پیمبرانہ حکمت کے شاعر سعدی شیرازی جو سومنات مندر کے کرشمے کا راز جاننے کے لیے برہمن بھی بنے

بی بی سی اردو  |  May 31, 2023

دنیا بھر میں ایک زمانے سے کسی کی علمی صلاحیت اور لیاقت کا اظہار اس کی ڈگریاں یا اسناد رہی ہیں لیکن آج سے کوئی سو سال قبل اسی برصغیر میں کسی کی تعلیمی قابلیت اس بات سے جانچی جاتی تھی کہ کیا اس نے ’گلستان‘ اور ’بوستان‘ پڑھ رکھی ہیں۔

یہ دو کتابیں کسی سند سے کم نہیں تھیں اور بہت سی اہم شخصیات کی سوانح میں اس کا فخریہ ذکر بھی ملتا ہے کہ انھوں نے سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے گلستان اور بوستان پڑھ لی تھی، یا کہیں کہیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ انھیں یہ کتابیں ازبر تھیں۔

یہ دونوں کتابیں لگ بھگ 750 سال قبل 13ویں صدی میں ابو محمد مصلح الدین بن عبداللہ شیرازی (سعدی شیرازی) نے تصنیف کی تھیں، جن کا سکہ آج تک قائم ہے۔

گلستان کی ایک نظم ’بنى آدم اعضای یکدیگرند‘ (یعنی انسان ایک دوسرے کے اعضا ہیں) کا فقرہ نہ صرف ایران کے سکّے پر کندہ اور رقم ہے بلکہ سنہ 2005 میں نیو یارک میں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر کو ایران کی جانب سے ایک قالین پیش کیا گیا جس پر یہ پوری نظم تحریر ہے۔

اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے سابق صدر بان کی مون نے کہا تھا کہ 'اقوام متحدہ کے داخلی دروازے پر ایک شاندار قالین آویزاں ہے، جو اقوام متحدہ کی دیوار کو مزین کرتا ہے۔ یہ اہل ایران کی طرف سے ایک تحفہ ہے جس پر فارسی کے عظیم شاعر سعدی کے لاجواب الفاظ رقم ہیں۔‘

کلکتہ یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر محمد شکیل کا کہنا ہے کہ سات سو سال بعد بھی اگر کوئی شاعر اتنا اہم اور ہم عصر ہو تو اسے ’ترجمانِ اسرار‘، ’بلبلِ شیراز‘ اور ’پیغمبرِ سخن‘ کیوں نہ کہا جائے۔

ابتدائی زندگی

محمد شکیل کا کہنا ہے کہ ’سعدی‘ کا مطلب خوش نصیبی و خوش بختی ہے اور آج تک ان کی شہرت اس بات کا مظہر ہے کہ وہ اسم بامسمیٰ ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ شیخ سعدی کی زندگی کے بارے زیادہ معلومات نہیں ہیں البتہ انھوں اپنی تصانیف میں اپنے بارے میں جو کہا ہے اس کی وجہ سے ان کی حیات کا اچھا خاکہ تیار ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ میں خاطر خواہ ہے۔

فارسی تاریخ کی کتاب ’صنادید عجم‘ میں ان کی ولادت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ شیراز میں 1200 عیسوی کی پہلی دہائی میں پیدا ہوئے اور تقریبا 100 سال زندہ رہے۔ لیکن دوسرے مؤرخوں نے ان کی عمر 81-82 سال بتائی ہے اور لکھا ہے کہ وہ سنہ 1210 کے آس پاس پیدا ہوئے اور 1291-92 میں ان کی وفات ہوئی۔

بہر حال اُردو کے معروف شاعر اور مؤرخ الطاف حسین حالی نے اپنی تصنیف ’حیات سعدی‘ میں لکھا ہے کہ ان کی تربیت ان کے والد نے کی اور وہ علم سے زیادہ زہد کی جانب متوجہ تھے اس لیے سعدی پر بھی ابتدا میں زہد کا غلبہ تھا لیکن والد کی وفات کے بعد جب وہ اس زمانے کے سب سے مقبول تعلیمی ادارے مدرسہ نظامیہ میں تعلیم حاصل کرنے گئے تو ان میں علمی سرگرمی پیدا ہوئی۔

