جینیفر لارنس کی افغانستان میں خواتین سے متعلق خفیہ دستاویزی فلم: ’وہ متاثرین نہیں ہیرو ہیں‘

بی بی سی اردو  |  May 21, 2023

Getty Imagesجینیفر لارنس بریڈ اینڈ روزز نامی ایک نئی دستاویزی فلم کی پروڈیوسر ہیں، جو افغانستان میں تین خواتین کی روزمرہ کی زندگیوں کی کہانی بیان کرتی ہے

’تم صرف عورتوں پر ظلم کرتے ہو‘ نوجوان عورت طالبان جنگجو سے کہتی ہے۔

’میں نے تم سے کہا تھا کہ بات نہ کرو‘ وہ چیختا ہے، ’میں تمہیں یہیں مار ڈالوں گا‘

’ٹھیک ہے، مجھے مار ڈالو‘ اس نے بھی جواب میں آواز بلند کی۔

’آپ نے سکول اور یونیورسٹیاں بند کر دی ہیں! یہی بہتر ہے کہ مجھے قتل کر دو۔‘

ایک کیمرہ فون نے خفیہ طور پر خاتون اور عسکریت پسند کے درمیان گاڑی کے اندر ہونے والے اس براہ راست تصادم کو قید کر لیا ہے۔ انھیں ابھی ایک احتجاج کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور انھیں کابل کے ایک حراستی مرکزمیں لے جایا جانے والا تھا۔

یہ دستاویزی فلم ’بریڈ اینڈ روزز‘ کا ایک منظر ہے، جس میں افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کے ہفتوں میں تین خواتین کی روز مرہ کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

فلم کی پروڈیوسر آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ جینیفر لارنس ہیں جنھوں نےبی بی سی کو بتایا کہ فلم کا یہ لمحہ ان کے لیے اتنا اہم کیوں ہے۔

جینیفرلارنس کا کہنا ہے کہ ’ان خواتین کو طالبان کے خلاف لڑتے ہوئے دیکھ کر میرا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔‘

’آپ کہانی کا یہ رخ نہیں دیکھتے ہیں، خواتین ہر روز لڑ رہی ہیں، وہ خبروں میں ہیں اور یہ ہماری فلم اور ان خواتین کی کہانیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہیہ سوچنا ہی تکلیف دہ ہے کہ افغان خواتین نے اچانک اپنے تمام اختیار کھو دیے۔

’فی الحال انھیں اپنے ملک میں کوئی خودمختاری حاصل نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ انھیں اپنی کہانی کو اپنے انداز میں دستاویزی شکل دینے کا موقع دیا جائے۔ یہ فلم ایکسیلینٹ کیڈاور نے بنائی ہے۔ یہ پروڈکشن کمپنی جینیفر لارنس نے سنہ 2018 میں اپنے دوست جسٹن سیاروچی کے ساتھ مل کر بنائی تھی۔

جینیفر لارنس کا کہنا ہے کہ ’یہ دستاویزی فلم جذبات اور ضرورت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور وہ خبروں میں جو کچھ دیکھ رہی تھیں اس کے بارے میں بے بس اور مایوس محسوس کر رہی تھی۔‘

سیاروچی کا کہنا ہے ’سنہ2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے پر لارنس لرز کر رہ گئیں کیونکہ خواتین کے لیے حالات بہت خراب تھے۔‘

’اور انھوں نے کہا کہ ہمیں کسی کو اس کہانی کو بامعنی انداز میں بتانے کے لیے ایک پلیٹ فارم دینا ہوگا۔‘

یہ ایک دستاویزی فلم ساز سہرہ مانی تھیں جنہوں نے کابل کی آزاد پروڈکشن کمپنی افغان ڈاکٹر ہاؤس کی مشترکہ بنیاد رکھی تھی۔

لارنس اور سیاروچی دونوں نے ان کی دستاویزی فلم ’اے تھاؤزنڈ گرلز لائیک می‘ دیکھی تھی، جس میں ایک 23سالہ افغان خاتون کی پروفائل پیش کی گئی تھی، جو اہل خانہ اور پولیس کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے بعد اپنے والد کی جانب سے جنسی استحصال کو بے نقاب کرنے کے لیےقومی ٹیلی ویژن پر جاتی ہے۔

سیاروچی نے مانی کا سراغ لگا لیا، جس نے کہا کہ انھوں نے پہلے ہی ملک میں تین خواتین کے حوالے سے ایک منصوبہ شروع کر دیا تھا کیونکہ انھوں نے طالبان کے قبضے کے بعد کے مہینوں میں خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، کیونکہ لڑکیوں اور خواتین کو یونیورسٹیوں اور سکولوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔

مانی نے خفیہ کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے فلم بندی کی، اور یہاں تک کہ خواتین سے کہا کہ وہ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ محفوظ گھروں میں خود کو فلمبند کریں۔

