کیا دالوں کو پِیس کر بنایا گیا آٹا ہمارے لیے بہتر غذا ہے؟

بی بی سی اردو  |  May 29, 2023

Getty Images

مغرب میں ہماری سب سے زیادہ غیر صحت مند کھانے کی عادات میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری خوراک میں فائبر کی مقدار کافی زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ فائبر سے بھرپورغذا کے بہت سارے فائدے ہوتے ہیں، جن میں دل کی بیماری اور جلد موت کے خطروں کا کم ہونا ہے۔

آپ کو فکر ہو سکتی ہے کہ پھل، سبزیاں، دالیں اور سارا اناج سمیت پوری غذا کے ذریعے فائبر کی مقدار بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی پسندیدہ غذاؤں میں سے کچھ کو چھوڑ دیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں مینوفیکچرروں نے ہمارے لیے روایتی طور پر کم فائبر والی غذاؤں کے لیے اعلیٰ فائبر متبادل متعارف کروائے ہیں، جن میں پاستا سمیت، کرسپس، ناشتے کے سیریلز اور سیریل بارز شامل ہیں۔ لیکن کیا یہ متبادل قدرتی طور پر حاصل فائبر سے بہتر ہیں؟

یہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو دالوں اور چنوں سمیت زیادہ پھلیاں کھانے چاہئیں، کیونکہ عموماً فائبر ہماری غذا میں کافی نہیں ہوتا ہے۔ دالیں ٹائپ 2 ذیابیطس اور دل کی بیماریوں سمیت بعض بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم انھیں دیگر کھانوں کے مقابلے میں زیادہ آہستہ سے ہضم کرتے ہیں، جس سے ہمارے خون میں گلوکوز کی سطح زیادہ مستقل رہتی ہے۔

کنگز کالج لندن میں کاربوہائیڈریٹ بائیو کیمسٹری کے پروفیسر پیٹر ایلس کا کہنا ہے کہ ’جب آپ آلو کھاتے ہیں تو آپ کے خون میں شکر میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے، لیکن پھلیوں کا گلائیسیمک انڈیکس اور انسولینمک ردعمل بہت کم ہوتا ہے۔‘

دالیں بھی غذائی اجزا سے بھر پور ہوتی ہیں، مگر ان میں چربی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ حالانکہ ان میں وہ غذائیت نہیں ہے جسے محققین ’مکمل پروٹین پروفائل‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پروٹین کی مقدار گوشت یا انڈوں کے مقابلے میں کم ہے کیونکہ ان میں ہمارے جسم کو درکار تمام امینو ایسڈ نہیں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ماہرین دالوں کو گندم کے ساتھ جوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں، جیسے کہ پاستا وغیرہ۔

ایک اور طریقہ جس سے مینوفیکچررز پاستا میں فائبرکی مقدار بڑھا رہے ہیں، یعنی گندم کا آٹا، اس کی جگہ اب فائبر سے بھرپور دال، چنے اور پھلیاں متبادل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

سنہ 2020میں آئرلینڈ میں ٹرنیٹی کالج ڈبلن کی ایک محقق، سوفی سیجٹ نے تجزیہ کیا اور پاستا کے غذائی مواد کا جزوی طور پر چنے کے آٹے سے تیار کردہ روایتی پاستا سے گندم کے آٹے کا موازنہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ چنے کے پاستا میں 1.5 گنا زیادہ پروٹین، 3.2 گنا زیادہ فائبر اور آٹھ گنا زیادہ ضروری فیٹی ایسڈ ہوتے ہیں۔

سیجٹ کا کہنا ہے کہ چنے کے آٹے سے بنایا ہوا پاستا کھانے سے دالیں کھانا بہت آسان ہو جاتا ہے، جسے وہ ’گمنام ہیرو‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ غذا کنٹرول کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے کہ ہم کتنا کھانا کھاتے ہیں۔

پھلیاں فائبر کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں، اور اگر آپ بہت زیادہ فائبر کھاتے ہیں تو آپ کو تیزی سے پیٹ بھرنے کا احساس ہوگا، لہذا آپ کا اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا کھانے کا دل ہی نہیں چاہے گا۔‘