الطاف حسین حالی نے شیخ سعدی کا قول نقل کیا ہے کہ مدرسے میں ان کے ہم جماعت ان سے حسد کرتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں: ’طالبعلمی کے زمانے میں اس کے ہم عمر اور ہمسر لوگ اس کی خوش بیانی اور حسن تقریر سے رشک کرتے تھے۔ چانچہ ایک بار اس نے استاد سے شکایت کی کہ فلاں طالب علم مجھ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جب میں آپس میں بیٹھ کر مسائل علمیہ بیان کرتا ہون تو حسد سے جل جاتا ہے۔ استاد یہ سن کر شیخ پر غصہ ہوا اور یہ کہا کہ اوروں کے رشک و حسد کی تو شکایت کرتے ہو اور اپنی بدگوئی اور غیبت کو برا نہیں سمجھتے۔ تم دونوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔ وہ رشک و حسد سے اور تم بدگوئی اور غیبت سے۔‘

Getty Imagesامریکی فلسفی اور شاعر راف والڈو ایمرسن نے سعدی کو امید کا شاعر کہا ہےطالبعلمی میں سماع سے توبہ

حالی لکھتے ہیں کہ شیخ کا بچپن سے فقر اور درویشی کی طرف میلان تھا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ مستقل وجد و سماع کی محفل میں شریک ہوتے اور ان کے استاد ابن جوزی انھیں ہمیشہ سماع سے منع کرتے لیکن ان کو سماع کا ایسا چسکہ تھا کہ اس معاملے میں کسی کی نصیحت اثر نہیں کرتی تھی۔

وہ مزید بتاتے ہیں ایک دن کسی مجلس میں انھیں ایک بد آواز قوال سے پالا پڑا اور بضرورت ساری رات اس مکروہ صحبت میں بسر ہوئی۔ مجلس کے ختم ہونے سعدی نے سر سے دستار اتاری اور جیب سے ایک دینار نکالا اور یہ دونوں چیزیں قوال کے نذر کیں۔

اصحاب مجلس کو اس حرکت سے تعجب ہوا تو شیخ نے یاروں سے کہا کہ میں نے آج اس شخص کی کرامت کا مشاہدہ کیا۔ میرے استاد ہمیشہ مجھے سماع سے منع کرتے تھے لیکن میں نے ان کے حکم تعمیل نہیں کی اور برابر سماع میں شریک ہوتا رہا۔ آج خوش قسمتی سے اس مبارک مجلس میں آنا ہوا اور اس بزرگ وار قوال کے تصرف سے میں نے ہمیشہ کے لیے سماع سے توبہ کی۔

شیخ سعدی نے اپنی تصنیف گلستاں میں حضرت لقمان کے حوالے سے کہا کہ لوگوں نے لقمان سے پوچھا کہ ’ادب کس سے سیکھا؟‘ تو انھوں نے کہا کہ ’بے ادبوں سے‘ ان کی جو چیز میری نظر میں پسند نہیں آئی اس سے میں نے پرہیز کیا۔‘

سعدی کا یہ جملہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس طرح کے بہت سارے ضرب المثال ان کی تصانیف میں موجود ہیں۔

والڈو ایمرسن نے کہا کہ سعدی کے زمانے میں کتابوں کی اشاعت کا بہت انتظام نہ تھا وہاں لوگ آخری حکمت کی باتیں کیسے سنبھالتے۔ انھون نے لکھا ہے کہ ’ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی لائبریری نہ ہو اور کوئی چھاپہ خانہ نہ ہو تو لوگ حکمت کی باتیں جملوں میں بیان کرتے تھے۔‘

حکمت اور امید کا شاعر

اور سعدی کے ہاں اس طرح کی حکمت کی باتیں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔

ایمرسن لکھتے ہیں کہ ان کے تحریر یکساں قوت ہے اور واضح طور پر خوش مزاجی کا لہجہ غالب جس نے ان کے نام کو تقریباً ان کے فضل و کمال کا مترادف بنا دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سعدی قاری میں بہتر کی امید پیدا کرتے ہیں ہے۔ وہ ان کا انگریزی کے معروف شاعر لارڈ بائرن سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’بائرن کے خشک لہجے اور سعدی کی مہربان حکمت میں کتنا فرق ہے!‘

ایمرسن ان کی زندگی کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’وہ کبھی طالب علم ہے تو کبھی سقہ گیری (پانی ڈھونے کا کام) کیا، کبھی مسافر رہے تو کبھی صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کے خلاف لڑنے والے سپاہی، ایک قیدی کے طور پر طرابلس کے گردخندق کھودنے کا کام کیا اور پھر اپنی معمر عمر میں جب وطن واپسی کی تو ایک معزز شاعر رہے۔ ان کے متنوع اور گہرے تجربے نے تمام صوبائی لہجے کو اپنے اندر سما لیا اور انھیں تمام طرح کے حالات کے متعلق بولنے کی صلاحیت عطا کی۔‘

یہ بھی پڑھیے

عمر خیام: جن کی اپنی قبر کے بارے میں پیشگوئی ’حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی‘

13ویں صدی کے فارسی شاعر سعدی سے ہم آج کیا سیکھ سکتے ہیں؟

وہ مزید کہتے ہیں: ’لیکن ان کی وسیع تر مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کا نسبتا زیادہ گہرا احساس ہے جسے وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مقامی شکلوں اور رنگوں کو ایک کائناتی وسعت مل جاتی ہے۔ اپنی فارسی زبان میں وہ تمام اقوام سے بات کرتے ہیں اور ہومر، شیکسپیئر، سروینٹس اور مونٹین کی طرح ہمیشہ کے لیے جدید ہیں۔‘

’غزل کا پیغمبر‘

شیخ سعدی کو شعرو سخن کے تین پیغمبروں میں سے ’غزل کا پیغمبر‘ کہا گیا ہے۔ فارسی کے معروف شاعر جامی نے اپنے ایک قطع میں لکھا ہے کہ ’ہرچند کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن شعر و سخن کے تین پیغمبر ہیں، ابیات کے فردوسی، قیصدے کے انوری اور غزل کے سعدی ہیں۔‘

چنانچہ سعدی کو ان کی تصانیف اور زندگی کے تجربہ کار بزرگ کی حیثیت سے برگزیدہ معمار، بے نظیر مصور، باغبان گلستاں و بوستاں، نیک بختی کا راہ نما، نئی طرز کا موجد، جذبات کا دریا، خیالات کا سرچشمہ، میدان نظم کا غازی، عرصۂ نثر کا شہسوار، بلاغت اور فصاحت کے اکھاڑے کاپہلوان، مجلس برناؤ پیر کا صدر انجمن، محفل نشاظ کا ساقی، بزم طفلاں کا کھلونا، مدرسہ نظامیہ کا فخر وغیرہ جیسے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔

پروفیسر شکیل کہتے ہیں کہ آج دنیا کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ انسان دوستی ہے، اخلاقیات ہے، ادب ہے اور شیخ سعدی کے کشکول میں یہ چیزیں اپنی بہترین شکل میں موجود ہیں اور وہ اس میدان کے غازی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مشرق میں ان کا زور گذشتہ صدی میں کم ہوا ہے لیکن مغرب میں مشرقی شعرا کی پزیرائی بڑھی ہے اور حافظ و رومی کے ساتھ سعدی کے قلم کا بھی لوہا مانا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سعدی نے نہ صرف شعر میں بلکہ نثر میں بھی اپنا نہ مٹنے والا نقش چھوڑا ہے اور انسان کو جب بھی انسانیت کی ضرورت ہوگی تو ان کے الفاظ لوگوں کی راہ نمائی کریں گے۔

