16 اکتوبر 1946 کو نیورمبرگ میں پہلی بین الاقوامی جنگی جرائم کی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 10 نازی افسران اور رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں دوسری عالمی جنگ کے دوران سنگین کردار ادا کرنے پر مجرم قرار دیا گیا تھا، اور ان میں ہرمن گورنگ جیسے نمایاں اور اعلیٰ نازی رہنما بھی شامل تھے۔
سزا پانے والوں میں کچھ نسبتاً جونیئر عہدیدار اُن نازی شخصیات کی جگہ کٹہرے میں کھڑے نظر آئے جو پہلے ہی خودکشی کر چکے تھے، جیسا کہ ہائنرش ہملر اور جوزف گوئبلز۔
مجموعی طور پر 21 ملزمان پر ناقابلِ تصور مظالم، بشمول نسل کشی، کے ارتکاب کا الزام تھا۔
ان 21 ملزمان میں ایک البرٹ سپئیر نامی شخص بھی تھے، جو ابتدا میں ایڈولف ہٹلر کے آرکیٹیکٹ یعنی ماہر تعمیرات تھے اور بعدازاں انھیں دفاعی پیداوار کا وزیر مقرر کر دیا گیا تھا۔ سپئیر نے عدالت میں یہ دعویٰ کرنے کے بجائے کہ وہ صرف اوپر سے ملنے والے احکامات پر عمل کر رہے تھے، بظاہر ہٹلر سے فاصلہ اختیار کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کیی اور عدالتی سماعت کے آغاز پر ہی اجتماعی ذمہ داری قبول کر لی۔
اور پھر 20 سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد وہ میڈیا کا محبوب چہرہ بن گئے اور اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب تحریر کر کے ’اچھا نازی‘ کہلوائے۔
تاہم سوال یہ رہا کہ کیا اُن کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کی بنیادی وجہ وہ حقیقی ندامت تھی جو وہ محسوس کرتے تھے یا یہ محض اپنی جان بچانے کی غرض سے چلی گئی ایک چال تھی جو عدالت کے سامنے اختیار کی گئی؟
نازی عہدیداروں کے خلاف ٹرائل چلانے کے لیے نیورمبرگ کا انتخاب بھی علامتی تھا۔ چند برس قبل نازیوں نے اسی شہر میں بڑے پیمانے پر جلسے، جلوسوں کا انعقاد کیا تھا جن کا مرکز سپئیر کا ڈیزائن کردہ ’کیتھیڈرل آف لائٹ‘ تھا۔ اس کیتھیڈرل پر سینکڑوں سرچ لائٹس نصب تھیں جن کا رُخ آسمان کی جانب رہتا تھا۔ آرٹ نقاد رابرٹ ہیوز کے مطابق سپئیر ایک وقت میں دنیا کا سب سے طاقتور آرکیٹیکٹ (ماہر تعمیرات) تھا۔
ہٹلر کے جرمنی میں برسراقتدار آنے سے دو برس قبل سپئیر نے سنہ 1931 میں محض 25 برس کی عمر میں نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ مؤرخ ہائیکے گورٹیمیکر کے مطابق ہٹلر خود کو فنکار اور معمار سمجھتا تھا اور سپئیر میں اس نے اپنا عکس دیکھا تھا۔ ہٹلر کی سرپرستی نے سپئیر کو اپنی تخلیقی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا موقع دیا۔
سنہ 1970 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سپئیر نے کہا تھا کہ اب وہ ہٹلر کو تاریخ کے بدترین انسانوں میں شمار کرتے ہیں، لیکن اس انٹرویو کے دوران انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اُس (ہٹلر) کی شخصیت میں ’کچھ کشش بھی تھی‘ اور یہ کہ وہ ’بالکل ایک نارمل انسان‘ تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے سوچا کہ یہ بتانا (کہ ہٹلر نارمل انسان تھا) ضروری ہے کیونکہ جنگ کے بعد ایک ایسا دور آیا جب ہٹلر کو ایک ایسے شخص کے طور پر بیان کیا گیا جس کا اپنے جذبات پر قابو نہیں تھا اور جو دن رات غصے میں رہتا تھا۔ اور یہ مستقبل کے لیے خطرناک بات تھی کیونکہ اگر اب کہیں کوئی نیا ہٹلر آ جائے جس کا اپنے جذبات پر قابو ہو اور جو دن رات غصے میں نہ رہتا ہو، تو لوگ کہیں گے کہ یہ کوئی خطرہ نہیں، یہ ہٹلر نہیں ہے۔ لیکن ہٹلر، بطور انسان، اس کی کئی مختلف جہتیں تھیں۔ وہ ایک انسان تھا۔‘
جب سپئیر سے پوچھا گیا کہ ایک ایسے سمجھدار شخص ہوتے ہوئے، جس کا ضمیر بھی کسی حد تک زندہ تھا، وہ یہ سمجھنے میں کیوں ناکام رہے کہ ہٹلر کی حکومت ایک ظالم حکومت تھی؟ سپئیر کا کہنا تھا کہ وہ اُس شخص سے بہت مختلف ہیں جو وہ جنگ کے اختتام پر تھے۔