لیکن جب کہ سیجٹ کی تحقیق کی بنیاد پر دال پر مبنی پاستا روایتی ’ڈورم‘ گندم کے پاستا کا ایک مضبوط مدمقابل نظر آتا ہے، لیکن یہ دیگر دالوں کے آٹے کا بھی اسی کی طرح ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ دالوں سے پاستا بنانے کے لیے درکار پروسیسنگ ہے۔

پروسیسنگ ہمیشہ بری چیز نہیں ہوتی۔ ایلس کا کہنا ہے کہ خشک حالت میں، دالوں میں موجود غذائی اجزا بہت زیادہ نہیں ہوتے لیکن دالوں کو پیس کر آٹا بنانے سے ان کی غذائی ساخت بدل جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ آپ پوری دال کھا رہے ہوں، تب بھی پروٹین اور غذائی اجزاء پر مشتمل خلیات کھانا پکانے کے عمل کے دوران الگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن پسی دال سے بنا پاستا اس عمل کو ایک قدم آگے لے جاتا ہے‘ کیونکہ دالوں سے آٹا بنانے کے عمل میں خشک دانوں کو پیسا جاتا ہے جو تمام غذائی خلیات کو توڑ دیتا ہے۔

Getty Imagesپھلیوں سے تیار کیا گیا آٹا اب گندم کے آٹا کے متبادل کے طور پر ابھر رہا ہے جس سے غذا میس فائبر کی مقدار بڑھ رہی ہے۔

ایلِس نے کہا کہ لیکن ابھی تک تحقیق کا فقدان ہے کہ یہ کس طرح ان کے غذائیت کے مواد کو بالکل تبدیل کرتا ہے۔ ایلس نے مزید کہا کہ دال پر مبنی پاستے کی صحیح غذائیت کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ دالوں کو کیسے پروسیس کیا جاتا ہے، جو کہ ہر مینوفیکچرر کے لیے مختلف ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ بہت پیچیدہ عمل کے بارے میں کام کر رہے ہیں جس میں مختلف اجزاء کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اپنی خوراک میں سبزیوں یا ہرے پتوں کے کھانے کی مقدار کو بڑھانا ایک اچھی بات ہے، لیکن یہ سوال اٹھانا درست ہے کہ کیا دالوں پر مبنی پاستا کے طویل مدتی فائدہ مند اثرات ہوتے ہیں۔‘

ذائقہ اصل معیار ہے

کھانے کی کسی بھی دوسری مصنوعات کی طرح، خاص طور پر وہ جو ہمارے پسندیدہ کھانوں کی نقل کرتے ہیں، ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ذائقہ اور ساخت کے ساتھ لوگوں میں مقبول ہونا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں نیوٹریشن اینڈ فوڈ سائنس کے پروفیسر گنٹر کوہنلے کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی چیز کا ذائقہ بہت صحت بخش ہو تو لوگ اسے کھانا پسند نہیں کرتے۔ جب تک لوگ اسے پسند نہیں کرتے اور اسے متبادل کے طور پر قبول نہیں کرتے تب تک وہ کامیاب نہیں ہوتا۔‘

اور اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے وہ دلیل دیتے ہیں کہ دالوں کے آٹے سے بنا ہوا پاستا ’شاید صارفین کے مخصوص طبقے کی مصنوعات رہیں گی۔‘

ذائقہ بہت سے بیرونی عوامل سے متاثر ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ جان کر کہ آپ پاستا کھا رہے ہیں جو روایتی طور پر گندم کے آٹے سے بنا نہیں ہے یہ بات آپ کی زبان کے مزے کو خراب کر سکتی ہے۔دال کا آٹا تیار اور فروخت کرنے والی کمپنی ’ہوڈمیڈوڈز‘کے مینیجنگ ڈائریکٹر نک سالٹ مارش کہتے ہیں کہ روایتی اطالوی پاستا دال کے آٹے کو شامل کرنے کی تاریخ رکھتا ہے۔