امریکہ کے فلسفی، مضمون نگار اور شاعر راف والڈو ایمرسن نے سعدی پر اپنے انتہائی پرمغز مضمون میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انھیں مغربی دنیا میں متعارف ہونے میں دیر ہو گئی جس کی بہت ساری وجوہات رہی ہوں گی لیکن اگر وہ ذرا پہلے متعارف ہو جاتے تو ادب کی سمت و رفتار کچھ اور ہوتی۔

انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ 'اگر چہ سعدی کے پاس حافظ جیسی شاعرانہ پرواز نہیں ہے لیکن ان میں عقل، عملی احساس اور اخلاقی جذبات ہیں۔ ان کے پاس سکھانے کی جبلت ہے، اور فرینکلن کی طرح ہر واقعہ سے اخلاقیات کا پہلو نکالنے کا ملکہ ہے۔ وہ دوستی، محبت، خودی اور سکون کے شاعر ہیں۔'

سیاحت میں ابن بطوطہ سے مقابلہ

سعدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 30 سال طلب علم میں گزارے اور 30 سال سفر و سیاحت میں جبکہ 30 سال گوشہ نشینی کی زندگی شیراز میں گزاری۔

ان کے سفر کے بارے میں خواجہ الطاف حسین حالی نے سرگورا وسلی کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’مشرقی سیاحوں میں ابن بطوطہ کے سوا شیخ سعدی سے بڑھ کر اور کوئی سیاح ہم نے نہیں سنا۔ اس نے ایشیا کوچک، حبش، مصر، شام، فلسطین، آرمینیا، عرب، جملہ ممالک ایران، اکثر ممالک توران، ہندوستان، رودبار، کاشغر اور جیحون سے آگے بصرہ و بغداد تک سفر کیا۔‘

لیکن ان کے بیان کو مبالغہ آمیز قرار دیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے شیخ کے ہندوستان چار بار آنے کا ذکر کیا ہے۔

بہر حال گلستاں اور بوستاں میں انھوں نے جتنا ذکر کیا ہے اس حوالے سے الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ وہ ’مشرق میں خراسان، ترکستان، اور تاتار تک گئے اور بلخ و کاشغر میں مقیم رہے۔ جنوب میں سومنات تک گئے اور ایک مدت تک وہاں ٹھہرے اور پھر مغربی ہندوستان میں گھوم پھر کر دریا کی راہ سے ملک عرب کو چلے گئے۔ شمال و مغرب کی طرف عراق عجم، آذربائیجان، عراق عرب، شام، فلسطین اور ایشیا کوچک میں ان کا بار ہا گزر ہوا۔ اصفہان، بصرہ، کوفہ، بیت المقدس، طرابلس الشرق، دمشق، دیار بکر اور اقصائے روم کے شہروں اور قریوں میں مدت تک ان کی آمدو رفت رہی۔‘

وہ منگول اور اہل فرنگ کے اسیر رہے۔ انھوں نے اپنی اسیری کا ایک واقعہ گلستان میں نقل کیا ہے جو اس طرح ہے کہ وہ اہل دمشق سے ناراض ہو کر فلسطین کے جنگلوں میں رہنے لگے جہاں سے انھیں عیسائيوں نے پکڑ لیا۔ اس وقت طرابلس میں شہر کی حفاظت کے لیے خندقیں کھودی جا رہی تھیں اور انھیں یہودی اسیروں کے ساتھ کھدائی کے کام پر لگا دیا۔

اسی دوران حلب کے ایک شخص کا ادھر سے گزر ہوا اور انھوں نے شیخ کو پہچان لیا اور انھیں دس دینار ادا کر کے قید سے رہائی دلوائی اور اس کی اپنی بیٹی سے سو دینار مہر پر شادی کرا دی۔

