دیرینہ کارکن اور الیکٹیبلز: کیا تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے والے تمام رہنماؤں کی وجوہات ایک جیسی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 29, 2023

Getty Images

’میں نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا/کرتی ہوں۔۔۔‘ پاکستان میں گذشتہ چند دنوں سے ٹی وی چینلز پر روزانہ کی بنیاد پر نشر ہونے والی درجنوں نیوز کانفرنسز کا آغاز عموماً ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی ان نیوز کانفرنسز کا اختتام ’عمران خان سے لاتعلقی‘ کے اظہار اور پھر تحریک انصاف یا سیاست ہی چھوڑ دینے کے اعلان پر ختم ہو جاتا ہے۔

’اداس چہروں‘ کے ساتھ کی جانے والی اس نوعیت کی پریس کانفرنسز کے بعد تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین ان اعلانات کو پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے مہینوں، اور چند کیسز میں برسوں، جیلوں کی سختیاں بھگتیں مگر پارٹی سے وفادار رہے جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف جس کا قیام ’غیرفطری‘ طور پر عمل میں لایا گیا تھا اس کے رہنما دو، تین دن ہی زیرحراست رہنے کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 9 مئی کے واقعات بظاہر تحریک انصاف کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ ثابت ہو رہے ہیں اور پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

اُن کے مطابق الیکٹیبلز، یا وہ سیاست دان جو تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سنہ 2018 کے الیکشن سے قبل اس جماعت میں شامل ہوئے تھے، کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکنوں جیسا کہ اسد عمر، شیریں مزاری، عامر کیانی، عمران اسماعیل، سیف اللہ نیازی یا علی زیدی جیسے رہنماؤں کا اپنی راہیں جدا کرنا پی ٹی آئی کے لیے ’ناقابلِ تلافی نقصان‘ کے اندیشے کو تقویت دینے کا باعث بن رہا ہے۔

پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ سے کئی سوالا ت جنم لے رہے ہیں مثلاً وہ کیا دباؤ ہے جس کی سختی چند دِن کے اندر اندر بعض دیرینہ رہنماؤں کے حوصلوں کو شکست سے دوچار کر رہی ہے؟ سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ پنجاب کے سیاسی رہنما پارٹی سے وفاداری تبدیل کرنے والوں کی اگلی صف میں ہمیشہ کی طرح کیوں موجود ہیں؟ جبکہ اہم سوال تو یہ بھی ہے کہ الیکٹیبلز اور ’پارٹی کا چہرہ‘ سمجھے جانے والے رہنماایک رفتار اور انداز سے پارٹی سے قطع تعلقی کیوں کر رہے ہیں اور کیا ان کی وجوہات ایک جیسی ہیں یا مختلف؟

اس سوالات کے جواب جاننے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ اب تک تحریک انصاف کے کتنے رہنما پارٹی سے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کے کتنے رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں؟Getty Images

27 مئی یعنی سنیچر کی شام تک میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کو چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد لگ بھگ 87 ہو چکی تھی۔ اس میں سابق گورنر سندھ سے لے کر، وفاقی وزرا، ایم این ایز ، صوبائی وزرا، ممبران صوبائی اسمبلی اور دیگر پارٹی عہدیداران شامل ہیں۔

وفاقی دارالحکومت: اسلام آباد

سنہ 2018 کے عام انتخابات میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تین قومی اسمبلی کی نشستوں پر پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے جن میں سے دو رہنما پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں یا پارٹی عہدوں سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں۔

اسلام آباد سے ایم این اے منتخب ہونے والے راجہ خرم نواز نے تحریک انصاف کو چھوڑنے کا اعلان کیا جبکہ وفاقی دارالحکومت ہی سے منتخب ہونے والے اسد عمر نے پارٹی کے تمام عہدوں سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کیا۔

اسد عمر 2012 سے پی ٹی آئی میں تھے اور انھوں نے عملی سیاست کا آغاز پی ٹی آئی سے ہی کیا تھا۔ اسد عمر تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اور رُکن کور کمیٹی تھے۔ اسد عمم سنہ 2013 کے ضمنی الیکشن میں پہلی بار اسلام آباد کے حلقہ این اے 48 سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔

اسلام آباد ہی سے پی ٹی آئی کی اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا پارٹی سے راہیں جدا کرنا بہت سے لوگوں کے لیے باعث تعجب تھا کیونکہ ان کا شمار پارٹی کی صفِ اول کی قیادت میں کیا جاتا تھا۔ شیریں مزاری 2008 سے پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ تھیں اور وہ دو بار پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص سیٹ پر ایم این اے رہ چکی تھی۔

پنجاب

پنجاب سے پارٹی سے اپنی راہیں جُدا کر جانے والے سابق وفاقی وزرا، ایم این ایز، صوبائی وزرا اور پارٹی عہدے داران کی تعداد 56 ہو چکی ہے۔

اگر پنجاب کے سابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی بات کی جائے تو اِن میں فواد چودھری کو پارٹی میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ فواد پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی وزیر اور پارٹی کے سینیئر نائب صدر بھی رہے ہیں۔ انھوں نے 2016 میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس سے پہلے یہ پرویز مشرف کی اے پی ایم ایل سمیت مختلف پارٹیوں کا حصہ رہے ہیں۔

اسی طرح عمران خان کے ’دیرینہ ساتھی‘ عامر محمود کیانی بھی پی ٹی آئی ٹکٹ پر ایم این اے رہ چکے ہیں۔ پنجاب ہی سے تعلق رکھنے والے ملک امین اسلم سابق وفاقی وزیر نے پارٹی کوچھوڑنے میں ذرا تامل بھی نہ کیا۔ امین اسلم سنہ 2011 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔

اسی طرح سنہ 2018 میں انتخابات سے کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار نے بھی پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔

پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر ایم این اے منتخب ہونے والی ملیکہ بخاری سمیت جمشید اقبال چیمہ، اُن کی اہلیہ مسرت جمشید چیمہ، ابرارالحق، سینیٹر سیف اللہ نیازی، فردوس عاشق اعوان، سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان، فیض اللہ کموکا، سابق ایم این اے خواجہ قطب فرید کوریجہ، سابق ایم این اے خرم شہزادسمیت پنجاب کے متعدد اہم رہنماؤں نے پارٹی سے الگ ہونے کا باضابطہ اعلان کر چکے ہیں۔

خیبرپختونخوا

صوبہ خیبرپختونخوا میں پارٹی کی شکست و ریخت کا عمل تھوڑا سست نظر آتا ہے۔ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے دس سیاست دان اب تک تحریک انصاف سے الگ ہو چکے ہیں۔

خیبر پختونخوا سےسابق ایم این اے ملک جواد حسین، سابق ایم این اے عثمان خان ترکئی اور سابق صوبائی وزیر ہاشم انعام اللہ سابق صوبائی وزیر ، اقبال وزیر، اجمل وزیر ، ڈاکٹر حیدر علی سمیت دیگر رہنما پارٹی سے راہیں جُدا کرچکے ہیں۔

سندھ

سندھ سے سابق گورنرعمران اسماعیل سمیت تحریک انصاف یا سیاست چھوڑنے والوں کی تعداد 17 ہو چکی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سندھ کی بات کی جائے تو سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کا پارٹی کو چھوڑنا بڑا دھچکا قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے تھے۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر علی زیدی کا شمار بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے دیرینہ کارکنوں میں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ سندھ سے جے پرکاش، صائمہ ندیم، آفتاب صدیقی، محمود باقی مولوی وغیرہ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

بلوچستان

بلوچستان سے بھی تحریک انصاف کے دو سابق رہنماؤں نے پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا ہے جن میں سینیٹر عبدالقادر اور سابق صوبائی وزیر مبین خلجی شامل ہیں۔

ان رہنماؤں کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبوں سے چند ایسے رہنماؤں نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے جو ضلعی سطح کے عہدیدارن تھے۔