’سنہ 1945 میں، میں ایک ٹیکنوکریٹ (ماہر) تھا۔ مجھے سوچنا نہیں سکھایا گیا تھا، مجھے تو بس اپنے ماحول کے مطابق سوچنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ سکول میں ہمیں اپنا سبق یاد کرنے پر زور دیا جاتا تھا، سیاست کے مسائل پر کوئی بحث نہیں ہوتی تھی۔ ہم ایسے تمام مسائل سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کر رہے تھے، اور جب ہٹلر آیا تو ہم اس جیسے کسی آدمی کے متعلق بہتر طریقے سے سوچنے کے قابل نہیں تھے۔‘
سپئیر نے دعویٰ کیا کہ وہ بھی بالکل اپنی نسل کے دیگر افراد کی طرح تھے، جنھیں ہٹلر نے اپنی کرشماتی شخصیت کا گرویدہ بنا لیا تھا۔
’ہٹلر ایک ایسے دور میں سامنے آیا تھا جب ہم نوجوان مایوسی کا شکار تھے۔ یہ ایک ایسا وقت تھا، جب ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی امید نہیں تھی، اور ایسے میں ایک آدمی آیا جس نے ہمیں امید دلائی اور کہا کہ ہم یہ کر سکتے ہیں، ہم یہ سب حاصل کر سکتے ہیں، جرمنی ایک بار پھر ترقی کرنے لگا۔ یقیناً یہ ایک ایسا فتنہ تھا جس کے بارے میں آپ لامحالہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘
زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔ہٹلر کی موت کے بعد اُن کے اربوں مالیت کے اثاثے کس کو ملے؟
بعدازاں سپئیر کو جرمنی کے وائس چانسلر فرانز وان پاپین کے دفتر کو سکیورٹی ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
سپئیر اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ جہاں پاپین کے ایک ساتھی کو گولی ماری گئی تھی وہاں خون کا ایک تالاب سا بن گیا تھا جو اس وقت تک سوکھ چکا تھا۔ ’میں نے فوراً منہ موڑ لیا اور اس کے بعد میں نے اس کمرے میں جانے سے گریز کیا۔‘
انھوں نے کہا: ’یہ میری اخلاقی ناکامی ہے کہ میں نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، اور اب اس متعلق کوئی بہانہ بنانا غلط ہو گا۔ درحقیقت، میں نے یہ خون کا داغ دیکھا اور میں نے اسے اپنی یادداشت میں کہیں دفن کر دیا۔ پھر اس کا کوئی وجود ہی نہیں رہا اور میں کام پر جا رہا تھا۔ اگر میں اس بارے میں تھوڑا سا بھی سوچا ہوتا تو مجھے اس ہی لمحے ہٹلر سے دور ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔‘
نازی حکومت کے طاقتور ترین شخصیات میں سے ایکGetty Images
سپئیر کبھی اپنے دیرینہ تعمیراتی پراجیکٹ کو پورا نہیں کر پائے: برلن کی مکمل تعمیر نو، جس کا نام بدل کر جرمنییا رکھا جانا تھا اور جو دنیا کا مستقبل کا دارالحکومت ہوتا۔
سپئیر نے اپنے دل میں شمال-جنوب تک پھیلے ایک وسیع و عریض ایوینیو کی تعمیر کا سوچا تھا جس کا اختتام ایک بہت بڑے ہال میں ہونا تھا اور جس کا گنبد روم کے سینٹ پیٹرز سے 16 گنا بلند ہونا تھا۔ یہ جگہ اتنی بڑی ہوتی کہ اس کے اندر بیک وقت ایک لاکھ 80 ہزار نازی جمع ہو پاتے اور اتنی اونچی کہ اس کے چھت سے بادل ٹکرا رہے ہوتے۔
لیکن پھر ہٹلر نے 1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع کر دی، اور یورپ کو چھ سال کے لیے جہنم میں دھکیل دیا۔
سنہ 1942 میں ہٹلر نے سپئیر کو دفاعی پیداوار کا وزیر بنا دیا تھا تاکہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے استعمال سے جنگی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ 37 سال کی عمر میں سپئیر نازی جرمنی کے سب سے طاقتور ترین شخصیات میں سے ایک بن گئے تھے۔
نازی جنگی مشین کو چلانے کے لیے سپئیر نے فیکٹریوں اور کانوں میں غلاموں کو بھرتی کیا۔ یہ وہ دور تھا جب جرمنی کی صنعت میں 70 لاکھ سے زیادہ جبری مزدور کام کر رہے تھے، اور جن کی اکثریت اسلحے کی صنعت سے وابستہ تھی۔
اُن سب کی نگرانی سپئیر کرتے تھے اور کچھ غلاموں کو تو اتنہائی خوفناک حالات میں موت کے گھاٹ اُتارا گیا تھا۔
مصنف اور تاریخ دان ہیو ٹریورروپر نے سنہ 1996 میں نازیوں کے بارے میں بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم’دی نازی ہُو سیڈ سٹوری‘ میں بتایا کہ سپیئر جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ زبردست طریقے سے کنٹرول کرنا جانتے تھے اور اگر وہ چاہتے تو حراستی کیمپ استعمال کر سکتے تھے لیکن اُس کے بغیر انھوں نے اپنا کام مکمل کیا جس سے ہٹلر متاثر ہوا۔‘
