بائیولاجیکل والد کی تلاش: ’تین مرد جنھیں میں اپنا اصل باپ سمجھتی رہی‘

بی بی سی اردو  |  May 26, 2023

ایو ویلی کی عمر 16 سال تھی جب انھیں معلوم ہوا کہ اُن کی پیدائش سپرم ڈونر (یعنی عطیہ کیے گئے سپرم) کے باعث ممکن ہو پائی تھی۔

امریکی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون کو اس پر حیرانی ہوئی مگر وہ اپنے بائیولاجیکل والد (یعنی سپرم ڈونیٹ کرنے والے) سے ملنے کے لیے بیتاب تھیں۔

اپنے والد کے طور پر جس شخص کو وہ بچپن میں دیکھتی تھیں (یعنی ان کی والدہ کے شوہر) اُن کا نام ڈگ تھا اور ان کی وفات دل کے عارضے سے اس وقت ہوئی تھی جب ایو کی عمر محض سات سال تھی۔

وہ اپنی کہانی کچھ یوں بیان کرتی ہیں کہ ’ایک روز نوجوانی میں، میں اپنی والدہ کی ای میلز دیکھ رہی تھی۔ ایک ای میل پر کلک کرنے سے مجھے اپنی سالگرہ کی تاریخ ملی۔ مجھے لگا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ میں نے گوگل کر کے دیکھا کہ کیلیفورنیا کرائیو بینک کیا ہے (جہاں سے یہ ای میل آئی تھی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ میں سپرم ڈونر کی مدد سے پیدا ہوئی تھی۔‘

’پہلے تو میں بہت حیران اور پریشان ہوئی۔ مجھے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ ہمارے خاندان کا کوئی راز ضرور ہے مگر مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ میں ہی یہ راز ہوں۔‘

’بائیولاجیکل والد‘ کی کھوج اور پھر پہلی ملاقات

اس حقیقت کے انکشاف کے بعد ہی انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈگ ان کے بائیولاجیکل والد نہیں جن کی موت ان کے بچپن میں ہی ہو چکی تھی۔ یہ ان کے لیے امید کی کرن تھی کہ وہ اپنے والد کو ڈھونڈ سکتی تھیں۔

جب وہ 18 سال کی ہوئیں تو انھوں نے میڈیکل ریکارڈ کے ذریعے اپنے بائیولاجیکل والد کو ڈھونڈنا چاہا۔

’میری والد 1980 کی دہائی میں حاملہ ہوئی تھیں۔ اس وقت کے قانون کے مطابق وہ حاملہ ہونے کے لیے کسی نامعلوم مقامی ڈونر کا استعمال کر سکتی تھیں۔ چونکہ ہم دیہی امریکہ کے چھوٹے سے قصبے سے ہیں اس لیے میں اچانک کسی دکان پر جا کر یہ نہیں پوچھ سکتی تھی کہ کیا آپ میرے بائیولاجیکل والد ہیں؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے والدین نے کیلیفورنیا کرائیو بینک میں ڈونر افراد کی پروفائلز دیکھیں اور نمبر 106 پر ایک شخص کا انتخاب کیا۔ میری ماں کے پاس اب بھی وہ شیٹ تھی جس میں اس شخص کی جسمانی خصوصیات، دلچسپیاں، تعلیم، بلڈ گروپ وغیرہ درج تھے۔‘

’میں کم از کم اپنی میڈیکل معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی اور اپنے والد کو ڈھونڈ کر بیٹی اور والد کے رشتے سے جڑنا چاہتی تھی۔‘

انھوں نے ’کیلیفورنیا کرائیو بینک سے گزارش کی کہ نمبر 106 کے شخص سے میڈیکل ریکارڈ اپ ڈیٹ کرانے کے دوران انھیں میرا لکھا خط دیں۔‘

ایو کو ایک سال بعد اپنے بائیولاجیکل والد مل گئے جن سے ان کا بذریعہ ای میل اور فون رابطہ شروع ہو گیا۔

ان کی اپنے بائیولاجیکل والد سٹیو سے اس وقت ملاقات ہوئی جب ان کی عمر 19 سال تھی۔ ’سٹیو ایک اچھے اور دوستانہ شخص تھے جو مجھ میں بطور بیٹی دلچسپی لیتے تھے۔ یہ بہترین رشتہ تھا، کسی دیومالائی کہانی کی طرح۔ میں نے کئی بُری کہانیاں سنی تھیں، مگر یہ ایسا بالکل نہیں تھا۔‘

میرے بیٹے کے ڈی این اے میں چھپا سراغ

ایو بتاتی ہیں کہ بعدازاں ان کی اپنی شادی ہو گئی اور شادی کے بعد وہ جلد حاملہ ہو گئیں جس کے بعد ان کے ہاں بیٹے ہٹن کی پیدائش ہوئی جس میں میڈیکل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور ڈاکٹروں کے پاس اس کا حل نہیں تھا۔

جب ہٹن تین سال کا ہوا تو اس کے تفصیلی ڈی این اے اور جینیٹک ٹیسٹ کیے گئے اور معلوم ہوا کہ وہ سیلیاک نامی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری میں گلوٹن کھانے سے مدافعتی نظام اپنے ہی ٹشوز پر حملہ کرتا ہے۔

’یہ جینیاتی بیماری تھی اور مجھے بتایا گیا کہ میرے ریسیسو جینز کی وجہ سے مجھے یہ بیماری نہیں ہوئی تھی۔‘

ان کے لیے یہ حیرانی کا باعث تھا کیونکہ ان کے خاندان یا سٹیو(جنھیں اب تک وہ اپنا والد سمجھ رہی تھیں) کے خاندان میں یہ بیماری نہیں پائی جاتی تھی۔

انھوں نے ٹیسٹ کے تنائج میں دیکھا کہ ان کا جینیاتی اعتبار سے تین ہزار افراد سے تعلق ہے، جو ان کے سوتیلے بہن بھائی بنتے ہیں۔

انھوں نے ان افراد سے رابطے شروع کر دیے جو عمر میں ان سے بڑے تھے۔

انھوں نے اپنے پہلے سوتیلے بھائی سے رابطہ کیا جس نے انھیں بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے بائیولاجیکل والد کِم میکمورس ہیں (ایو کی والدہ کے ڈاکٹر)۔ میکمورس وہ شخص تھے جنھوں نے آرٹیفیشل انسمنیشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش ممکن بنائی تھی۔

پھر انھوں نے دوسرے اور تیسرے سوتیلے بھائیوں سے بات کی۔ تیسرے نے بتایا کہ انھیں نہیں لگتا ان کا ایو سے کوئی تعلق ہے۔ ’میں اپنے والد جیسا نظر آتا ہوں۔ ہم شاید صرف کزنز ہیں۔‘

ایو نے ان سے پوچھا کہ وہ انھیں اپنے انکلز کے بارے میں بتائیں جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’میرے صرف ایک انکل ہیں: کِم میکمورس۔‘

اس بات سے انھیں لگا جیسے ان کی دنیا ’رُک گئی ہو۔‘

سچائی کا سامنا

اپنا ڈی این اے رزلٹ دوبارہ دیکھنے پر ایو کو معلوم ہوا کہ کم میکمورس ہی ان کے بائیولاجیکل والد ہیں جنھوں نے ایو کے والدین سے پوچھے بغیر ڈونر کے بجائے اپنے سپرم کا استعمال کیا تھا۔

ایو کا کہنا ہے کہ ’یہ میرے لیے پریشانی کا باعث تھا کیونکہ سٹیو کے ساتھ میرا اچھا تعلق بن چکا تھا۔ یہ تعلق کبھی اس ڈاکٹر کے ساتھ نہیں بن سکے گا جس نے غلط کام کیا۔‘

انھیں ڈر تھا کہ انھیں سٹیو کے ساتھ روابط ختم کرنے پڑیں گے اور اس سے ان کی والدہ کو بھی دُکھ پہنچے گا۔