2018 کے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے الیکٹیبلز

تحریک انصاف کا پنجاب سے پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے حوالے سے دعویٰ ہے کہ ان میں اکثریت ان افراد کی ہے جو سنہ 2018 کے الیکشن سے قبل تحریک انصاف میں صرف اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے شامل ہوئے تھے اور یہ کہ یہ پنجاب کے وہی الیکٹیبلز ہیں جو ہر الیکشن سے قبل اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔

سنہ 2018 کے الیکشن سے قبل تحریک انصاف نے تنقید کے باوجود جیت کے لیے الیکٹیبلز پر انحصار کیا تھا۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی 64 نشستیں ملی تھیں جن میں سے 47 ایم این اے وہ تھے جنھوں نے تحریک انصاف کو 2018 کے عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے ہوئے جوائن کیا تھا جبکہ 17 ایم این ایز ایسے تھے جو یا تو تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن تھے یا وہ افراد جو سنہ 2013 کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہی انتخابات لڑے تھے۔ چند ایسے رہنما بھی تھے جنھوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔

سنہ 2018 کے الیکشن سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم سے کئی رہنماؤں نے پی ٹی آئی کو جوائن کیا۔ ان میں اکثریت ان سیاست دانوں کی تھی جنھوں نے 9 اپریل 2018 ن لیگ سے مستعفی ہو کر’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘ کے نام پر الگ دھڑا بنایا۔

ابتدائی طور پر ان میں خسرو بختیار، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری شامل تھے جبکہ صوبائی سطح پر نصراللہ دریشک (جنھوں نے بعد ازاں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا) اور سمیرا خان شامل تھیں۔ یہ دھڑا سابق نگران وزیرِ اعظم بلخ شیر مزاری کی زیرِ قیادت بنایا گیا تھا۔

جن لوگوں نے آزاد حیثیت میں سیٹ جیت کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، اُن میں صالح محمد خان (حلقہ این اے 13،مانسہرہ) محمد ثنا اللہ خان مستی خیل (حلقہ این اے 97، بھکر) سید فخر امام (حلقہ این اے 150، خانیوال) محمد عاصم نذیر (حلقہ این اے 101، فیصل آباد) محمد شبیر علی (حلقہ این اے 181، مظفرگڑھ) محمد امجد فاروق خان کھوسہ (حلقہ این اے 190، ڈی جی خان)شامل تھے۔

پی ٹی آئی کے بعض ایم این ایز ایسے بھی تھے ،جو ختم نبوت کے مسئلے پر اپنی اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے جن میں رضا نصراللہ گھمن (حلقہ این اے 105،فیصل آباد) نے دسمبر 2017 میں مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

غلام بی بی بھروانہ (حلقہ این اے 115جھنگ) نے 18 مئی 2018 کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ طاہر اقبال چودھری (حلقہ این اے 164، وہاڑی) نے 27 نومبر 2017 کو ن لیگ سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔ مئی 2018 میں یہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔

کیا تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں اور الیکٹیبلز پر دباؤ ایک جیسا ہے؟

نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جانے والے رہنما دو طرح کے ہیں ایک وہ جو عمران خان کے دیرینہ اور قابلِ بھروسہ ساتھی سمجھے جاتے تھے اور وہ جو ہر الیکشن میں وفاداریاں تبدیل کرنے والے رہنما ہیں۔

مگر کیا ان سب پر پارٹی چھوڑنے کے لیے ایک سا دباؤ ہے؟ اس سوال پر سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’پارٹی چھوڑنے کا دباؤ تو سب پر ہے، مگر اس سلسلے میں بیک گراؤنڈ دیکھنا از حد ضروری ہے۔‘

ان کے مطابق ’پارٹی (سے مخلص رہنے والے رہنما) چھوڑ جانے والوں کا کسی نہ کسی طرح فوجی بیک گراؤنڈ ہے۔ جیسا کہ اسد عمر کے والد جنرل تھے، فواد چوہدری کا تعلق ضلع جہلم سے اور فوج کے حوالے سے یہ علاقہ ایک مخصوص انفرادیت کا حامل ہے۔ علی زیدی کیسے تحریک انصاف میں آئے؟ یہ لوگ سب اسی بیک گراؤنڈ سے ہیں۔ اِن کا مسئلہ نظریاتی بھی ہے اور مفاداتی بھی۔ یہ وہ افراد ہیں کہ جنھیں شاید فوج سے لڑائی کا دُکھ بھی ہوا۔‘