نیورمبرگ میں غلاموں کی مزدوری کے مجرمانہ استعمال کے الزامات کے مقدمے کی سماعت کے دوران سپئیر کے پاس اپنے دفاع کے لیے واضح اور مہلک حکمت عملی تھی۔ انھوں نے اپنے سابق نائب فرٹز ساکل کو قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا۔
سوکل کو امریکی پراسیکیوٹر رابرٹ جیکسن نے ’مصر کے فرعونوں کے بعد سب سے بڑا اور ظالم ترین فرعون‘ قرار دیا اور انھیں 16 اکتوبر 1946 کو پھانسی دے دی گئی۔
30 ستمبر 1966 کی آدھی رات کے بعد 61 سالہ سپئیر جب 20 سال کی سزا کاٹ کر جیل سے رہا ہوئے تو دنیا بھر کا میڈیا ہٹلر کے سابق بہترین دوست کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جمع تھا۔
سنہ 1969 میں سپئیر نے اپنی یادداشت پر مبنی کتاب ’ان سائیڈ دی تھرڈ ریخ‘ شائع کی، جو بہت زیادہ فروخت ہوئی۔ بی بی سی سے لے کر پلے بوائے میگزین تک ہر کسی کے ساتھ انٹرویوز میں سپئیر نے اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا جو نازی حکومت کے جرائم کو دریافت کرنے میں ناکامی پر بہت شرمندہ تھا۔
لیکن کیا سپئیر محض ایک ٹیکنوکریٹ تھے جو ہولوکاسٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے؟
سپیئر کا دعویٰ ہے کہ نیومبرگ میں پہلی مرتبہ انھوں نے یہودیوں کے قتلِ عام کے بارے میں سُنا۔ لیکن سنہ 1971 میں ایک سال کے بعد ہی بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں ہاورڈ یونیورسٹی کے تاریخ دان ریچ گڈ ہینگ نے بتایا تھا کہ سپیئر نازی رہنماؤں کی اکتوبر 1943 میں ہونے والیکانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس کی سربراہی کرنے والے ہملر ’یہودیوں کے خاتمے‘کے بارے میں کُھل کر بات کرتے تھے۔
سپیئر کی سوانح نگار گیٹا سیرینی نے بی بی سی کے پروگرام میں بتایا کہ وہ کبھی بھی اس بات کی تصدیق کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں کہ وہ ’تاریخ کی بدترین تقریر‘ سننے کے لیے ذاتی طور پر اس کانفرنس میں موجود تھے، ان کے تین قریبی ساتھیوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی اور انھوں نے سپیئر کو ہملر کی باتوں سے آگاہ کیا ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس لیے اُن کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔‘
سنہ 1981 میں سپئیر بی بی سی کو دیے گئے ایک اور انٹرویو کے سلسلے میں لندن میں تھے کہ انھیں ہوٹل میں فالج کا اٹیک ہو اور اُسی رات 86 سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔
انھوں نے اپنی ایک نئی کتاب بھی شائع کی جس کا نام ’دی سلیو سٹیٹ۔۔۔‘ تھا اور اُسی شام وہ ہوٹل میں اپنی خفیہ گرل فرینڈ کی موجودگی میں وفات پا گئے۔
لندن میں ان کی گرل فرینڈ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ نہ تو ان کی اہلیہ اور نہ ہی ان کے بچے اور یہ اُن کی دہری اور دھوکہ دہی پر مبننی زندگی کی ایک مثال ہے۔ سپیئر کے فن تعمیر کا زیادہ تر حصہ باقی نہیں رہا۔ اس کی ہزار سالہ ریخ کے لیے بنائی گئی عمارتیں زیادہ تر فاتح اتحادیوں نے نیورمبرگ مقدمے کی شروع ہونے سے پہلے ہی تباہ کر دی تھیں۔
نیورمبرگ میں ایک نامکمل عمارت میں مستقل طور پر ایک نمائش ہوتی ہے جو تاریخ سے سبق سیکھنے کی مثال ہے، یہ سیاہ تاریخ کی وہ علامت ہے جس میں سپیئر نے اپنے کردار کو خود کبھی بھی تسلیم نہیں کیا لیکن اُسے تاریک بنانے میں اپنا کردار ضرور ادا کیا ہے۔
زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔ہٹلر کی موت کے بعد اُن کے اربوں مالیت کے اثاثے کس کو ملے؟ ساتھیوں کا دھوکہ، فرار سے انکار اور سرد بنکر: ہٹلر کے آخری لمحات اور سوویت یونین کی چالکارل ڈونٹز: جرمن فوج کے وہ ایڈمرل جنھیں ہٹلر نے خودکشی کرنے سے پہلے اپنا جانشین منتخب کیا تھا