دنیا میں کئی ایسے عجوبے آج بھی موجود ہیں جنہیں اپنے منفرد ہونے کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے اور کچھ چیزوں کو اس لئے محفوظ کرکے رکھا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو دکھا سکیں کہ اس نے یہ کارنامہ کیا تھا یا اس کی خاصیت یہ ہے اب جیسے آپ فرعون کی ممی کو ہی دیکھ لیں صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ ایسا ہی اس شخص کے ساتھ بھی ہوا۔
اس آدمی کے سر کو 180 سال سے ایک جار میں بند کرکے رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے دماغ پر تحقیق دانوں نے بڑی گہری تحقیق کرنی تھی۔ یہ پرتگال کا رہنے والا شخص تھا۔
دراصل
ڈیاگو الویس نامی یہ شخص اسپین سے پرتگال کام کرنے کی غرض سے گیا تھا۔ اس نے پرتگال کے شہر لسبن میں اٹھارویں صدی میں ذریعہ معاش کی خاطر بہت کام کیا۔ اسی کام کی بدولت وہ جرائم کی دنیا میں قدم رکھنا شروع ہوگیا۔
وہ پیسے کمانے کی خاطر کسی بھی حد سے گزرنے لگا اور دولت کا بھوت اس قدر اس کے سر پر سوار ہوا کہ اس نے لوگوں کی جانیں لینی شروع کردیں۔
1836 میں اس نے 213 فٹ اونچے پل کے پاس سے گزرنے والے کسانوں کو لوٹنا شروع کیا اور 4 سال میں 70 کسانوں کو لوٹ کر انہیں قتل کر دیا۔ پولیس کو لگا کہ کسان خودکشی کررہے ہیں جبکہ کوئی یہ نہ جانتا تھا کہ ڈیاگو اس قدر سفاک آدمی ہے۔ اس کے بعد پولیس نے اس پل کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جب پولیس نے اس کو بند کیا تو اس مرتبہ ڈیاگو نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا گینگ بنایا اور اب یہ لوگ شہر کے امیروں کو لوٹنے لگے اور اسی طرح واردات کے بعد ان کو قتل کیا جانے لگا ۔ ایک دن پولیس نے اس کو ساتھیوں سمیت رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ جس کے بعد اس کو مار دیا گیا لیکن سائنسدان یہ تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ اتنے سفاک آدمی کا دماغ کیا ایک عام آدمی کے دماغ کی طرح ہی تھا یا اس میں کوئی خرابی تھی؟ اس لیے انہوں نے ڈیاگو کا سر تن سے جدا کرکے ایک شیشی میں محفوظ کیا اور یہ آج بھی لسبن کی جامعہ میں رکھا گیا ہے۔
ڈیاگو الویس پرتگال کا سفاک ترین انسان کہلاتا ہے جس کے سر کو انتہائی خطر ناک کیمیکلز لگا کر محفوظ رکھا گیا ہے ۔