21 نومبر 1963 کو انڈیا نے پہلی بار راکٹ خلا میں بھیجنے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ یہ راکٹ کیرالہ میں ’تھوبا‘ نامی علاقے سے لانچ کیا گیا تھا۔ یہ جاننا آپ کے لیے بہت دلچسپی کا باعث ہو گا کہ اس سائنسی کامیابی کا تعلق ایک مسیحی عبادت گاہ یعنی چرچ سے کیسے ہے۔
انڈیا میں خلائی تحقیق کی مہم معروف سائنسدان ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کی قیادت میں شروع ہوئی تھی۔ سارا بھائی گجرات کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل صنعت کار امبالال سارا بھائی کے بیٹے تھے لیکن انھیں اپنے خاندانی کاروبار سے زیادہ فزکس میں دلچسپی تھی۔
وکرم سارا بھائی کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انڈیا واپس آئے اور انھوں نے اپنے گھر میں ہی فزیکل ریسرچ لیبارٹری (پی آر ایل) قائم کی۔
وکرم سارا بھائی کی ہومی جہانگیر بھابھا سے بھی اچھی دوستی تھی۔ بھابھا کے مشورے پر ہی انڈیا نے اپنی خلائی مہم شروع کی اور ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کو اس پروگرام کا سربراہ بنایا گیا۔
وکرم سارا بھائی کو ’خلائی تحقیق کی قومی کمیٹی‘ کا سربراہ بھی بنایا گیا اور اس کمیٹی کے قیام کے بعد وکرم سارا بھائی کے سامنے اصل چیلنج خلائی تحقیقی سٹیشن کے لیے جگہ تلاش کرنا تھا۔
اے پی جے عبدالکلام نے اپنی کتاب ’ایگنیٹیڈ مائنڈز‘ میں اس جگہ (تھوبا) کے بارے میں دلچسپ تفصیلات لکھی ہیں جہاں سے انڈیا نے اپنا پہلا راکٹ خلا میں لانچ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’تھوبا خط استوا سے قریب ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ سازگار جگہ تھی۔ لیکن ایک مشکل تھی کہ وہاں ہزاروں ماہی گیروں کی آبادی تھی اور گاؤں میں ایک خوبصورت چرچ ’سینٹ میری میگڈلین‘ بھی تھا۔ لہذا زمین کا حصول آسان نہیں تھا۔‘
پھر جگہ کیسے ملی؟
اے پی جے کلام نے لکھا کہ ’سنیچر کا دن تھا جب ڈاکٹر وکرم سارا بھائی نے چرچ کے پادری ریورنڈ ڈاکٹر پیٹر برنارڈ پریرا سے ملاقات کی اور چرچ کی جگہ دینے کا مطالبہ کیا۔ بشپ نے ان سے اتوار کو ملنے کو کہا۔‘
’اتوار کو جب لوگ چرچ میں عبادت کے لیے جمع ہوئے تو بشپ نے لوگوں سے کہا کہ ایک مشہور سائنسدان آ رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں چرچ اور اس سے ملحق اپنا گھر اُن کو دے دوں تاکہ وہ خلائی سائنس میں کچھ تحقیق کر سکیں۔‘
اے پی جے کلام نے بشپ کی اپیل کے بارے میں بہت دلچسپ الفاظ میں لکھا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’پادری نے لوگوں کو بتایا کہ سائنس سچائی کی تلاش کرتی ہے جو انسانی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ مذہب کا اعلیٰ درجہ روحانیت ہے۔ ہم جیسے روحانی اساتذہ خدا کی مدد سے انسانوں کے دماغ کو پرسکون کرتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستانی سپیس پروگرام اور رہبر ون: جب پانچ پاکستانی سائنسدانوں نے صرف نو ماہ میں پاکستان کو خلائی قوت بنا دیا
اپالو لینڈنگ: چاند پر اترنے سے قبل کے وہ 13 منٹ جنھوں نے ایک صدی کی قسمت لکھ دی
خلا بازی کا اصل مشن بتائے بغیر چُنے گئے روسی فوجی پائلٹس کی ذہنی و جسمانی تربیت کیسے کی گئی؟
لائیکا: ’خودکش‘ خلائی مشن پر جانے والی کتیا، انسان کے خلائی سفر کے باب کا ایک اہم کردار
’مختصر یہ کہ میں اور ڈاکٹر وکرم بھائی ایک ہی کام کر رہے ہیں۔ سائنس اور روحانیت، دونوں کو انسانی جسم اور دماغ کی بہتری کے لیے خدا کے فضل کی ضرورت ہے۔ تو بچوں، کیا ہم سائنس کے مشن کے لیے خدا کا یہ مقام دے سکتے ہیں؟‘
یہ سُن کر وہاں موجود لوگوں میں چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی لیکن کچھ ہی دیر میں لوگوں نے یک زبان ہو کر اس کی اجازت دے دی۔ ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کی شخصیت بہت پُرکشش تھی اور وہ نہ صرف عوام بلکہ حکومتوں کو بھی متاثر کرنے کا کام کرتے تھے۔
سارا بھائی کی سوانح عمری لکھنے والی امریتا شاہ نے ’وکرم سارا بھائی، اے لائف‘ میں چرچ اور ریسرچ سینٹر کی کہانی کے بارے میں لکھا ہے کہ سارا بھائی ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو اپنی مسکراہٹ سے بہتر کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔
انھوں نے لکھا کہ ’راکٹ لانچ کے لیے ضروری تھا کہ اس جگہ کو مکمل طور پر الگ تھلگ کیا جاتا کیونکہ اس میں ملبہ گرنے کا خدشہ تھا، اس لیے اسے آبادی سے دور یا سمندری ساحل کے قریب ہونا چاہیے تھا۔
اس کے لیے سارا بھائی نے اپنے طالبعلم ای وی چٹنیس کو جگہ تلاش کرنے کی ذمہ داری دی جو ایم آئی ٹی سے تعلیم مکمل کر کے واپس آئے تھے۔ انھوں نے کم از کم 200 مقامات کی فہرست بنائی، پھر ان پر کافی کام کرنے کے بعد تین جگہوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔
امریتا شاہ نے لکھا کہ ’وکرم بھائی اور ہومی جہانگیر بھابھا پہلی جگہ جس کی ریکی کرنے گئے تھے وہ تھرواٹو تھی، جو ترویندرم اور ایلیپی کے درمیان تھی۔ وہاں نمی بہت تھی اور وکرم سارا بھائی کو یہ جگہ پسند نہیں تھی۔‘
چرچ کے پادری کی شراکت
’دوسری جگہ ترویندرم سے متصل ’تھوبا‘ تھی۔ لوگوں نے اس جگہ کو پسند کیا۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ ایک یہ ہوائی اڈے کے بہت قریب تھا۔ آبادی بہت زیادہ نہیں تھی، لیکن چرچ کے آس پاس مچھیرے رہتے تھے۔‘
ایسے میں مقامی لوگوں پر دو لوگوں کے اثر نے وکرم سارا بھائی کی مدد کی۔ پادری کے کہنے پر لوگ چرچ اور گاؤں چھوڑنے پر راضی ہو گئے تھے۔ اور دوسری طرف ترویندرم کے نوجوان ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مادھاون نائر تھے، جنھوں نے جلدی سے گاؤں کے مچھیروں کی جھونپڑیوں کے عوض پکے گھر اور چرچ کی زمین کے بدلے زمین کا بندوبست کیا۔‘
اس جگہ کو پسند کرنے کی ایک سائنسی وجہ بھی تھی۔ یہ علاقہ خط استوا کے سب سے قریب تھا، جس کا مطلب ہے کہ راکٹ کو زمین کے مدار سے باہر نکلنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں تھی۔
وکرم سارا بھائی کے شاگردوں میں سے ایک اور اس پروجیکٹ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سائنسدان آر اروامودن نے اپنی سوانح عمری ’اسرو، دی پرسنل ہسٹری‘ میں ان ابتدائی دنوں کے بارے میں دلچسپ تفصیلات لکھی ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’ماہی گیر اور بشپ سبھی چند میل دور پیلیتھورا کے نئے آباد ہونے والے علاقے میں شفٹ ہو گئے، تقریباً دو کلومیٹر اور 600 ہیکٹر اراضی حاصل کر لی گئی تھی، لیکن چرچ اور بشپ کا گھر وہ سب کچھ تھا جس کی ہمیں پہلے ضرورت تھی۔‘
’اس وقت ہم کہیں بھی جانے کے لیے سائیکل کا استعمال کرتے تھے۔ کلام سائیکل نہیں چلاتے تھے اس لیے وہ کسی اور کے ساتھ سائیکل پر بیٹھتے تھے۔ ہم سائیکل پر راکٹ لانچر وغیرہ لاتے تھے کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک جیپ تھی جو بہت مصروف تھی۔‘
آر ارومودن نے یہ بھی لکھا کہ ’ٹیم نے وکرم سارا بھائی کی قیادت میں کام کرنا شروع کیا، لیکن چرچ میں کوئی کینٹین نہیں تھی، اس لیے لوگ چائے یا ناشتے کے لیے سائیکل سے ترویندرم ریلوے سٹیشن جاتے تھے اور وہاں سے سامان لاتے تھے۔‘
ان دنوں کی اسرو کی تصویروں میں صاف نظر آتا ہے کہ سامان سائیکلوں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے لایا جاتا تھا۔ وکرم سارابھائی کی قیادت اور ناسا کی مدد کی وجہ سے انڈیا 21 نومبر 1963 کو پہلا راکٹ لانچ کرنے میں کامیاب ہوا۔
لیکن وہ چرچ جہاں انڈیا کے خلائی مشن کے ابتدائی دنوں کا خاکہ بنایا گیا تھا، جلد ہی اسے خلائی میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا، جہاں طلبا اور محققین کا ہجوم ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اس میوزیم میں انڈیا کے پورے خلائی پروگرام اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں معلومات آویزاں کی گئی ہیں۔
تھوبا استوائی راکٹ لانچ سٹیشن کو 2 فروری 1968 کو اقوام متحدہ کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ، روس، جاپان، فرانس اور جرمنی نے یہاں سے راکٹ داغنے شروع کر دیے۔
کئی سال بعد انڈیا میں سری ہری کوٹا کے نام سے ایک اور راکٹ لانچ سینٹر کی تلاش کی گئی۔ لیکن وہ چرچ جہاں وکرم سارا بھائی نے کام شروع کیا تھا وہ آج وکرم سارا بھائی خلائی مرکز کے نام سے جانا جاتا ہے۔