پاکستان کی سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کرے گا۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے اس کیس سے متعلق دائر کی گئی نظر ثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔جمعرات کو سماعت شروع ہونے سے کچھ دیر قبل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اردو نیوز کو تصدیق کی کہ فیض آباد دھرنا نظر ثانی درخواست واپس لے رہے ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف نظر ثانی کیس میں وفاق نے عدم پیروی کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا اس حوالے سے درخواست کریں گے۔ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہیں۔ گزشتہ روز الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے (پیمرا) نے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے۔ جبکہ منگل کو انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ پیمرا نے نظرثانی درخواست واپس لینے کی متفرق درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ’فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف نظرثانی کیس عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہے۔ سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست پر 28 ستمبر کو سماعت مقرر کی گئی ہے۔ پیمرا اپنی نظرثانی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔‘درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ’پیمرا کی متفرق درخواست منظور کی جائے اور فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے۔‘ منگل کو سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دینے والے ایک اور فریق شیخ رشید احمد کے وکیل امان اللہ کنرانی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ 28 ستمبر کو مقرر مقدمے کی سماعت ملتوی کردی جائے۔‘ گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر کی نظرثانی کی درخواستیں 28 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے نومبر 2018 میں فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا۔ بعدازاں اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)عدالت عظمٰی نے اپنے فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ ’وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں، اپنی کمان کے اہلکاروں کو سزا دیں۔‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔’سنہ 2017 میں 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج ہونے اور عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی شواہد پائے گئے تھے۔‘ بعدازاں اپریل 2019 میں وزارت دفاع کے توسط سے اس وقت کی وفاقی حکومت، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کی جانب سے بھی فیصلے پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ سنہ 2017 میں ٹی ایل پی کے 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظام زندگی مفلوج ہوگیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)نظرثانی کی درخواستیں واپس لینے کا مطلب کیا ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابق درخواست گزاروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر اپنی نظرثانی کی درخواست واپس لے سکتے ہیں، تاہم ریاستی اداروں کی جانب سے درخواستیں واپس لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ادارے یا ریاست کی پالیسی میں تبدیلی آگئی ہے۔ اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جس وقت سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا اس وقت ریاستی اداروں کی پالیسی کچھ اور تھی اور بظاہر حکومت وقت اور اداروں کی پالیسیاں ایک جیسی نہیں تھیں۔‘’اب جب کہ فیصلہ سنانے والے جج چیف جسٹس بن چکے ہیں تو ریاستی ادارے اپنی اس وقت کی پالیسیوں کے بالکل برعکس کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سیاسی حکومت بھی نہیں ہے۔‘ ان کے مطابق ’اب انہوں نے بہتر سمجھا کہ عدلیہ کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی سے بہتر ہے کہ فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے جہاں کہیں ممکن ہو عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔‘ آئی بی اور پیمرا نے فیض آباد دھرنا کیس پر نظرثانی کی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ’چونکہ مختلف سیاسی جماعتیں اس کیس میں فریق تھیں اور اِس وقت ان جماعتوں کی قیادت یا تو جیلوں میں ہے یا پھر روپوش ہے تو بظاہر فوری طور پر اس کیس سے کچھ نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’دو اداروں کی جانب سے اپنی درخواستیں واپس لینے کا مطلب یہ ہی ہے کہ ان اداروں نے کم سے کم اپنی حد تک فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے۔‘فیض آباد دھرنا کیا تھا؟ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے مذاکرات کے ذریعے پُرامن طور پر دھرنا ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد انٹرچینج خالی کرانے کے حکم کے بعد 25 نومبر کو دھرنا مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا تھا جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پاکستان نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں مذہبی جماعت کی حمایت میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 27 نومبر 2017 کو مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن ٹی ایل پی کے گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ بعدازاں عدالت عظمٰی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