درخت نے اپنی شاخیں آقائے دو جہاں ﷺ کے لیے جھکا لی تھیں، کیونکہ ۔۔ اس درخت کو صحابی درخت کیوں کہا جاتا ہے؟

ہماری ویب  |  Jan 01, 2022

دنیا میں ایسے کئی مقدس مقامات ہیں جو کہ اپنی دلچسپ اور حیرت انگیز تاریخ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان رشک بھی کرتا ہے۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو ایک ایسے درخت سے متعلق بتائیں گے جسے صحابی درخت بھی کہا جاتا ہے۔

اردن کے دارالحکومت سے تقریبا 150 کلومیٹر دور ازرق شہر کے پاس ایک ایسا درخت موجود ہے جو کہ 1500 سال پُرانا ہے، عام طور پر درختوں سے متعلق یہی خیال کیا جاتا ہے کہ درخت بھی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور دیمک یا کیڑے لگ کر ختم ہو جاتے ہیں۔

مگر اس درخت کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ درخت ابھی کچھ سالوں پہلے ہی اپنی جوانی میں آیا ہو، ہر شاخ پر پتے موجود، ہرے بھرے ہیں اور گھنے بھی۔

اس درخت کو صحابی درخت اس لیے کہا جاتا ہے کہ آقائے دو جہاں، رحمت دو عالم ﷺ نے اپنے بچپن میں اسی درخت کے نیچے آرام فرمایا تھا۔

ترمذی شریف میں ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ حضور اس وقت 12سال کے تھے جب انہوں نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کے سفر میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی اور جس کا احترام کیا گیا۔ تجارت کی غرض سے شام جانے والے اس قافلہ نے بیت المقدس کے قریب بصرہ کے مقام پر قیام کیا اور راستہ میں موجود ایک گھنے درخت کے سائے میں کچھ وقت گزارا۔ کتب تاریخ و سیرت میں درج ہے کہ صحابی درخت نے اپنی شاخیں فرط جذبات اور عقیدت کیساتھ آپ کے سر مبارک پر جھکا دیں تھیں۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے جب نبی کریم بحیرا کی درخواست پر گرجا میں تشریف لے گئے تو وہ حضور کے نور سے جگمگا اٹھا تھا۔

آقائے دو جہاں ﷺ نے اسی درخت کے نیچے قیام کیا تھا، آقائے دو جہاں ﷺ کو چھاؤ فراہم کرنے والا درخت آج بھی صحراء کی تپتی دھوپ میں چھاؤں فراہم کر رہا ہے۔ اس درخت کی طاقت اور قد میں زرا بھی فرق نہیں آیا ہے۔

ابو حمزہ اس مقام کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہاں آنے والے زائرین کی تفصیلات بھی ریکارڈ کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ صحابی درخت ایک نر درخت ہے جو کہ یہاں کا واحد درخت ہے۔

حیرت انگیز طور پر اس درخت کو صرف بارشوں کے وقت ہی پانی ملتا ہے، چونکہ یہ درخت صحراء میں واقع ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں پانی دور دور تک ناپید ہوتا ہے، لیکن اس مشکل صورتحال میں بھی اس درخت کا یوں گھنا، درخت بن جانا آسان نہیں ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More