حسن رحیم: ’ڈاکٹری سے زیادہ پیسے گلوکاری میں مل رہے تھے‘

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2023

BBC

گلوکار حسن رحیم کے گانے کا انداز غیر روایتی ہے۔ وہ خود اسے ’عجیب‘ سمجھتے ہیں اور کبھی کبھار اپنا ہی گانا سن کر کہتے ہیں ’یہ کیا کِیا ہے میں نے۔‘

بطور ایم بی بی ایس ڈاکٹر گریجویٹ کرنے والے حسن نے تین سال قبل اپنے گانے ’ایسے کیسے‘ سے خود کو منوایا اور یوں ان کی منفرد گلوکاری کو دنیا میں پہچان ملی۔

2022 میں کوک سٹوڈیو کے لیے ان کے گانے ’پیچھے ہٹ‘ نے یوٹیوب پر کروڑوں ویوز بٹورے اور یہ امریکی ٹی وی شو مس مارول کا بھی حصہ بنا۔ سپاٹیفائی پر وہ سب سے زیادہ سٹریم کیے جانے والے نوجوان پاکستانی گلوکاروں میں سے ایک ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حسن نے بتایا کہ اُن کو گانے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ ’میں بچپن سے ہی گانا گاتا تھا۔ میری امی کو لکھنے کا شوق تھا، تو وہ ٹپے لکھا کرتی تھیں۔ ماموں کی شادی میں اُنھوں نے 200 ٹپے لکھے اور وہ سارے ٹپے میں نے اور امی نے مل کر گائے۔‘

حسن رحیم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے جس کی وجہ سے اُن کے گانوں میں گلگت کا رنگ بھی نظر آتا ہے مگر حسن کے مطابق وہ صرف گلگت ہی نہیں بلکہ پاکستان کی دیگر زبانوں کو ملا کر گانا لکھتے ہیں۔

’میں ہمشہ چاہتا ہوں کہ لوگوں کو پتا ہو میں کس جگہ سے آیا ہوں اور اگر آپ کو موقع مل رہا ہے کہ آپ گانوں کے ذریعے اپنے علاقے کی نمائندگی کر سکتے ہیں تو آپ کو اس میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔‘

ایسے کئی گلوکار ہیں جن کے گانے کے سٹائل پر بہت تنقید کی جاتی ہے۔ حسن کو بھی اکثر اُن کے گانے کے انداز کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وہ خود اس پر ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں کہ ’میں ایک دن کرکٹ میچ کھیل رہا تھا تو ایک شخص میرے پاس آیا، اُس نے کہا تم حسن رحیم کی طرح لگتے ہو پر تمھاری آواز اُس سے اچھی ہے۔‘

حسن رحیم ان نوجوان پاکستانی گلوکاروں میں سے ہیں جنھیں یوٹیوب اور سپاٹیفائی جیسے پلیٹ فارمز سے پہچان ملی۔

سپاٹیفائی کے مطابق حسن رحیم کے گانے سب سے زیادہ دلی اور ممبئی سمیت چار بڑے انڈین شہروں میں سنے گئے ہیں اور اس فہرست میں لاہور کا نمبر پانچواں ہے جو کہ پہلے پانچ میں واحد پاکستانی شہر ہے۔

ان کے سب سے زیادہ ہٹ ہونے والے گانوں میں سے ایک ’پیچھے ہٹ‘ ہے جس نے یوٹیوب پر دو کروڑ ویوز حاصل کیے۔ حال ہی میں انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ اب یہ گانا ’عورت مارچ کا ترانہ ہے اور اس تحریک کا حصہ ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

جب عاطف اسلم ’بے سُری تاروں سے گٹار بجا کر‘ اس میں سُر ڈھونڈتے تھے

’منی بیک گارنٹی‘ میں بینک مینیجر کا کردار ادا کرنے والے وسیم اکرم کیا ’فلموں کا سلطان‘ ثابت ہو پائیں گے؟

علی سیٹھی امریکہ میں ’پسوڑی‘ مچانے کو تیار: ’اس تہوار میں جانے کا کوئی وقت تھا، تو وہ اب ہے‘

اس گانے کو ڈزنی پلس کی مسلم کردار پر مبنی پہلی سپر ہیرو سیریز ’مس مارول‘ میں بھی شامل کیا گیا جس پر حسن نے ہمیں بتایا کہ انھیں یہ سب جان کر کافی خوشی ہوئی تھی۔ ’مجھے کئی لوگ میسج کر کے بتا رہے تھے کہ میرا گانا مس مارول میں استعمال ہوا ہے۔ میں نے پھر یوٹیوب پر جا کر خود سنا کہ کیا واقعی ہی میں ایسا ہوا ہے۔‘

حسن کے گانوں پر نوجوان لڑکے لڑکیاں خوب انسٹاگرام ریلز، یوٹیوب شاٹس اور ٹک ٹاک بناتے ہیں۔ شاید ان کے گانوں کے مقبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے مگر حسن رحیم کا ماننا ہے کہ ان کے مداح صرف نوجوانون لڑکے لڑکیاں ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے لوگ ہیں۔

