انڈیا میں ’مودی ہٹاؤ، ملک بچاؤ‘ پوسٹرز لگانے اور چھاپنے پر 100 مقدمات درج

اردو نیوز  |  Mar 23, 2023

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں پولیس نے وزیر اعظم نریندر مودی مخالف پوسٹرز لگانے اور تقسیم کرنے پر درجنوں مقدمات درج کرلیے ہیں۔

انڈین نیوز ایجنسی ’اے این آئی‘ کے مطابق نئی دہلی پولیس نے ’مودی ہٹاؤ، ملک بچاؤ‘ کے پوسٹرز بنانے اور تقسیم کرنے پر 100 سے زائد ایف آئی آرز درج کرکے چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔

دوسری جانب اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق پوسٹرز چھاپنے اور تقسیم کرنے پر 44 مقدمات درج ہوئے ہیں۔

انڈین میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں’مودی ہٹاؤ، ملک بچاؤ‘ کے دو ہزار سے زائد لگائے گئے پوسٹرز ہٹائے گئے ہیں اور ایک وین بھی پکڑی گئی ہے جس میں سے سینکڑوں کی تعداد میں وزیراعظم مودی مخالف پوسٹرز برآمد ہوئے ہیں۔

گرفتار ہونے والے افراد میں پرنٹنگ پریس کے دو مالکان بھی شامل ہیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار ہونے والے ایک شخص نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ اس کے مالک نے انہیں پوسٹرز چھاپ کر نئی دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ہیڈکوارٹرز تک پہنچانے کا حکم دیا تھا۔

دوسری جانب عام آدمی پارٹی نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ’مودی ہٹاؤ، ملک بچاؤ‘ کا ہیش ٹیگ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’وزیراعظم مودی، آپ کتنی ایف آئی آرز درج کروائیں گے؟ اب تو ہر کونے سے یہی آواز آ رہی ہے۔‘

PM Modi, इस पर कितनी F.I.R. करवाओगे?

अब तो हर कोने से आवाज़ आ रही है: #ModiHataoDeshBachao pic.twitter.com/ZrfVKTGiAF

— AAP (@AamAadmiParty) March 22, 2023

خیال رہے دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے اور پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال اس کے وزیراعلیٰ بھی ہیں۔

پوسٹرز چھاپنے اور سڑکوں پر بینرز چسپاں کرنے پر بننے والے مقدمات پر سوشل میڈیا صارفین وزیراعظم مودی کی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔

ستیش ریڈی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’اگر صرف یہ پوسٹر ہی 100 سے زائد ایف آئی آرز اور درجنوں گرفتاریوں کی وجہ ہے تو میں بھی گرفتار ہونے کو تیار ہوں۔‘

‘ Modi Hatao, Desh Bachao’

If this poster alone is the reason for more than 100 FIRs & dozens of arrests. I’m ready to get arrested too! #ModiHataoDeshBachao#ArrestMeToo pic.twitter.com/QtKkTPloWV

— YSR (@ysathishreddy) March 22, 2023

نئی دہلی میں حکام کا کہنا ہے کہ ’مودی ہٹاؤ، ملک بچاؤ‘ پوسٹرز لگانے پر مقدمات ’پرنٹنگ پریس ایکٹ‘ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More