Getty Images
’امریکہ صرف امریکیوں کے لیے۔‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سب سے پرانی اور اہم خارجہ پالیسی کو یہ ایک جملہ بیان کر دیتا ہے جو 200 سال پرانا ہے۔ اسے ’منرو نظریہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
دو دسمبر 1823 کو امریکی صدر جیمز منرو نے یہ نظریہ امریکی کانگریس کے سامنے پیش کیا تھا جس میں انھوں نے یورپی طاقتوں کو امریکی براعظم سے دور رہنے کی تاکید کی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب شمالی اور لاطینی امریکہ میں سپین، فرانس اور پرتگال کے نوآبادیاتی نظام کیخلاف آزادی کی جنگیں لڑی گئیں۔
جیمز منرو نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’کوئی یورپی طاقت مستقبل میں یہاں نوآبادیاتی نظام قائم کرنے کی خوہش نہ کرے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ایسی کسی بھی کوشش کو امریکہ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ساتھ ہی انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان کا ملک بھی کسی یورپی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا۔
تاہم یہ نظریہ ایک ایسی پالیسی کا روپ دھار گیا جس کے تحت امریکی اثرورسوخ اور معاشی مفادات کے پھیلاؤ کو وسعت ملی۔
پروفیسر ایلکس برائن امریکی تاریخ کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’منرو نظریے میں وقت کے ساتھ ردوبدل ہوتی رہی ہے جس کادارومدار اس بات پر رہا کہ کون اس سے کیا مطلب اخذ کرتا ہے۔‘
دوسری جانب گزشتہ دو صدیوں میں اسی نظریے کے نام پر امریکہ نے متعدد بار لاطینی امریکہ میں سیاسی، عسکری اور معاشی مداخلت کی اور یوں لاطینی امریکہ مکمل طور پر امریکی ریاست کے زیر اثر آ گیا۔
یہ نظریہ کیوں وجود میں آیا؟Getty Imagesامریکی صدر جیمز منرو
صدر منرو کا یہ خطاب یورپ میں روس، آسٹریا اورپرشیا کا اتحاد بن جانے کے بعد سامنے آیا جو بظاہر انقلابی تحریکوں کیخلاف بادشاہت کا دفاع کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔
اس تناظر میں برطانیہ نے امریکہ کا ساتھ دیا اور صدر منرو اور ان کے وزیر خارجہ جان کوئنسی ایڈمز نے برطانوی بحری طاقت کی مدد سے براعظم امریکہ کی خودمختاری کا دفاع کرنے کی پالیسی بنائی۔
منرو نے امریکی کانگریس کو بتایا کہ ’ہم کسی یورپی طاقت کی جانب سے اپنا نظام اس خطے میں لاگو کرنے کی کوشش کو امن اور سکیورٹی کے لیے خطرہ گردانیں گے۔‘
پروفیسر ایلکس کا کہنا ہے کہ ’اس بیان کا بنیادی مطلب یہ تھا کہ براعظم امریکہ بشمول شمالی و لاطینی امریکہ میں کسی بھی جگہ نوآبادیاتی نظام قائم کرنے کی کوشش کو امریکہ اپنے قومی مفاد کے لیے خطرہ سمجھے گا۔‘
تاہم اس نظریے کو نافذ کرنا آسان نہ تھا کیوں کہ اس زمانے میں امریکہ سپر پاور نہیں بنا تھا۔
ویریمندو کریلو کہتے ہیں کہ ’امریکہ کو آزاد ہوئے بہت عرصہ ہو چکا تھا لیکن یہ کمزور ملک تھا جو اپنی سرزمین پر بھی مشرقی ساحل تک محدود تھا۔‘
ماہرین کے مطابق اس نظریے کے اثرات دہائیوں بعد دکھائی دیے خصوصا 19ویں صدی کے اختتام اور 20ویں صدی کے دوران۔
Getty Imagesوسعت کا نظریہ
کریلو کے مطابق امریکی صدر جیمز پولک نے سب سے پہلے اس نظریے کا یہ مفہوم اخذ کیا کہ امریکہ کو اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہیے۔
تب امریکہ نے میکسیکو پر حملہ کیا اور اس کی 55 فیصد زمین ہتھیا لی۔ بعد میں امریکہ نے ڈومینیکن ریپبلک اور پاناما میں بھی مداخلت کی۔
اس دوران فرانس نے 1862 میں میکسیکو میں مداخلت کی جہاں نپولین سوم نے قدامت پرستوں کی مدد سے سلطنت قائم کر لی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ منرو نظریہ ہر جگہ اور زمانے میں ایک جیسا نہیں رہا۔
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کی خانہ جنگی نے بھی کسی قسم کی مداخلت کے امکانات کو کم کر دیا تھا۔
پروفیسر ایلکس کا کہنا ہے کہ 19ویں صدی کے دوران امریکہ کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اس نظریے پر عملدرآمد کر سکتا۔
امریکی صدر ردرفورڈ نے بھی اس نظریت کی تشریح کرتے ہوئے لاطینی امریکہ اور کیریبیئن کو امریکی اثرورسوخ کا علاقہ قرار دیا۔
اس زمانے میں نکاراگوا اور پاناما سمندری تجارت کے لیے بہت اہم ہوا کرتے تھے۔ اثرورسوخ بڑھانے کی پالیسی کے تحت امریکہ نے 1898 میں کیوبا اور پورٹو ریکو کی آزادی کی جنگ میں ساتھ دیا۔
Getty Imagesامریکی ’پولیس مین‘
19ویں صدی کے اختتام پر امریکہ نے وینیزویلا اور برطانیہ کے درمیان گیانا پر تنازع کے دوران ثالثی کا کردار ادا کیا۔
1903 میں امریکہ کو ایک بار پھر اس وقت ثالث بننا پڑا جب برطانیہ نے قرضوں کی واپسی کے لیے وینیزویلا پر بحری پابندیاں لگا دیں۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے منرو نظریے میں اضافہ کیا کہ ان کا ملک کسی بھی لاطینی امریکی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکتا ہے اگر وہ ملک کسی قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔
بعد کے برسوں میں امریکہ عسکری اور معاشی طاقت بنا تو کریلو کے مطابق براعظم کی حفاظت کے بہانے امریکہ نے خود کو پولیس مین کی ذمہ داری دے دی۔
اس کردار میں امریکہ نے لاطینی امریکہ میں 30 سے زیادہ بار مداخلت کی۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کا اثرورسوخ بڑھ گیا اور پھر سرد جنگ کے دوران امریکی صدور نے کمیونسٹ خطرے کے بہانے بھی لاطینی امریکہ میں متعدد بار مداخلت کی۔
کریلو کا کہنا ہے کہ ’بہت سے نظریوں کی بات ہوتی ہے؛ ٹرومین، کینیڈی، جانسن۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ سب منرو نظریے کی تشریح تھیں۔‘
Getty Images
کیا یہ امریکی پالیسی اب بھی لاگو ہے؟
پروفیسر ایلکس کا ماننا ہے کہ ’میرے نزدیک یہ نطریہ اب بھی ماضی کی طرح ہی لاگو کیا جاتا ہے جب کہ یہ دراصل نوآبادیاتی نظام کیخلاف پیغام تھا جو اب باقی نہیں رہا۔‘
کریلو کا کہنا ہے کہ ’جس تصور نے اس نظریے کو جنم دیا وہ اب بھی فعال ہے کہ امریکہ کے پاس اپنے ہمسائیوں کے معاملات میں مداخلت کا حق ہے۔‘