’مجھے تین، چار سال کے بچوں کی بھی ویڈیوزآتی ہیں، اُن کو میرے گانے سمجھ تو نہیں آتے مگر وہ میوزک کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔‘

یوٹیوب اور سپاٹیفائے جیسے آن لائن پلیٹ فارمز پر نوجوان بغیر کسی مدد کے اپنا ٹیلنٹ دکھا سکتے ہیں اور ایسے کئی گلوکار ہیں جنھوں نے یہیں سے اپنے میوزک کیریئر کا آغاز کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں سپاٹیفائے جیسے پلٹ فارمز کے آنے سے مزید لوگوں کو موقع ملے گا کہ وہ خود کو دنیا کے سامنے لا سکیں۔‘

مگر فی الحال وہ خود ملک میں انٹرنیشنل لیول کے کنسرٹ کروانے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کنسرٹ کے لیے سٹیج ڈیزائن میں بھی وہ اپنی رائے دیتے ہیں کیونکہ اُن کا ماننا ہے بین الاقومی معیار کے کنسرٹ کروانے سے دنیا بھر کے شائقین کی توجہ پاکستان کو ملے گی۔

’روپ بدلتا رہتا ہوں، اس لیے لوگ اکثر پہچان نہیں پاتے‘

بال کبھی چھوٹے، کھبی لمبے، کبھی پونی ٹیل۔۔۔ شوبز انڈسٹری سے وابستہ لوگ اکثر روپ بدل کر مداحوں کی توجہ حاصل کرتے رہتے ہیں تاہم کئی بار تو اس لیے بھی روپ تبدیل کیا جاتا ہے کہ عوامی جگہ میں کوئی اُن کو پہچان نہ لے۔ حسن رحیم کو بھی ان کے ہر گانے میں ایک مختلف روپ میں دیکھا جاتا ہے۔

اس بارے میں حسن نے کہا کہ جب بھی وہ کہیں جاتے ہیں تو اُن کے بات کرنے کے انداز سے پہچانا نہیں جا سکتا کہ وہ ’حسن رحیم ہیں‘۔

’اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد حلیہ تبدیل کرتا رہتا ہوں۔ کبھی داڑھی رکھ لیتا ہوں، کبھی پونی کر لیتا ہوں۔ میں ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا ہوں۔‘

حسن کے منفرد سٹائل کی طرح ان کے گانوں کے نام بھی انوکھے ہوتے ہیں، جیسے ’پینٹ بٹر، جونہ، کلیجی‘ وغیرہ۔ جبکہ ان کے نئے البم کا نام ’نوٹنکی‘ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں گانوں کے ٹائٹل کچھ سوچ کر نہیں رکھتا، جو بھی اُس وقت مجھے سمجھ آ رہی ہوتی ہے، میں لکھ دیتا ہوں کہ ایک عام انسان اس وقت کیا سوچ رہا ہو گا۔‘

اپنے الگ تھلک انداز ہی کی وجہ سے انھیں ڈراموں میں کام کرنے کی بھی پیشکش ہوئی لیکن حسن کا ماننا ہے وہ ایسے کسی پراجیکٹ کا حصہ بنیں گے جس سے لوگوں کو میسج ملے۔

’ایک روز سحری میں، میں نے امی سے پوچھا کہ مجھے اس طرح ایک ڈرامے کی آفر آئی ہے، میں کر لوں؟ تو امی نے مجھے گھور کے دیکھا۔ میں نے اُن سے پوچھا اگر ایسے کسی پراجیکٹ پر کام کرنے کو ملے جس سے لوگوں کو مسیج ملے، کیا وہ کر لوں؟ تو اُنھوں نے کہا ہاں، ایسا کر لینا مگر ایسے ہی (شوقیہ) کسی ڈرامے میں کام نہ کرنا۔‘

چونکہ حسن تعلیم کے لحاظ سے ایم بی بی ایس ڈاکڑ ہیں تو کام کو بریک دے کر گلوکاری کرنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے مصروف زندگی سے وقت نکالا۔

اس سوال پر کہ ایک ڈاکر کو آخر گلوکار بننے کا خیال کیسے آیا تو انھوں نے مزاحیہ انداز میں کہا ’ملک کے حالات آپ نے دیکھے ہیں، پیسے بھی تو کمانے تھے کیونکہ ڈاکٹری سے زیادہ پیسے اس (گلوکاری) میں مل رہے تھے اور مجھے گھر کو بھی سپورٹ کرنا تھا۔‘

حسن کہتے ہیں کہ ’اگر آپ میں گلوکار بننے کا جنون ہے تو اس کو سو فیصد وقت دیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں گلوکاری ایک ایسا پیشہ ہے جس میں آگے نکلنے کا بہترین موقع ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More