’انھیں بتانا مشکل کام تھا۔ میں نے اپنے کزن سے بات کی اور انھیں بتایا کہ میں کیا کرنے والی ہوں۔ پھر ماں کو بتایا سٹیو میرے والد نہیں بلکہ کم میکمورس میرے والد ہیں۔‘

ان کی والدہ کو یہ جان کر افسوس ہوا اور ان کے بیہوش ہونے پر انھیں ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال لے جانا پڑا۔ ان کی والدہ نے کہا ’ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ وہ اچھے آدمی ہیں۔‘

انھوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ’آپ اس بارے میں ملے جلے جذبات رکھ سکتی ہیں۔ میں آپ کی بیٹی ہوں یہ آپ کے لیے اچھی بات ہو سکتی ہے لیکن میرے پیدائش سے متعلق دھوکہ دہی آپ کو ناراض کر سکتی ہے۔‘

ایو کا کہنا ہے کہ اس ڈاکٹر نے ’میری والدہ کے ہاتھ سے فیصلہ چھین لیا اور بغیر اجازت خود کو ہماری زندگی کا مستقل پہلو بنا لیا۔‘

ڈاکٹر میکمورس نے معافی مانگی

ایو کو یہ جان پر افسوس ہوا کہ وہ ڈاکٹر کے خلاف کسی واضح قانون کے تحت مقدمہ نہیں کر سکتیں۔ انھوں نے میکمورس کو خط لکھا۔

ڈاکٹر میکمورس نے جواب دیا کہ ’آپ نے شاید میری جینیٹکس وراثت میں حاصل کی ہیں۔‘

’انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اب اس کا ریکارڈ نہیں۔ وہ اسے صرف سات سال تک اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔ کرائیو بینک کے بعض ڈونر ساتھ کام نہیں کر رہے تھے تو یہ تجویز دی گئی کہ مختلف نمونوں کو تحلیل کر لیا جائے۔‘

ایو کے مطابق ڈاکٹر نے بتایا کہ انھوں نے اس وقت 13 سے 14 سال پرانے اپنے نمونے استعمال کیے تھے۔ انھوں نے اپنے فیصلے کا دفاع کیا کہ ان کی ماں کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد پیدا ہو۔

اگر اپنا سپرم استعمال کرنا بُرا نہیں تھا تو انھوں نے اسے تسلیم کیوں نہیں کیا تھا؟ اس پر ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ’میرے سپرم کے استعمال سے مجھے زیادہ کامیابی ملی۔‘ ان کے مطابق اگر اس کا ذکر کیا گیا ہوتا تو شاید وہ اس طریقے سے بچہ پیدا کرنے سے انکار کر دیتیں۔

میڈیکل ریکارڈ کا حوالہ دے کر میکمورس نے بتایا کہ انھوں نے ایو کی ایک سوتیلے بہن کی پیدائش کے لیے تازہ نمونوں کا استعمال کیا تھا۔ وہ ان سے کچھ ماہ بڑی تھیں۔ ’ہمیں لگتا ہے کہ وہ اپنے دفتر سے نیا سیمن لاتے تھے اور اسے فوراً ماں میں داخل کرتے تھے۔‘

اب تک انھیں اپنے 13 سوتیلے بہن بھائیوں کا پتا چلا ہے۔ اس کے باوجود سٹیو اور وہ اچھے دوست ہیں۔

اپنی ان کوششوں کے ذریعے ایو کئی ریاستوں میں قانون میں اصلاحات لانے میں کامیاب رہیں۔ بی بی سی آؤٹ لُک کے ایک پروگرام میں شرکت کے بعد کئی لوگوں نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے ملتی جلتی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کا مقصد فرٹیلائزیشن کے شعبے میں احتساب لانا ہے۔ ’مجھے اپنے دُکھ میں ایک مقصد نظر آیا۔ خود کو بہتر محسوس کرانے اور فخر دلانے کے لیے یہ کرنا ضروری تھا۔‘

بی بی سی نے کِم میکمورس کے وکلا سے رابطہ کیا اور ان الزامات کے حوالے سے پوچھنا چاہا تاہم ان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More