کچھ مدت ان کے ساتھ گزاری لیکن بیوی کی بدمزاجی سے ناک میں دم آ گیا۔ ایک بار ان کی بیوی نے طعنے میں ان سے کہا کہ آپ وہی ہیں نہ جنھیں میرے والد نے دس دینار دے کر خریدا! شیخ نے کہا، بے شک میں وہی ہوں، جسے دس دینار پر خریدا اور سو دینار پر آپ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔

وہ زیادہ تر درویشوں کی طرح بے سروسامان رہے اور دوران سفر سخت تکلیفیں اٹھائیں، جہاں گئے وہاں کام کیا۔ نفخات الانس میں لکھا ہے کہ شیخ نے بہت زمانے تک بیت المقدس اور شام کے شہروں میں سقائی یعنی پانی بھرنے اور پلانے کا کام کیا۔

گلستاں میں وہ اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’میں نے کبھی زمانے کی سختی اور آسمان کی گردش کا شکون نہیں کیا، مگر ایک موقع پر دامن استقلال ہاتھ سے چھوٹ گیا کہ نہ میرے پاؤں میں جوتی تھی نہ جوتی خریدنے کی حیثیت تھی۔ اسی حالت غمگین میں جامع مسجد پہنچا تو وہاں ایک شخص کو دیکھا جس کے سرے سے پاؤں ہی نہیں تھے۔ اس وقت خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے ننگے پاؤں کو غنیمت سمجھا۔‘

ہندوستان کا سفر اور سومنات کے مندر کا حالGetty Imagesسومناتھ کا مندر اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑا اور کشادہ ہے

ہندوستان کا ذکر بوستان کے آٹھویں باب میں رقم ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’سومنات پہنچا تو دیکھا کے ہزاروں لوگ ایک بت کی پرستش کے لیے دور دور سے وہاں پہنچتے ہ‘یں اور اس سے مرادیں مانگتے ہیں۔ مجھکو تعجب ہوا کہ ایک جاندار ایک بے جان کی پرستش کس لیے کرتے ہیں؟

’میں نے جاننے کے لیے ایک برہمن سے دوستی کی اور اس سے دریافت کیا تو برہمن نے مندر کے پجاریوں کو خبر کر دی، سب نے مجھ کو آکر گھیر لیا۔ میں نے مصلحتا ان کے سردار سے کہا میں تو خود اس بت پر فریفتہ ہوں لیکن چونکہ یہاں نیا ہوں اس لیے اس کے راز سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے حقیقت جاننا چاہتا ہوں تاکہ سمجھ بوجھ کر اس کی پوجا کروں۔‘

’اس نے یہ بات پسند کی اور رات کو مندر میں رکنے کے لیے کہا۔ رات بھر وہاں رہا، صبح کے قریب تمام بستی کے مرد و عورت وہاں جمع ہو گئے اور اس مورت نے اپنا ہاتھ اٹھایا، جیسے کوئی دعا مانگتا ہے۔ یہ دیکھتے ہی سب جے جے پکارنے لگے۔‘

’جب لوگ چلے گئے تو برہمن نے ہنس کر کہا، کیوں اب تو کوئی شبہ باقی نہیں رہا؟ میں ظاہرداری سے رونے لگا اور اپنے سوال پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ سب نے مجھ پر مہربانی کی اور ہاتھ پکڑ کر اس کے پاس لے گئے۔ میں نے مورت کے ہاتھ چومے اور بظاہر چند روز کے لیے برہمن بن گیا۔‘

’جب مندر میں میرا اعتبار بڑھ گیا تو ایک روز رات کو جب سب چلے گئے تو میں نے مندر کا دروازہ بند کر دیا اور مورت کے تخت کے پاس جا کر غور اس ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ وہاں مجھے ایک پردہ نظر آیا، جس کے پیچھے ایک پجاری چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک ڈور تھی، معلوم ہوا کہ جب وہ ڈور کھینچتا ہے تو فورا اس مورت کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے، اسی کو عوام کرشمہ سمجھتے ہیں۔‘