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’دیرینہ کارکنان کا مسئلہ نظریاتی بھی ہے۔ یہ فوج سے لڑنا نہیں چاہتے۔ یہ سیاست کرنا اور اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں جبکہ اِن دیرینہ کارکنان کو بھی فوج کے سامنے لاکھڑا کیا گیا۔‘

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سید جعفر احمد ان رہنماؤں پر دباؤ اور کیفیت کو بہت وضاحت اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں۔

اُن کے مطابق ’پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے تین طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو ہوا کا رُخ دیکھتے ہیں، اِن لوگوں نے 2018 کے الیکشن میں ہوا کا رُخ دیکھ کر ن لیگ کے ٹکٹ تک واپس کر دیے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ 2018 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کے ساتھ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ تھی۔ ‘

ان کے مطابق ’جو پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکنان ہیں اور پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں وہ بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں، جو عمران خان کے رویے سے نالاں تھے یعنی عمران خان سینیئر رہنماؤں کو سنے بغیر جو حکم دیتے تھے، پارٹی میں وہی کچھ ہوتا تھا جس پر اِن لوگوں کے تحفظات تھے۔ ایسے لوگ اب پارٹی چھوڑتے وقت جو بیان دے رہے ہیں، اُس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اِن پر نہ تو تشدد ہوا اور نہ ہی پارٹی چھوڑنے کے لیے کچھ زیادہ دباؤ ڈالا گیا اور بظاہر اِنھوں نے عمران خان کے رویے سے تنگ آ کراس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پارٹی کو چھوڑ دیا۔‘

’دوسرے وہ لوگ ہیں، جو نو مئی کے واقعات پر دُکھی ہوئے ہیں، جس کی مثال ابرار الحق کی دی جاسکتی ہے۔ یہ لوگ نوجوان نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ اُس خواب کے اسیر تھے، جو عمران نے نوجوان نسل کو دکھایا تھا، مگر اِن کو معلوم نہیں تھا کہ راستے میں ایک نام نہاد انقلاب بھی آن پڑے گا۔‘

سید جعفر احمد شیریں مزاری اور فردوس عاشق اعوان کے پارٹی چھوڑنے کے عمل کو بھی مختلف تصور کرتے ہیں۔اُن کے مطابق ’شیریں مزاری نے مشکلات کا سامنا کیا اور دباؤ اُن پر بڑھتا رہا، جبکہ فردوس عاشق اعوان پر شاید کوئی خاص دباؤ نہیں تھا۔‘

ڈاکٹر سید جعفر احمد کے خیال کے مطابق ’اسدعمر پڑھے لکھے سیاست دان ہیں۔ اُس کو خبر ہے کہ جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ درست نہیں۔‘

سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی پارٹی سے الگ ہونے اور دباؤ کے کئی فیکٹرز بتاتے ہیں۔

اُن کے مطابق ’زیادہ تر لوگ وہ ہیں جن کو سنہ 2017 اور سنہ 2018 میں چڑھتے سورج کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ اس میں شامل ہو گئے تھے۔ پھر حالیہ صوبائی اسمبلی کے جن کو ٹکٹ نہیں ملے، وہ لوگ بھی چھوڑنے والوں میں شامل ہیں۔‘

حسن عسکری رضوی کے مطابق دیرینہ کارکنان پر ایک دباؤ اس بات کا بھی تھا کہ ’نو مئی کا تشدد جو غیر معمولی نوعیت کا تھا، اسے کیوں قبول کریں، دیرینہ کارکنان اس کا الزام اپنے اوپر نہیں لینا چاہتے تھے۔ اگر وہ اس دباؤ کو برداشت کر جاتے تو شاید یہ ہمیشہ کی بدنامی کا باعث بھی بن جاتا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More