برطانیہ کا اخباری گروپ دی ٹیلی گراف فروخت کیلئے پیش

ہم نیوز  |  Jun 08, 2023

لندن: قرض کے بوجھ تلا دبا ہوا برطانیہ کا اخباری گروپ دی ٹیلی گراف فروخت کے لیے پیش کردیا گیا ہے، اخباری گروپ میں دی ڈیلی، سنڈے ڈیلی گراف اور دی اسپیکٹیٹر میگزین شامل ہیں۔

برطانیہ کے مؤقر نشریاتی ادارے بی بی سی اور دی گارڈین کے مطابق اسکاٹ لینڈ کے قرض دینے والے بینک نے اس ضمن میں کہا ہے کہ قرضوں کے نادہندہ ہونے کی وجہ سے ان قرضوں کو ادا کرنے کا کوئی راستہ نظر نہ آنے کی بنا پر اور کوئی چارہ باقی نہیں رہا تھا کہ B.UK Limited پر وصول کنندہ کو مقرر کردیا جائے۔

یہ ٹیلی گراف میڈیا گروپ سے متعلق برمودا کی ایک ہولڈنگ کمپنی ہے جو بارکلے کے امیر خاندان کے زیر کنٹرول ہے۔

بنک کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وصول کنندگان کی تقرری ایک آخری حربے کا قدم ہے، یہ قدم متفقہ حل اور ادائیگی کے لیے بات چیت کے بعد اٹھایا گیا ہے، یہ قرض ایک بلین پاؤنڈز یا 1.2 بلین یورو کے مساوی ہے۔

جاری کردہ بیان کے تحت بدقسمتی سے اس ضمن میں کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے لیکن بینک مناسب حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے کو تیار ہے۔ بینک نے مالیاتی مشاورتی فرم  AlixPartners کو بی ڈاٹ یو کے لمیٹڈ پر وصول کنندہ کے طور پر مقرر کردیا ہے۔

برطانیہ، پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہنرمندوں کیلئے ملازمتوں کے سنہری مواقع

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایلکس پارٹنرز نامی فرم نے کہا ہے کہ اخباری گروپ کی اشاعت روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گی، وصولیوں کا تعلق کاروبار کی مالی صحت یا کارکردگی سے نہیں ہے۔

رپورٹس کے مطابق ٹیلی گراف میڈیا گروپ کو جڑواں بھائیوں سر فریڈرک اور سر ڈیوڈ بارکلے نے 2004 میں 665 ملین پاؤنڈز میں خریدا تھا۔

برطانیہ کو موزوں امیدوار کی تلاش، پرندے گننے کا معاوضہ ایک کروڑ

ایلکس پارٹنرز کے مطابق آنجہانی سر ڈیوڈ بارکلے کے بیٹوں ہاورڈ اور ایڈن بارکلے کو بزنس کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

میڈیا کے مطابق بارکلے فیملی نے کہا ہے کہ بینک آف اسکاٹ لینڈ کے مالک لائیڈز بینکنگ گروپ کے ساتھ بات چیت جاری ہے، ہم ایک ایسے معاہدے پر پہنچنے کے لیے پر امید ہیں جو تمام فریقین کو مطمئن کرے گا۔

برطانیہ کی نئی ویزہ پالیسی، بین الاقوامی طلبہ پر پابندیاں عائد کرنیکا منصوبہ

رپورٹس کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی گراف میڈیا گروپ کی مالیت 500 سے 600 ملین پاؤنڈز کے درمیان ہو سکتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More