ایک اور سیکوئنس میں کابل کی ایک سڑک کے قریب بغیر کھڑکی والے تہہ خانے میں ایک خفیہ ملاقات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ایک درجن سے زیادہ عورتیں ڈیسک اور کرسیوں کی قطاروں میں بیٹھی ہیں، جنھیں ایک عارضی کلاس روم کی طرح ترتیب دیا گیا ہے۔ ان کے پلاسٹک کے کپ میں مشروبات سے بھاپ اٹھتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتیں لیکن ان سب کا تعلق مختلف گروہوں سے ہے جنہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد احتجاج کیا تھا۔

ان میں سے ایک خاتون زہرہ نامی ڈینٹسٹ دیکھنے والوں کو اس خفیہ ملاقات تک لےجاتی ہیں۔ جب وہ گروپ سے بات کرتی ہیں، تو وہ ہائی ہیلز اور پرفیوم پہننے اور اپنے دوستوں کے ساتھ پارک جانے کی یاد دلاتی ہیں۔ ان کے آس پاس کی عورتیں مسکراتی ہیں۔

اس کے بعد وحیدہ نام کی ایک مصنفہ بولنا شروع کر دیتی ہیں۔ ’عورتوں کو اپنی تاریخ خود لکھنی چاہیے۔‘

وحیدہ اس گروپ سے جذباتی انداز میں کہتی ہیں ’دنیا بھر میں خواتین سے مناسب سلوک نہیں کیا جاتا۔‘

مانی اس طرح کے نجی اور خطرناک حالات میں فلم بندی کے چیلنجوں سے بخوبی واقف تھیں۔

’میں سمجھتی ہوں کہ مشکلات سے کیسے نمٹنا ہے کیونکہ میں ان میں سے ایک ہوں۔‘

’وہ متاثرین نہیں ہیں وہ ہیرو ہیں۔‘

لیکن خواتین کو محفوظ رکھنے اور ان کی کہانی سنانے کے درمیان توازن حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پروڈکشن کے عمل کے دوران ان کے، سیاروچی اور لارنس کے درمیان رات گئے تک کئی بار بات چیت ہوئی۔

’جب بھی مجھے کوئی مسئلہ یا پریشانی پیش آتی، وہ وہاں موجود ہوتے‘ مانی کہتی ہیں کہ جب عورتیں متحد ہوتی ہیں تو سب کچھ ممکن ہوتا ہے۔

سقوطِ کابل کے بعد کے کئی ہفتوں تک بریڈ اینڈ روزز کو خفیہ طور پر متعدد خفیہ کیمروں کے استعمال سے فلمایا گیا تھا۔ چونکہ مانی اور دیگر خواتین اب ملک سے باہرہیں اس لیے پروڈیوسرز اسے کانز فلمی میلے کے اغام کے بعد وسیع پیمانے پر نمائش کے لیے پیش کرنے کے لیے مطمئن ہیں۔

سیاروچی اور لارنس کا کہنا ہے کہ ان کا اگلا چیلنج فلم کو بڑے سامعین کے سامنے لانا ہے۔ جب کہانی ایک جاری اور تباہ کن تنازعے کی عکاسی کرتی ہے تو یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ہے۔

جینیفر لارنس کہتی ہیں کہ ’اس کہانی کا کوئی اختتام نہیں ہے اور جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ اس کے بارے میں کچھ بھی کیسے کیا جائے تو آپ خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ یہ مارکیٹ کرنے کے لیے ایک مشکل چیز ہے۔‘

خواتین ایگزیکٹو پروڈیوسرز کے طور پر، سیاروچی اور لارنس اب بھی ہالی ووڈ میں اقلیت میں ہیں۔ سینٹر فار دی سٹڈی آف ویمن ان ٹیلی ویژن اینڈ فلم کے 2022 کے ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں کے ہدایت کاروں، مصنفین اور پروڈیوسروں میں خواتین کی تعداد صرف 24 فیصد ہے، جو 2021 کے مقابلے میں کم ہے۔

جینیفر لارنس کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں ابھی ایک بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے، لیکن جب آپ کے پاس فلم سازی میں زیادہ تنوع ہوتا ہے تو میں اس سے مثبت محسوس کرتی ہوں۔ یہ وہ ہے جو لوگ چاہتے ہیں، ناظرین یہی چاہتے ہیں۔‘

سیاروچی کہتی ہیں ’یہی وجہ ہے کہ ہم جینیفر کے پلیٹ فارم کی ذمہ داری کو اتنی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسی خاتون ہیں جو دوسری خواتین کو مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ عورتوں کو ملازمت دینا، عورتوں کی کہانیاں سنانا اور ہمیشہ متنوع لوگوں کو ملازمت دینا۔‘

جینیفر لارنس نے جواب دیا کہ ’اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں ایک عورت ہوں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میری سوچ متعصبانہ نہیں ہے کہ خواتین مختلف کاموں میں اتنی اچھی نہیں ہوتیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More