پی ٹی آئی کی صوبائی صدارت چھوڑنے کے بعد پرویز خٹک کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

اردو نیوز  |  Jun 02, 2023

سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک نے پاکستان تحریک انصاف میں اپنے عہدے سے استعفی دیا تاہم انہوں نے پارٹی سے علیحدگی یا کسی نئی جماعت میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا۔

پرویز خٹک نے جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے صوبائی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تاہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان مشاورت کے بعد کرنے کا کہا۔

پریس کانفرنس کے دوران پرویز خٹک کے ساتھ نجی نیوز چینل کے سینیئر صحافی یاسر حسین بھی موجود تھے۔

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پریس کانفرنس سے پہلے پرویز خٹک سے گفتگو کی مگر وہ کافی گھبرائے ہوئے تھے۔ میں نے ہمیشہ ان کو پرجوش اور پراعتماد دیکھا مگر گزشتہ روز ان کی کیفیت مختلف تھی۔‘

صحافی یاسر حسین کے مطابق انہوں نے پرویز خٹک سے سیاسی مستقبل کے بارے میں کئی بار پوچھا مگر انہوں ن  کوئی جواب نہ دیا۔ ’ایسا لگ رہا تھا کہ شاید وہ ابھی تک کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچے۔‘

کسی اور سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں؟پشاور کے سینیئر صحافی شمیم شاہد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پرویز خٹک اکیلے نہیں ہیں، ان کے ساتھ پورا گروپ موجود ہے جو ان کی ہدایت کا منتظر ہے۔ پرویز خٹک فی الحال کسی پارٹی میں نہیں جائیں گے وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عین ممکن ہے پرویز خٹک اپنی پارٹی بنا لیں جو مستقبل میں جہانگیر ترین یا پھر کسی اور سے سیاسی اتحاد کر لے۔

شمیم شاہد کے مطابق پرویز خٹک اپنا ایجنڈا تحریک انصاف کی طرز پر رکھیں گے شاید مستقبل میں دوبارہ پی ٹی آئی میں ضم ہونا پڑے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرویز خٹک سیاسی داؤ پیچ خوب سمجھتے ہیں مگر موجود حالات میں وہ بھی الجھے ہوئے ہیں۔

پرویز خٹک اکثر سیاسی فیصلوں میں عمران خان کو مشورہ دیتے اور اختلاف ہونے پر کھل کر مخالفت کرتے تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)پرویز خٹک کے گروپ میں اور کون کون شامل ہے؟خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے اندر گروپ بندی پہلے سے موجود رہی ہے۔ سابق وزیراعلٰی محمود خان کی حکومت میں عاطف خان اور شہرام ترکئی کا گروپ منظر عام پر آیا تھا، اس کے علاوہ اسد قیصر، پرویز خٹک اور شاہ فرمان کا الگ گروپ ہے جو سب سے مضبوط گروپ مانا جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ایک سابق وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پرویز خٹک شروع دن سے اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہے ہیں۔ ان کے جانے کے بارے میں پارٹی کے اندر پہلے سے باتیں ہو رہی تھیں، خدشہ ہے کچھ دنوں میں مزید رہنما بھی پارٹی کو چھوڑ جائیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پرویز خٹک سیاسی ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرنے والے لیڈر ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے مگر ہمارا نظریہ عمران خان ہے، ہم نے سیاست کا آغاز پی ٹی آئی سے کیا، سیاست چھوڑ دیں گے مگر وفاداری نہیں بدلیں گے۔‘

کیا دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوں گے؟سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطے میں ہیں اور ممکن ہے وہ شمولیت اختیار کر لیں۔

پرویز خٹک کے قریبی ساتھی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات طے تھے مگر پرویز خٹک کی کچھ شرائط آصف علی زرداری نے تسلیم نہیں کیں جس کے باعث ڈیڈ لاک برقرار ہے۔‘

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات گوہر انقلابی نے موقف اپنایا کہ پرویز خٹک اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ہمراہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی خواہش کر رہے ہیں مگر ماضی میں قائدین کے خلاف ان کے بیانات دیکھتے ہوئے ایسا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’بلاول بھٹو اور مرکزی قائدین بھی نہیں چاہتے کہ پرویز خٹک پیپلز پارٹی کا حصہ بنے۔‘

پرویز خٹک کے قریبی ساتھی کے مطابق ’پرویز خٹک کی کچھ شرائط آصف علی زرداری نے تسلیم نہیں کیں جس کے باعث ڈیڈ لاک برقرار ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)کیا پرویز خٹک اور عمران خان میں اختلافات موجود تھے؟پرویز خٹک پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما ہونے کے علاوہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

پرویز خٹک اکثر سیاسی فیصلوں میں عمران خان کو مشورہ دیتے اور اختلاف ہونے پر کھل کر مخالفت کرتے تھے۔

انہوں نے کئی بار اپنے جلسوں میں یہ دعویٰ کیا کہ ’اگر میں چاہوں تو عمران خان ایک دن بھی کرسی پر نہ رہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پرویز خٹک کے پاس عمران خان کے تمام راز موجود ہیں، اسی لیے عمران خان ان کی ہر بات مانتے تھے مگر گزشتہ کچھ مہینوں سے ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تاہم وجوہات کا کسی کو علم نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پرویز خٹک کی اہلیہ کی وفات پر عمران خان نے تعزیت کی نہ ان سے رابطہ کیا۔ اس کے علاوہ حکومت سے مذاکراتی کمیٹی میں بھی ان کا نام شامل نہیں کیا شاید عمران خان کو ان کے چلے جانے کا علم تھا۔‘

سیاسی سفر پر ایک نظرپرویز خٹک نے لاہور کے ایچی سن کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سنہ 1983 میں ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر کی حیثیت سے خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے سیاست کا آغاز کیا۔

ابتدا میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں رہے۔ پرویز خٹک تین بار صوبائی وزیر جبکہ سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیاب ہو کر خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی منتخب ہوئے۔

وہ اپنے پانچ سالہ کامیاب دورے حکومت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو دوبارہ خیبر پختونخوا میں اقتدار دلوانے میں کامیاب ہوئے اور خود قومی اسمبلی سے منتخب ہو کر وفاقی وزیر دفاع کا قلمدان سنبھال لیا۔

پرویز خٹک نے کئی بار اپنے جلسوں میں یہ دعویٰ کیا کہ ’اگر میں چاہوں تو عمران خان ایک دن بھی کرسی پر نہ رہے۔‘ (فوٹو: سوشل میڈیا)پرویز خٹک کے گھر میں چار ایم این ایز، دو ایم پی ایز اور ایک ناظم موجود ہے۔ بڑے بھائی لیاقت خٹک بھی صوبائی وزیر رہ چکا ہیں جنہوں نے 21 اکتوبر 2021 میں پی ٹی آئی کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی اور پھر کچھ عرصے بعد جے یو آئی (ف) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

پرویز خٹک کے بیٹے ابراہیم خٹک ایم پی اے اور داماد عمران خٹک رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی بھابھی نفیسہ خٹک اور بھتیجی ساجدہ بیگم بھی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More