گذشتہ برس قطر میں کھیلے جانے والے فٹبال ورلڈ کپ میں ایک کے بعد ایک اپ سیٹ دیکھنے کو ملا لیکن جس ٹیم نے تسلسل کے ساتھ اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کیا وہ سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی مراکش کی قومی ٹیم تھی۔
فرانس سے بالآخر سیمی فائنل میں شکست کھانے والی مراکش کی ٹیم کو پاکستان میں بھی خاصی پذیرائی ملی تھی۔ اس ٹیم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ورلڈ کپ سکواڈ میں 26 کھلاڑیوں میں سے 14 دوہری شہریت کے مالک یا ’اوورسیز کھلاڑی‘ تھے، یعنی سادہ الفاظ میں وہ مراکش کے ساتھ ساتھ کسی اور ملک کی شہریت بھی رکھتے تھے۔
اوورسیز کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دینے کی اس حکمتِ عملی پر مراکش کے ٹیم مینیجر ولید ریگراگی کو خوب سراہا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے پاکستان کی جانب سے موریشس میں کھیلے جانے والے چار ملکی فٹبال ٹورنامنٹ سے قبل ٹرینگ کیمپ کے لیے 28 رکنی سکواڈ کا اعلان کیا گیا۔ اس سکواڈ کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں نو اوورسیز کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا تھا۔
سکواڈ کے اعلان کے بعد سے پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی ویسی ہی بحث کی جا رہی ہے جیسی چند برس قبل مراکش میں 2022 کے ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے آغاز میں ہوئی تھی۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ناقدین کو اعتراض ہے کہ پاکستانی ٹیم میں اوورسیز کھلاڑیوں کی اتنی بڑی تعداد کے باعث مقامی کھلاڑیوں کو مواقع نہیں مل پاتے اور وہ اگر بہتر ٹیموں سے فٹبال نہیں کھیلیں گے تو خود کو بہتر کیسے کر پائیں گے۔
گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران زیادہ ترعرصہ پاکستانی فٹبال فیڈریشن کی بدانتظامی اور فیفا قوانین کی خلاف ورزی کے باعث قومی ٹیم فٹبال کھیلنے سے ہی محروم رہی۔ پہلے سنہ 2015 سے سنہ 2018 تک اور پھر سنہ 2021 میں ایک گروپ کی جانب سے ’پی ایف ایف ہیڈ کوارٹر‘ پر قبضہ جسے ’بیرونی مداخلت‘ قرار دیا گیا کے باعث فیفا نے دو بار پاکستان کی رکنیت معطل کر دی تھی۔
دوسری جانب رائے یہ ہے کہ پاکستان ٹیم میں بہترین اوورسیز کھلاڑیوں کی شرکت اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ٹیم کے جیتنے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مقامی کھلاڑیوں کو اپنا کھیل بہتر کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اس بحث کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے ہم نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین سمیت اوورسیز کھلاڑیوں اور ایک تجزیہ کار سے اس بارے میں تفصیلی بات کی ہے۔
تاہم اس بارے میں مزید جاننے سے پہلے یہ خبر دینا اہم ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک تاحال پاکستانی ٹیم کو موریشس جانے کے لیے پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے این او سی موصول نہیں ہوا جس کے لیے قومی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی بھی اپیل کر چکے ہیں۔ پاکستان نے موریشس میں اپنا پہلا میچ 11 جون کو کھیلنا ہے۔
Getty Images’یہ بحث 12 سال سے چل رہی ہے، پہلے اوورسیز کھلاڑیوں کو گالیاں دی جاتی تھیں‘
اس بحث کا پسِ منظر جاننے کے لیے ہم نے پاکستانی فٹبال ٹیم کے 17 میچ کھیلنے والے گول کیپر یوسف اعجاز بٹ سے بات کی جو گذشتہ 12 سال سے پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
انھوں نے ڈنمارک سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بحث ابھی کی نہیں ہے یہ 12 سال سے میں سنتا آ رہا ہوں۔‘
