے اب تک کتنے سخوئی 57 طیارے بنائے ہیں، اس بارے میں حتمیٰ طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
نومبر 2024 میں ’فرنٹیلیجنس انسائٹ‘ نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ مغربی پابندیوں نے روس کی ایویونکس اور ریڈار کے سسٹمز تک رسائی میں خلل ڈالا ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق انڈیا نے ابتدا میں سخوئی کے اس ویریئنٹ کی خریداری میں دلحسپی ظاہر کی تھی لیکن پھر انڈیا اس سے پچھے ہٹ گیا۔
انڈیا کی روس کے ساتھ ڈیل کیوں ممکن نہیں؟
کئی سال تک انڈیا روسی اسلحے اور جہازوں کا بڑا خریدار تھا۔
انڈین فضائیہ کے پاس لڑاکا اور جنگی طیاروں کے 31 سکواڈرن ہیں، جن میں زیادہ تر روسی اور سوویت یونین کے دور کے طیارے ہیں۔ انڈیا کے لیے ایک اہم چیلنج روسی ساختہ سخوئی-30 کا ایسا متبادل ڈھونڈنا ہے جو طویل عرصے تک استعمال میں رہ سکے۔
بہت سے مبصرین کے خیال میں انڈیا کی روس کے ساتھ سخوئی سو 57 کی خریداری کی ڈیل ممکن نہیں ہے کیونکہ اس ٹیکنالوجی کی منتقلی، لاگت کے اشتراک، کچھ خصوصیات پر اختلافات اور اس طیارے کی مشترکہ پیداوار پر تنازع پیدا ہونے کے بعد سنہ 2018 میں انڈیا اس پروگرام سے باہر نکل گیا تھا۔
تاہم یہ بات حتمی ہے کہ انڈیا کی فضائیہ اب بہت عرصے سے نئے طیاروں کے انتطار میں ہے اور اس کی فضائیہ کو لڑاکا طیاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
حال ہی میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے دہلی کے دورے کے دورن انڈیا کو جہازوں کی خریداری کی دعوت دی گئی تھی لیکن اب دہلی کو توجہ بھی ’میک اِن انڈیا‘ دفاعی پروگرام پر ہے۔
انڈین حکام کے مطابق صدر پوتن کے دورے کے دوران انڈیا اور روس کے درمیان روسی ساختہ فضائی دفاعی نظام ایس 400 اور سخوئی 57 لڑاکا طیاروں کے دفاعی معاہدوں پر بات چیت ہوئی۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ روسی صدر پوتن کے اس دورے کا مقصد انڈیا اور روس کے دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
انڈیا کے قومی نشریاتی ادارے دوردرشن سے بات کرتے ہوئے سابق سفارتکار میجر جنرل (ریٹائرڈ) منجیو سنگھ پوری نے کہا تھا کہ ’حالیہ آپریشن سندور کے دوران روس سے ملنے والے ہتھیاروں، خاص طور پر فضائی دفاعی نظام ایس 400 نے انڈیا کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ انتہائی جدید سخوئی 57 لڑاکا طیاروں کے بارے میں بھی کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں ملک نہ صرف تاریخی طور پر اتحادی ہیں بلکہ جوہری توانائی جیسے کئی شعبوں میں نئی شراکت داری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
جدید چینی لڑاکا طیاروں کی موجودگی کے باوجود امریکی ایف-16 طیارے پاکستان کے لیے ضروری کیوں ہیں؟امریکی F-35 یا روسی SU-57: جدید لڑاکا طیاروں کی کمی اور وہ پیشکش جس نے انڈین فضائیہ کو مشکل میں ڈال دیارفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںپاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکپاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟دفاعی ساز و سامان خریدنے پر اصرار اور تجارتی تعلقات میں برابری، ٹرمپ انتظامیہ انڈیا سے کیا چاہتی ہے؟