جب ’ہوڈمیڈوڈز‘ کے پاستا بنانے والے، جیووانی کالیشی‘ کو پہلی بار دالوں سے بنے ہوئے آٹے کا پاستا بنانے کا کام سونپا گیا، تو وہ اس شک میں پڑ گئے تھے کہ کیا وہ کامیاب ہو سکے گے۔

سالٹ مارش نے کہا کہ ’لیکن ایک بار جب اسے معلوم ہوا کہ پھلیوں کا آٹا استعمال کرنے والا سچا اطالوی پاستا ہے، تو وہ اسے استعمال کرنے کے لیے آمادہ ہوا۔‘

Getty Imagesتحقیقات کے مطابق، وہ مصنوعات جن میں پہلے صرف گندم کا آٹا استعمال ہوتا تھا ان میں دالوں کے آٹے کو شامل کرنے سے جسم میں شوگر کی ایک دم سے مقدار کے اضافے کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان میں مہنگائی کے دور میں گوشت نہیں خرید سکتے تو پروٹین کیسے حاصل کریں؟

کیا پاستا کھانے سے وزن بڑھتا ہے یا پھر اس خوراک کے کچھ فوائد بھی ہیں

صرف سبزی کھانے سے فالج کے امکانات بڑھ سکتے ہیں

ان باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ 50 فیصد گندم کے آٹے اور 50 فیصد پھلیوں کے آٹے کو ملا کر استعمال کرنے سے، روایتی گندم کے آٹے کے مقابلے میں پاستا کا مختلف ذائقہ ہوتا۔ سالٹ مارش اسے ’مخصوص‘ کہتے ہیں اور ایسی پروڈکٹ کا مخصوص ذائقہ رکھنا اور اس کا مقبول بھی ہونا کوئی آسان بات نہیں ہے۔

سالٹ مارش کا کہنا ہے کہ ’جب پروڈکٹ قدرے مختلف ہو تو اس کا ذائقہ کیسا ہونا چاہیے اس بارے میں پیشگی تصورات پر قابو پانا ایک چیلنج ہے۔‘

لیکن اصل میں یہ مصنوعات مختلف نہیں ہیں. صرف اطالوی ہی نہیں ہیں جنھوں نے پاستا بنانے کے لیے دالوں پر مبنی آٹا استعمال کیا ہے، اس کا استعمال اس وقت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔

کھانوں کی تاریخ دان ربیکا ایرل کا کہنا ہے کہ اگرچہ دالوں سے بنے ہوئے آٹے کا پاستا صحت کے لیے ایک نئے رجحان کی طرح لگتا ہے، لیکن ہم درحقیقت سیکڑوں سالوں سے دال کے آٹے کے صحت کے فوائد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ صدیوں سے شاہ بلوط کے پھل اور چاول کے آٹے سے کھانا بنا رہے ہیں۔ اور حال ہی میں یعنی 18ویں صدی کے آس پاس سے فرانس میں لوگ روایتی آٹے کے صحت مند متبادل کے طور پر دال اور ہیریکوٹ پھلیوں سمیت مختلف اجزاء سے بنے آٹے کی مشہوری کرتے تھے، جو کہ گندم کے آٹے سے زیادہ صحتمند ہوتا تھا، جیسا کہ اب بھی ہے۔‘

سفید گندم کے آٹے کا اب سب سے عام آٹا ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کی بدولت یہ وقت کے ساتھ بہت سستا ہو گیا ہے۔ اس کی مقبولیت جزوی طور پر اعلیٰ طبقوں کے ساتھ اس کی تاریخی وابستگی کا ہونا ہے۔

ایرل کا کہنا ہے کہ ’گندم کی زیادہ پیداوار نہیں ہوتی، اس لیے یہ قرون وسطیٰ میں مہنگی تھی۔ اور یہ جلدی روٹی بناتی ہے، اس لیے اس کی کوالٹی اعلیٰ درجے کی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جیسے جیسے یہ سستی ہوتی گئی، اس کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔‘

سفید گندم کے آٹے کو بھی زیادہ غذائیت سے بھرپور سمجھا جاتا تھا، کیونکہ یہ ہمارے نظام ہاضمہ کے لیے بہتر سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ زیادہ فائبر والے متبادل آٹے، عام طور پر ہمارے لیے زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔

Getty Imagesصاف اور سفید آٹے سے بنی روٹیوں یا ڈبل روٹیوں کو زیادہ غذائیت والی خوراک سمجھا جاتا تھا، بعد میں پتہ چلا کہ مکمل گیہوں کو پیش کر بنایا جانے والا آٹا بہتر ہوتا ہے۔

اگرچہ دال کے آٹے کو دیگر اجزاء کے آٹوں کے ساتھ ملا کر پاستا بنانے سے اس کے شائقین شک میں مبتلا ہوسکتے ہیں، لیکن اسے مبقولِ عام کیسے کیا جا سکتا ہے، اس سوال کے جوابات جلد ہی تین سالہ منصوبے ’ریزنگ دی پلس پروجیکٹ‘ سے سامنے آسکتے ہیں جس میں فاوا پھلیوں کے آٹے سے بنی روٹی شامل ہے۔

یونیورسٹی آف ریڈنگ میں ہیومن نیوٹریشن کی پروفیسر جولی لیوگروو نے گندم کے آٹے کے 25 فیصد کو پھلیوں کےآٹے سے بدل دیا ہے، کیونکہ اس میں روایتی سفید روٹی کے مقابلے میں پروٹین، آئرن، زنک اور فائبر کی مقدار زیادہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں تصور کرتی ہوں کہ پاستا کے لیے گندم کو تبدیل کرنے سے غذائیت کی مقدار زیادہ ہوگی اور معدے اور آنت سے متعلق مسائل کم ہوں گے۔‘

’ریزنگ دی پلس پروجیکٹ‘ میں چوڑی پھلیاں اگانا اور خاص طور پر آئرن سے بھرپور اور غذائیت سے بھرپور ان کو چننا، خشک کرنا، ان کو پیسنا اور پھر نانبائیوں کے ساتھ مل کر حتمی پروڈکٹ تیار کرنا شامل ہے، جس کا یونیورسٹی کیمپس میں تجربہ کیا جائے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ روٹی تجارتی مقاصد کے مطابق سفید ہو تاکہ لوگ اپنی کھانے کی عادات کو بدلے بغیر اسے کھا سکیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’سائنسدان زیادہ مقدار میں دالوں کے ساتھ خوراک تیار کر سکتے ہیں، لیکن اگر لوگ ذائقہ پسند نہیں کریں گے تو یہ محض ایک علمی مشق ہے۔ دال سے بھرپور روٹی کا ہماری روزمرہ خوراک کا حصہ بننا حیرت انگیز ہوگا، لیکن ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ لوگوں کو قابل قبول اور ان تک اس کی باآسانی رسائی ہو۔ ‘

اپنی غذا میں دالوں سے بنے ہوئے آٹے کے پاستا شامل کرنے پر صحت کے فوائد کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح کھا رہے ہیں۔ سیجٹ کا کہنا ہے کہ جب پروسیس شدہ پودوں پر مبنی کھانے کی بات آتی ہے تو دال پر مبنی پاستا نسبتاً اچھا انتخاب ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پھلیوں کے آٹے سے بنے ہوئے برگر کے مقابلے میں، پھلیوں کے آٹے کا پاستا نسبتاً کم پروسیس کیا جاتا ہے۔‘

دالوں کے آٹے سے تیار ہونے والے پاستا کے بارے میں تحقیق کی کمی کے باوجود، دالوں کے صحت سے متعلق فوائد کے حوالے سے کافی شواہد بتاتے ہیں کہ دالوں کو یا اس جیسی مکمل غذاؤں کو دالوں کے بنے ہوئے آٹے کے پاستا کی جگہ استعمال کرنے سے اتنا فائدہ نہیں ہو گا جتنا کہ گندم کے آٹے کے بنے ہوئے پاستا کے متبادل کے طور پر دالوں کے آٹے سے بنے ہوئے پاستا سے ہوگا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More