’اس وقت مقامی کھلاڑی ایک دوسرے کو کہتے تھے کہ آپ نے ہماری جگہ لے لی، گالیاں بھی سننے کو ملتی تھیں۔۔۔پھر ٹیم جب ساتھ کھیلنا شروع ہوئی اور اتحاد پیدا ہوا تو انھیں بھی سمجھ آ گئی۔ اب یہ بحث صرف میڈیا تک محدود ہے۔‘
یوسف بٹ کے آباؤ اجداد کا تعلق کشمیر سے ہے تاہم ان کا خاندان لاہور میں رہائش پذیر تھا جس کے بعد ان کے والد ڈنمارک شفٹ ہوئے تھے۔
یوسف بٹ سے جب مقامی کھلاڑیوں کو ملنے والے مواقعوں کی کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’مقامی کھلاڑیوں کے لیے حالات بہت خراب ہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹیلنٹ نہیں ہے، پاکستان میں پچھلے 12 سالوں میں مجھے کلیم اللہ، عیسیٰ، عادل، صدام، فیصل جیسے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔ لیکن وہ اس سے بہت آگے جا سکتے تھے۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا مسئلہ الگ ہے اور سیاست کے مسائل بھی ہیں۔‘
انھوں نے ماضی میں لگنے والی پابندیوں کو ’کھلاڑیوں سے ہزاروں گھنٹوں کی ٹریننگ چھیننے‘ کے مترادف قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میں ہفتے میں پانچ دن ٹریننگ کرتا ہوں، ایک دن میچ کھیلتا ہوں، جم کی ٹریننگ الگ ہوتی ہے۔‘
’اس کے علاوہ مجھے فٹنس کوچ اور نیوٹرشنسٹ کی سہولت بھی میسر ہے۔ پروفیشنل لیول کی فٹبال میں یہ سب تو اہم ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی حکمتِ عملی بہت اہم ہوتی ہے۔ ٹیم کا ردھم بہت ضروری ہوتا ہے، اس لیے اوورسیز کھلاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ انھیں یہ تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں، اور بڑے کلبز سے کھیل کر آئے ہوتے ہیں تو انھیں دباؤ میں کھیلنے کی عادت ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’12 سال میں مجھے پاکستان کے لیے 60، 70 میچ کھیلنے چاہیے تھے، لیکنپابندیوں کی وجہ سے صرف 17 کھیل سکا۔‘
اس مسئلے کا پسِ منظر جاننے کے لیے ہم نے پاکستان کی فٹبال پر گہری نظر رکھنے والے شاہ رخ سہیل سے بات کی جو آج کل یونیورسٹی آف ایسٹ لندن میں سپورٹس مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2005 میں پہلی مرتبہ زیش رحمان وہ پہلے اوورسیز پاکستانی تھے جو پاکستان کی فٹبال ٹیم میں شامل ہوئے تھے۔‘
اس کے بعد سے سلسلہ چل نکلا اور آہستہ آہستہ اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور آج سکواڈ میں نو کھلاڑی اوورسیز ہیں۔
شاہ رخ نے اس بحث کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بحث بہت کمزور ہے کیونکہ ہم ابھی تک پچھلی صدی کے حساب سے سوچ رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پوری دنیا اس ماڈل کو اپنا چکی ہے، فلپائن کی ٹیم کی رینکنگ سنہ 2006 میں 190 تھی اور سنہ 2019 میں وہ ایشیا کپ کھیل رہے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں انفراسٹرکچر نہیں بنا ہوا جس کی وجہ سے طویل ٹریننگ کیمپس رکھے جاتے ہیں اور یوں جو کھلاڑی دوسری لیگز میں کھیل رہے ہوتے ہیں انھوں ان کیمپس میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ان کے کلب انھیں اجازت نہیں دیتے انٹرنیشنل ونڈو سے پہلے جانے کی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان کھلاڑیوں کے آنے سے ٹیم کی کوالٹی بہتر ہو گی اور اگر پاکستان درست حکمتِ عملی کے ساتھ کھیلے تو نتائج بہتر آ سکتے ہیں۔‘
BBCپاکستان ٹیم ٹریننگ کیمپ’مجھے خوشی ہے کہ یہ بحث ہو رہی ہے، کوئی فٹبال کے بارے میں بات تو کر رہا ہے‘
پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین ہارون ملک نے اس بارے میں بی بی سی سے تفصیل سے بات کی۔
انھوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے تو مجھے خوشی ہے کہ اس بارے میں بات کی جا رہی ہے۔ یہ پوری دنیا میں بحث کا موضوع ہے، جہاں بھی ٹیم کا اعلان ہوتا ہے تو بحث ضرور ہوتی ہے مجھے خوشی ہے کہ لوگ اسی بہانے فٹبال پر بات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اوورسیز کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جن پوزیشنز پر ان کھلاڑیوں کے ہم پلہ کھلاڑی ہمیں نہیں ملتے تو اوورسیز کھلاڑی اس خلا کو پر کرتے ہیں۔ ‘
’اس سے دو فرق پڑتے ہیں ایک تو ٹیم کا معیار بہتر ہوتا ہے، اور دوسرا یہ کھلاڑی دوسرے ممالک میں جا کر پاکستان کے سفیر بنتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ ہے۔ یوں یہاں کہ لڑکوں کو دوسرے کلبز میں موقع ملنے کے امکانات بڑھتے ہیں۔‘
مقامی کھلاڑی کے لیے میسر مواقعوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس وقت آل پاکستان فٹبال ٹورنامنٹ کروا رہے ہیں، اس کے علاوہ 160 ضلعوں میں فٹبال ٹورنامنٹس ہوں گے۔ اسے سے پہلے نیشنل گیمز میں فٹ بال اور چیلنج کپ بھی ہو چکا ہے تو آہستہ آہستہ ہم مقامی کھلاڑیوں کو مواقع دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ٹیم سیلیکشن کے حوالے سے ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ فٹبال میں کوچ ہی ٹیم سیلیکٹ کرتا ہے اور اسے اس حوالے سے کرتا دھرتا سمجھا جاتا ہے۔
اس بارے میں ہارون ملک کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں فٹبال ٹیمیں ایسے ہی سیلیکٹ ہوتی ہیں۔ ہم نے اس مرتبہ نیشنل گیمز میں اور موجودہ ٹورنامنٹس میں بھی اپنے سکاؤٹ بھیجے ہیں تاکہ اچھے کھلاڑیوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ ان کے مشوروں کی بنیاد پر ٹریننگ کے لیے سکواڈ کا اعلان کیا گیا ہے۔‘
Getty Images’ٹیم ہمیشہ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہونی چاہیے‘
اس مرتبہ پاکستانی ٹیم میں جن نئے اوورسیز کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں اوٹس خان اور عیسیٰ سلیمان بھی شامل ہیں اور تجزیہ کار ان کی صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔
ان میں اوٹس خان مانچسٹر یونائیٹڈ کی یوتھ اکیڈمی کے گریجویٹ ہیں جبکہ عیسٰی سلیمان انگلینڈ کی قومی جونیئر ٹیمز کی کپتانی کر چکے ہیں اور وہ ایٹسن ولا کی یوتھ اکیڈمی سے سامنے آئے ہیں۔
بی بی سی سے برطانیہ سے بات کرتے ہوئے 27 سالہ اوٹس خان نے کہا کہ یہ خود ان کے، اور ان کے خاندان کے لیے ایک فخر کا موقع ہے۔
اوٹس خان کے دادا کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور انھوں نے سنہ 60 کی دہائی میں برطانیہ نقل مکانی کی تھی اور یہیں شادی بھی کی تھی۔ اوٹس خان خود تاحال پاکستان نہیں آئے۔
اورسیز کھلاڑیوں پر بحث کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ٹیم ہمیشہ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ ہر شخص کی اپنی رائے ہوتی ہے اور تنازع تو کسی بھی چیز پر بن سکتا ہے لیکن ہمارا کام یکجا ہو کر بہترین کارکردگی دکھانا ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کی فٹبال ٹیم موریشس کے بعد انڈیا روانہ ہو گی جہاں وہ ساؤتھ ایشین فٹبال فیڈریشن چیمپیئن شپ یا سیف کپ میں شرکت کرے گی۔ یہاں پاکستان کا انڈیا سے 21 جون کو مقابلہ ہو گا۔
اس کے بعد پاکستان کا ورلڈ کپ کوالیفائر کے لیے ڈرا نکلے گا جس کے بعد سال کے اواخر میں پاکستان ورلڈکپ کوالیفائر کے میچ کھیلے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان کی مردوں کی فٹبال ٹیم نے آج تک کبھی بھی کوئی ورلڈکپ کوالیفائر میچ نہیں جیتا ہے۔ اوٹس خان کہتے ہیں کہ ’یہ بات ہمارے ذہن میں ہے اور ہم اسے تبدیل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔‘