32 ہزار لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی فلم کو ’مسلم مخالف پروپیگنڈا‘ کیوں کہا جا رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  May 01, 2023

The Kerala Story

انڈیا کی ریاست کیرالہ سے مبینہ طور پر لاپتہ ہو کر اسلام قبول کرنے والی لڑکیوں کی کہانی پر مبنی فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ پر تنازع بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ فلم پانچ مئی کو ریلیز ہونے والی ہے۔ فلم کا ٹریلر چار روز قبل جاری کیا گیا ہے اور اسے اب تک 1.4 کروڑ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔

کیرالہ سے 32 ہزار لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی اس فلم نے سیاست اور معاشرے کو بھی دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ اس فلم کو پروپیگنڈا قرار دے رہا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اسے کیرالہ کی حقیقت بتا رہا ہے جس پر اب تک کھل کر بات نہیں ہوئی۔

اتوار کو کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے ’دی کیرالہ سٹوری‘ بنانے والوں پر تنقید کی۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق انھوں نے کہا کہ فلم ساز ’لو جہاد‘ کا مسئلہ اٹھا کر سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لو جہاد‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عدالتوں، تحقیقاتی ایجنسیوں اور یہاں تک کہ وزارت داخلہ نے بھی مسترد کر دیا ہے۔

@adah_sharma’آزادی اظہار کا مطلب معاشرے میں زہر پھیلانا نہیں ہے‘

وزیر اعلیٰ وجین نے کہا ہے کہ فلم کے ٹریلر سے پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ریاست کے خلاف پروپیگنڈا اور فرقہ وارانہ تقسیم کرنا ہے۔

انھوں نے کہا ’لو جہاد کا مسئلہ ایسا ہے کہ اسے تحقیقاتی ایجنسیوں، عدالتوں اور یہاں تک کہ مرکزی وزارت داخلہ نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ یہ مسئلہ اب کیرالہ کے بارے میں اٹھایا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ریاست کو دنیا کے سامنے بدنام کرنا ہے۔‘

ایک بیان میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایسی پروپیگنڈا فلم اور اس میں مسلمانوں کو جس طرح دکھایا گیا ہے اسے ریاست میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی سنگھپریوار کی کوششوں سے جوڑا جانا چاہیے۔‘

انھوں نے سنگھ پریوار پر ریاست کی مذہبی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔

چند روز قبل حکمراں جماعت سی پی آئی (ایم) اور اپوزیشن کانگریس نے اس متنازعہ فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ پر تنقید کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آزادی اظہار کا مطلب معاشرے میں زہر پھیلانا نہیں ہے۔

کیرالہ قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وی ڈی ساتھیسن نے کہا ہے کہ فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ کو نمائش کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

کیرالہ کو بدنام کرنے کی کوششThe Kerala Story

ایک فیس بک پوسٹ میں، ساتھیسن نے کہا ’فلم کا دعویٰ ہے کہ کیرالہ کی 32000 لڑکیوں نے اسلام قبول کیا اورشدت پسند تنظیمنام نہاد دولت اسلامیہ کی رکن بنیں۔ اس فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ فلم کے ٹریلر سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کیا دکھانا چاہتے ہیں۔‘

ساتھیسن نے کہا ہے کہ یہ فلم سنگھ پریوار کے سماج میں اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے ایجنڈے سے متاثر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم بین الاقوامی سطح پر کیرالہ کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا، حکمران سی پی آئی (ایم) کے یوتھ ونگ نے بھی فلم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ٹریلر سے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

سی پی آئی (ایم) کے راجیہ سبھاکے رکن اے اے رحیم نے کہا ہے کہ ’جھوٹ پر مبنی یہ فلم آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا ایجنڈا ہے جو انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔‘

https://twitter.com/amitmalviya/status/1651193185979490306?s=20

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس فلم کی حمایت کی ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ’کیرالہ کی کہانی حقیقی زندگی کی کہانیوں پر مبنی ہے۔ یہ ایک چونکا دینے والی اور پریشان کن فلم ہے۔‘

مالویہ لکھتے ہیں ’فلم میں کیرالہ میں تیزی سے اسلامائزیشن کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح معصوم لڑکیوں کو شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کا رکن بننے کے لیے پھنسایا جا رہا ہے۔ لو جہاد ایک حقیقت ہے اور یہ خطرناک ہے۔ اس خطرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔‘

پروڈیوسر اور اداکارہ کی جانب سے فلم کا دفاع

فلم کی کاسٹ اور پروڈیوسر نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کو پہلے فلم دیکھنی چاہیے اور پھر اس کے بارے میں رائے قائم کرنی چاہیے۔

دوسری جانب فلم کی اداکارہ ادا شرما نے نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات چیت میں کہا کہ ’یہ ایک خوفناک کہانی ہے اور یہ اور بھی خوفناک ہے کہ لوگ اسے پروپیگنڈا کہتے ہیں یا لڑکیوں کے لاپتہ ہونے سے پہلے ان کی تعداد کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ پہلے لاپتہ لڑکیوں کے بارے میں بات کرتے اور پھر ان کی تعداد کے بارے میں سوچتے۔‘

ادا شرما نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایسی لڑکیوں سے ملی ہیں۔ ادا شرما نے کہا کہ میں کچھ ایسی لڑکیوں سے ملی ہوں اور میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی، ایک یا دو سطروں میں بات کرنا ان کے درد کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔

ادا شرما نے کہا ہے کہ ایک بار جب آپ یہ فلم دیکھیں گے تو آپ لڑکیوں کی تعداد کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔

دوسری جانب ہدایت کار سدیپتو سین کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس فلم کی کہانی پر سات سال تک کام کیا اور اس دوران انھوں نے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات اور انٹرویو کیے ہیں۔

ڈائریکٹر کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اصل تعداد جاننے کے لیے عدالت میں معلومات کے حق کے تحت درخواست دائر کی ہے لیکن ابھی تک رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں مسلمان مخالف نفرت آمیز موسیقی کیوں بن رہی ہے؟

سال 2022 کی انڈین فلموں نے ہندو مسلم دوریوں کو کم کیا یا بڑھایا؟

آزادی کے 75 سال: بٹوارے پر مبنی بالی وڈ کی یہ پانچ فلمیں آپ نے دیکھی ہیں؟

https://twitter.com/sunshinepicture/status/1650371512904597506?s=20

اس فلم کو وپل شاہ نے پروڈیوس کیا ہے، اس کی ہدایت کاری سدیپٹو سین نے دی ہے اور اس کا سکرپٹ بھی انھوں نے ہی لکھا ہے جس میں جنوبی ریاست میں ’تقریباً 32,000 لاپتہ خواتین‘ کے واقعات بتائے گئے ہے۔

پروڈیوسروپل شاہ نے بھی فلم کا دفاع کرتے ہوئے اسے برسوں کی تحقیق اور محنت کا نتیجہ قرار دیا۔ وپل شاہ نے کہا ہے کہ یہ فلم ایسی سچی کہانی بیان کرتی ہے جو پہلے کسی نے بتانے کی ہمت نہیں کی۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے وپل شاہ نے کہا ’فلم اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح بنیاد پرستی ہماری قوم کی خواتین کے لیے خطرہ ہے اور یہ انڈیا کے خلاف رچی جانے والی اس سازش کے بارے میں آگاہی بھی پیدا کرتی ہے۔‘

فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان خواتین کو برین واش کیا گیا، بنیاد پرست بنایا گیا اور انھیں انڈیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں دہشت گردی کے مشن پر بھیجا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More