پشاور پولیس لائن دھماکہ: ’مسجد میں پہنچا تو کہرام مچا ہوا تھا اور بے تحاشہ زخمی تھے‘

بی بی سی اردو  |  Jan 30, 2023

Getty Images

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں ہلاکت خیز دھماکے نے پشاور سمیت پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اس دھماکے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی آواز پولیس لائن سے ملحقہ علاقوں میں سنائی دی۔

یہ دھماکہ پشاور کے انتہائی حساس اور ہائی سکیورٹی زون پولیس لائن میں پیش آیاجس میں بظاہر خیبرپختونخوا پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہلاک ہونے والے افراد میں سے زیادہ تر پولیس کے ملازم یا اہلکار تھے جو مسجد میں ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے۔

پولیس کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ مسجد کا ایک حصہ زمین بوس ہو گیا اور اس کے سامنے موجود کینٹین کے عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

خیال رہے کہ پولیس لائن کے علاقہ میں پولیس افسران و انتظامیہ کے دفاتر اور پولیس اہلکاروں کی رہائش گاہیں موجود ہوتی ہیں۔

پولیس لائن شہر کی اہم شاہراہ خیبر روڈ پر واقعہ ہے اور اس سے ملحقہ شاہراہ سے ایک راستہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی جانب جاتا ہے جبکہ اس کے دائیں جانب سول سیکریٹریٹ کی عمارت موجود ہے۔

پولیس لائن کے عقبی جانب پشاور کی سینٹرل جیل بھی واقع ہے۔ پولیس لائن کا علاقہ ایک ہائی سکیورٹی زون قرار دیا جاتا ہے اور یہاں آنے اور جانے والے افراد کی تلاشی لی جاتی ہے اور مختلف جگہوں پر پولیس نے ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے۔

خیبر روڈ پر کچھ آگے جائیں تو وہاں جوڈیشل کمپلیکس اور کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ کی عمارت بھی موجود ہے جبکہ اس کے سامنے کور کمانڈر ہاؤس اور سرینا ہوٹل کی عمارت موجود ہے۔

پشاور کی پولیس لائن مسجد میں ہونے والے دھماکے کے بعد پولیس لائن، لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور علاقے میں موجود افراد نے دھماکے کی شدت اور دھماکے کے بعد مسجد کے مناظر کے بارے میں بی بی سی سے بات کی ہے۔

’وہاں پر چیخ و پکار تھی اور بے تحاشہ زخمی تھے‘

صوبہ خیبر پختونخواہ میں جماعتِ اسلامی کے سابق پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان دھماکے وقت پولیس لائن کے اندر موجود تھے۔

عنایت اللہ بتاتے ہیں کہ ’جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت میں کیپٹل سٹی پولیس کے دفتر میں موجود تھا۔ یہ ایک انتہائی زوردار اور خوفناک دھماکہ تھا۔ جس نے سارے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے تھے۔‘

سی سی پی او اعجاز خان اپنے دفتر میں موجود تھے اور جب دھماکے کی آواز آئی تو وہ جائے وقوعہ کی طرف چل پڑے اور میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

عنایت اللہ کہتے ہیں کہ ’جب میں جائے وقوعہ پر پہنچا تو کہرام مچا ہوا تھا۔

’مسجد کا وہ حصہ جہاں پر محراب ہوتا ہے وہ زمین بوس ہو چکا تھا۔ وہاں پر چیخ و پکار تھی اور بے تحاشہ زخمی تھے۔‘

BBC

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس لائنز میں پولیس کی گاڑیاں موجود تھیں اور پولیس نے فوراً سائزن بجانا شروع کر دیے تھے۔ ‘

عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے برآمدے اور مسجد کے پچھلے حصے میں نماز ادا کرنے والوں نے بتایا کہ مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور اگلی صفوں میں موجود لوگ سب زیادہ متاثر ہوئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر وہاں پر کچھ اور لوگ بھی پہنچ گئے جو رو رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ان کے دوست، رشتہ دار ملبے کے نیچے ہیں جو فون کر کے کہہ رہے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دھماکہ ایسے مقام پر ہوا ہے جو انتہائی محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں پر انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے دفاتر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت ہی سخت پیغام دیا گیا ہے کہ ہم ایسی جگہ پر بھی پہنچ سکتے ہیں۔‘

Getty Images’ہسپتال میں ایمبولینس پر ایمبولینس آ رہی تھی‘

لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں موجود مجیب الرحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت ہسپتال میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ایمبولینس پر ایمبولینس آ رہی تھی۔

’ہسپتال ایمرجنسی میں صرف زخمیوں کا اندر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتال کے باہر کھڑی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہجوم میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کے عزیز و اقارب واقعے کے وقت پولیس لائن میں تھے اور وہ ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کسی کو بھی ایمرجنسی کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی، ماسوائے ان لوگوں کے جو خون کے عطیات دینا چاہ رہے ہیں۔‘

شہری زاہد آفریدی جو دھماکے کے وقت کسی کام کے سلسلے میں پولیس لائن کے قریب علاقے میں موجود تھے بتاتے ہیں کہ اس دھماکے کی آواز ہم نے وہاں سے کم از کم پانچ سو میڑ دوری پر سنی۔

انھوں نے کہا کہ ’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ہم نے سمجھا کہ دھماکہ ہمارے پاس ہی ہوا ہے۔‘

زاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ ’دھماکے کے فوراً بعد گرد و غبار  اور دھواں اٹھنے لگا۔ واقعہ کے وقت میرے ساتھ دو لوگ اور بھی تھے۔

’چند لمحوں کے لیے ہم لوگ بالکل سکتے کی کیفیت میں چلے گے تھے۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بھگدڑ مچ گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تھوڑی دیر میں ایمبولینس کی آوازیں آئیں اور پھر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی تھی، جس نے سارے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More