جامعہ پشاور میں ہڑتال، ’اساتذہ کی نوکریاں جا سکتی ہیں‘

اردو نیوز  |  Apr 01, 2023

پشاور یونیورسٹی میں ایک ماہ سے اساتذہ کے ہڑتال کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں جبکہ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی ہڑتال کی کال پر تمام تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔

رواں برس فروری کی 19 تاریخ کو اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں پروفیسر بشیر احمد کا قتل ہوا جس کے بعد اساتذہ نے سکیورٹی خدشات پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے۔

تقریباً دو ہفتوں بعد جب پانچ مارچ کو سکیورٹی گارڈ کی گولی سے سکیورٹی انچارج ثقلین بنگش کا قتل ہوا تو اساتذہ کے احتجاج نے زور پکڑا اور اس معاملے کی شفاف انکوائری سمیت سکیورٹی کمپنی سے معاہدہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا) نے ساتھ ہی پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس خان کے استعفے کا مطالبہ کر کے کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا جس کو ایک مہینہ ہو گیا ہے۔

پیوٹا کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سلیمان خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جامعہ پشاور کے نظام کو تباہ کرنے والے وی سی ہیں، ان سے یہ معاملات نہیں سنبھالے گئے وہ اس کرسی کا قابل نہیں ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم وائس چانسلر کو ہٹانے تک ہڑتال ختم نہیں کریں گے کیونکہ یونیورسٹی میں ’بدعنوانیوں اور کرپشن‘ کی شفاف انکوائری اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک یہ وی سی موجود ہیں۔

پانچ مارچ کو سکیورٹی انچارج ثقلین بنگش کا قتل ہوا تو اساتذہ کے احتجاج نے زور پکڑا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)ڈاکٹر سلیمان خان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھی کئی انکوائریاں شروع ہوئی مگر ’وی سی کی مداخلت‘ پر بند ہو گئیں۔

’ہمیں معلوم ہے کہ کلاسوں کے بائیکاٹ سے طلبہ کو نقصان ہو رہا ہے لیکن ہم ازالے کے لیے تیار ہیں۔  گرمیوں کی چھٹیوں میں کلاسوں کا انعقاد کریں گے تاکہ تعلیمی کورس کو مکمل کیا جا سکے۔‘

پیوٹا کے جنرل سیکریٹری کے مطابق اس وقت یونیورسٹی کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر ہم پیچھے ہٹ گئے تو اس ادارے کو مزید نقصان پہنچایا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیوٹا نے گورنر کو اپنے مطالبات سے آگاہ کر دیا ہے جس میں وائس چانسلر کا استعفیٰ سرفہرست ہے۔

’دباؤ ڈال کر مجھے راستے سے ہٹایا جا رہا ہے‘پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیوٹا کے ٹیچرز ایک پریشر گروپ ہے جو ’ایک سازش کے تحت‘ مہم چلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سکیورٹی انچارج کے قتل سے احتجاج شروع ہوا اور بات میرے استعفے تک پہنچ گئی۔

ڈاکٹر ادریس خان نے کہا کہ ’کچھ اساتذہ کے خلاف جعلی دستاویزات جمع کرنے کا الزام تھا جو انکوائری کمیٹی میں ثابت ہو چکا ہے، اب ان کو ڈر ہے کہ ان کے خلاف کارروائی ہونی ہے اس لیے دباؤ ڈال کر مجھے راستے سے ہٹایا جا رہا ہے۔‘

’یہ 120 کے قریب ٹیچرز ہیں جنہوں نے 20 ہزار سے زائد لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے مگر ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘

وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس خان نے کہا کہ پیوٹا ایک پریشر گروپ ہے جو ’ایک سازش کے تحت‘ مہم چلا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ اگر میرے خلاف کرپشن کے ثبوت ہیں وہ سامنے لائیں، وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹانے کا باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے۔

ڈاکٹر ادریس خان کے مطابق انہوں نے مسلسل کوششوں سے یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالا۔ یہ ہڑتالی اساتذہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی آگے نہ بڑھے۔

گورنر خیبر پختونخوا غلام علی جو یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں، سے گزشتہ روز کی ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گورنر غلام علی نے کمیٹی بنانے کا کہا مگر پیوٹا کے اساتذہ میری برطرفی پر بضد ہیں۔

’ابھی چانسلر کی سفارشات کا انتظار ہے جس میں اساتذہ کے تنخواہوں کی کٹوتی کے علاوہ نوکری سے برطرفی ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ احتجاج پر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں ایسا نظام نہیں چلے گا۔‘

دوسری جانب طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ اور انتظامیہ کی لڑائی میں نقصان ہمارا ہو رہا ہے۔ ہم سے فیسیں وصول کی گئیں مگر کلاسز بند ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More