’اس پجاری نے جب دیکھا کہ راز فاش ہو گیا تو وہ کھسیانا ہو کر وہاں سے بھاگا میں بھی اس کے پیچھے دوڑا اور اس خوف سے کہ کہیں مجھکو پکڑوا کر مروا نہ ڈالے اس کو پکڑ کر ایک کنویں میں گرا دیا اور اس کے فورا بعد میں وہاں سے بھاگ نکلا اور ہندوستان میں ہوتا ہوا یمن کے راستے حجاز پہنچا۔‘

گلستاں کی تخلیق

سعدی نے وطن واپسی کے بعد گوشہ نشینی اختیار کر لی کیونکہ سعد زنگی کے بعد ان کا بیٹا قتلغ خان ابوبکر تخت نشین ہوئے۔ اگرچہ انھوں نے فارس کو سرسبز و شاداب کر دیا لیکن ان کے دربار میں اکثر جہلا مشائخ کے لباس میں ہوتے تھے اور اہل علم اپنا کمال دکھاتے ہوئے ڈرتے تھے۔

انھیں یہ افسوس ستانے لگا کہ انھوں نے علم حاصل کیا دنیا بھر کی سیر کی لیکن کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا اور وہ گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے لیکن پھر ایک دوست کے اصرار پر انھوں اپنا عہد توڑ دیا اور گھر سے باہر قدم رکھا۔

کہتے ہیں کہ وہ شیراز میں موسم بہار کا زمانہ اور شیخ سعدی ان کے ساتھ ٹہلتے ہوئے باغ بہشت پہنچ گئے۔ وہاں ان کے دوست نے ان کے لیے پھول چنے لیکن شیخ نے ان سے بے رغبتی کا اظہار کیا اور مصنف جوبین بخراد کے مطابق سعدی نے شاعر اور فلسلفی خیام کے انداز میں ان اشیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھيں گے جو ان پھولوں کی طرح نہ مرجھائیں جو معلوماتی بھی ہوں اور دلچسپ بھی۔ چنانچہ انھوں نے اپنی اس تصنیف کا نام گلستاں رکھا اور کہا کہ اسے دوام حاصل ہوگا۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ پھول کی زندگی پانچ دن کی ہے یا چھ روز کی لیکن ان کی یہ تصنیف صدار بہار ہے۔

گُل همین پنج روز و شش باشد

وین گلستان همیشه خوش باشد

اور آج صدیوں بعد بھی اسے دوام حاصل ہے۔سعدی کی ایک نظم جو فارسی کی سب سے مشہور نظم کہی جا سکتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

بنی‌آدم اعضای یک دیگرند

که در آفرينش ز یک گوهرند

یعنی 'انسان ایک جوہر سے تخلیق ہوا ہے اور وہ ایک دوسرے کے اعضا ہیں'۔

چو عضوى به‌درد آورَد روزگار

دگر عضوها را نمانَد قرار

تو کز محنت دیگران بی‌غمی

نشاید که نامت نهند آدمی

یعنی 'اگر کسی عضو کو تکلیف ہو تو باقیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جو دوسروں کی تکلیف پر کوئی رنج و غم محسوس نہیں کرتے انھیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔'

اردو کے معروف شاعر علامہ اقبال نے اسی بات کو ایک شعر میں اس طرح کہا ہے:

مبتلائے درد کوئی جسم ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

سعدی کی موت کی تاریخ تو کسی کو قطیعت کے ساتھ معلوم نہیں لیکن ان کی کتاب گلستاں جس روز مکمل ہوئی اس دن کی نسبت سے ہر سال ان کے مزار پر عقیدت مندوں کا میلہ لگتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ انھیں خراج تحسین پیش کرنے پہنچتے ہیں۔

یہ ایرانی کیلنڈر اردی بہشت کی پہلی تاریخ ہے جب سنہ 1256 میں تصنیف مکمل ہوئی تھی اور گریگورین کیلنڈر کے حساب سے یہ تاریخ 21 اپریل ہوتی اور لیپ ایئر میں 20 اپریل ہوتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More