EPA
القاعدہ، نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیموں سے پریشان افغانستان کے پڑوسی ممالک پاکستان، چین، روس، ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک 29 ستمبر (آج) کو ایک اجلاس میں افغانستان کے مسائل پر غور کر رہے ہیں۔
افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان رہنماؤں کا بھی اس اجلاس میں شرکت کا امکان ہے۔
پاکستان سمیت افغانستان کے بیشتر ہمسایہ ممالک القاعدہ، دولت اسلامیہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں سے منسلک عسکریت پسند گروپوں کی افغاستان میں موجودگی سے کافی پریشان ہیں۔
طالبان کون ہیں اور افغانستان میں کیسے حکمرانی کر رہے ہیں؟
طالبان ایک سخت گیر اسلام پسند گروپ ہے، جو اسلامی قانون کی انتہائی سخت تشریح پر عمل پیرا ہے۔ خیال رہے کہ طالبان نے پہلی بار سنہ 1996 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا۔
اس گروپ کو سنہ 2001 میں امریکی قیادت میں ہونے والے اتحادی ممالک کے حملے کے بعد افغانستان میں حکومت سے بے دخل کر دیا گیا تھا، لیکن 20 سال کی مہم کے بعد اگست 2021 میں طالبان نے دوبارہ ملک کا اقتدار حاصل کر لیا۔
دوبارہ ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے 1990 کی دہائی سے بہت سے سخت قوانین کو پھر سے رائج کر دیا ہے۔
ملک میں خواتین کو اب کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور لڑکیاں اور نوجوان خواتین سیکنڈری سکول یا یونیورسٹی میں نہیں جا سکتیں۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران بہت سے نوجوان شہریوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ہے۔
خواتین کے لیے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنا لازمی قرار دیا گیا ہے اور ان کے پارکوں میں جانے پر پابندی عائد ہے۔ ملک میں بیوٹی پارلر بند ہو چکے ہیں۔
خواتین کے لیے انسانی امداد کی فراہمی سے بھی روک دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے امدادی گروپوں کو افغانستان چھوڑنا پڑا۔
Getty Images
لندن کے کنگز کالج کی ڈاکٹر کرسٹین چینگ کہتی ہیں کہ ’آج کل طالبان اعتدال پسندوں اور سخت گیر لوگوں کے درمیان بٹے ہوئے ہیں، لیکن ان کیقیادت سخت گیر لوگوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔‘
لندن میں ایس او اے ایس کی ڈاکٹر اورزالہ نعمت کہتی ہیں کہ ’فیصلہ سازی پر اجارہ داری ایک شخص کے پاس ہے۔۔۔سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ۔‘
افغانستان میں القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے منسلک کئی عسکریت پسند اسلامی گروپوں کی میزبانی بھی کی گئی ہے، جنھوں نے اپنی موجودگی کو بڑھانے کے لیے ملک کی حالیہ عدم استحکام والی صورتحال کا فائدہ اٹھایا ہے۔
افغانستان کی معیشت کیسے متاثر ہوئی؟
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اس کا جی ڈی پی سکڑ کر تقریباً 30 فیصد رہ گیا ہے اور اندازے کے مطابق 700,000 لوگ ملازمتیں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے فوجیوں کے انخلا کے بعد ملک میں فوجی اخراجات اور امدادی عطیات دینے بند کر دیے ہیں۔
Reuters
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی افغانستان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور امریکہ نے بیرون ملک موجود 7.1 ارب ڈالر مالیت کے افغان اثاثوں کو منجمد کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے 38 ملین افراد میں سے 90 فیصد غربت میں رہتے ہیں اور ان میں سے تقریباً دو تہائی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے پڑوسی کس بات سے پریشان ہیں؟
کوئی بھی ملک باضابطہ طور پر طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا لیکن ان میں سے کچھ کے اس گروپ کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔
سنہ 2017 میں روس، چین، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا کے پانچ ممالک نے ملک میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کے ساتھ مل کر ’ماسکو فارمیٹ‘ گروپ تشکیل دیا۔
BBC
29 ستمبر کو گروپ کا اجلاس روسی جمہوریہ کے شہر کازان میں ہو رہا ہے۔ طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں۔
لندن میں قائم تھنک ٹینک آر یو ایس آئی کے اینتونیو گیوستوزی کا کہنا ہے کہ ’ان ممالک کو افغانستان میں مقیم عسکریت پسند گروپوں کے تشدد کا بنیادی خوف ہے۔‘
پاکستان تحریک طالبان پاکستان، ٹی ٹی پی، کے نام سے ایک گروپ کو مسئلے کے طور پر پیش کرتا ہے، جس کا ہیڈ کوارٹر افغانستان میں ہے۔
یہ گروپ طالبان سے الگ ہے لیکن پاکستان میں بھی ایسی ہی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جیسی کہ افغان طالبان نے افغانستان میں قائم کی ہے۔ ٹی ٹی پی برسوں سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔
روس اور دیگر ریاستیں جیسے ازبکستان کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں قائم اسلامک سٹیٹ خراسان ،آئی ایس کے پی، گروپ وسطی ایشیا میں اہداف پر حملہ کر سکتا ہے۔
سنہ 2015 میں قائم کیے گئے اس گروپ نے طالبان کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور شہریوں پر کئی بڑے حملے بھی کیے ہیں۔
افغانستان میں مقیم ایک اور گروپ جس کا نام ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، ای ٹی آئی ایم، ہے نے چین میں کئی حملے کیے ہیں۔
یہ گروپ چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس گروپ کا تعلق القاعدہ سے ہے اور طالبان نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ڈاکٹر اینتونیو گیوستوزی کہتے ہیں کہ ’طالبان نے ای ٹی آئی ایم، کے جنگجوؤں کو چین کے ساتھ افغانستان کی سرحد سے ہٹنے پر آمادہ کیا ہے۔‘
’درحقیقت طالبان افغانستان میں عسکریت پسند گروپوں سے نمٹنے کے لیے کافی مؤثر رہے ہیں حالانکہ اس گروپ کے پاس ان سے لڑنے کے لیے محدود وسائل ہیں۔‘
BBCافغانستان میں افیون کی تجارت کا کیا بنا؟
برسوں سے افغانستان دنیا میں پوست پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے، جو ہیروئن بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
سنہ 2022 میں طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی کا اعلان کیا اور سیٹلائٹ تصاویر بتاتی ہیں کہ طالبان کے آنے کے بعد پوست کا زیر کاشت رقبہ کافی حد تک کم ہوا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2022 میں افغانستان کی پوست کی پیداوار گذشتہ سال کے مقابلے میں صرف دس فیصد کم تھی اور یہ کہ ایک سال میں 250 سے 580 ٹن ہیروئن پڑوسی ممالک کو سمگل کی جا رہی تھی۔
Getty Imagesکیا افغانستان میں دیگر ممالک کے لیے مواقع ہیں؟
افغانستان میں معدنیات کے ذخائر ہیں جن میں تانبا، ماربل، سونا، تیل، قدرتی گیس، یورینیم اور لیتھیم شامل ہیں، جن کی مالیت گذشتہ حکومت نے ایک کھرب سے تین کھرب ڈالر کے درمیان بتائی تھی۔
ایک چینی کمپنی نے دارالحکومت کابل کے جنوب میں ’میس عیناک‘ میں ایک تانبے کی کان میں کام شروع کیا ہے اور دوسری چینی کمپنی نے شمال میں آمو دریا طاس میں ایک آئل فیلڈ پر کام شروع کر رکھا ہے۔
سنہ 2023 کے اوائل میں چین نے ’چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور‘ کے نام سے منصوبہ شروع کیا جسے اب افغانستان تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اینتونیو گیوستوزی کہتے ہیں کہ ’چین ایسے اشارے بھیج رہا ہے کہ وہ افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے لیکن اب تک وہاں صرف چھوٹی کمپنیاں ہی گئی ہیں۔‘