BBC
جب کوئی مسجد کا ذکر کرتا ہے تو آپ کے ذہن میں پہلا خیال کیا آتا ہے؟
گنبد؟ مینار؟ سنگ مرمر؟
زیادہ تر لوگوں کے ذہن میں یہی سب آتا ہے لیکن میرے ذہن میں جو خاکہ بنتا ہے وہ اس سے کافی مختلف ہے۔
دراصل میرا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔ ہمارے ہاں مساجد، خانقاہوں، درگاہوں کی طرزِ تعمیر بہت مختلف ہے۔
یہاں گنبد کی جگہ ایک اہرام نما چھت، اور سنگ مرمر اور پتھر کی جگہ لکڑی کا استعمال عام ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کی مسجدوں، خانقاہوں اور درگاہوں کا طرزِ تعمیر خطے کی دوسری مسلم مذہبی مقامات سے اس قدر مختلف کیوں ہے؟
کشمیر میں اسلام چودہویں صدی عیسوی میں آیا۔ اس سے پہلے وہاں ہندو مذہب اور اس سے بھی پہلے بدھ مت کا بول بالا تھا۔ کشمیری مساجد بناوٹ کے لحاظ سے ہندو مندروں جیسی تو نہیں لگتیں اور تعمیر میں استعمال ہونے والا مٹیریئل بھی مختلف ہے تو کیا اس کا تعلق بدھ مت سے ہے؟
ویسے تو مجھے تاریخ اور فنِ تعمیر دونوں ہی میں بہت دلچسپی ہے، اور بچپن میں کشمیر کے بدھ مت اور ہندو ماضی کے بارے میں بہت سی کہانیاں سن رکھی ہیں لیکن مسجدوں اور خانقاہوں کی فنِ تعمیر سے متعلق یہ معاملہ تھوڑا ہمارے بس سے سے باہر کی بات ہے۔ اس لیے اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہم نے اس شعبے کے ماہر کی مدد لی۔
BBC
حکیم سمیر ہمدانی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج کے ڈائریکٹر ہیں اور کشمیر کے مذہبی آرکیٹیکچر پر بھی تحقیق کر چکے ہیں۔ اس بارے میں وہ ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں تک کشمیر کے مسلم مذہبی مقامات کا تعلق ہے اس میں آپ کو ایک ارتقائی عمل نظر آتا ہے جس میں آپ ہندو مندروں کی عکاسی بھی دیکھ سکتے ہیں اور بودھ مت کی بھی۔‘
ہمدانی کی مطابق فن تعمیر کے لحاظ سے بدھ مت، ہندو مذہب اور اسلام، تینوں مذاہب میں ایک تسلسل نظر آتا ہے۔
’جہاں تک کشمیر کی مساجد، خانقاہوں اور آستانوں کا تعلق ہے، ان کی شکل و صورت بالکل ویسی ہے جیسی کہ یہاں مندروں کی ہوا کرتی تھی۔ ان میں فرق تعمیر میں استعمال ہونے والے مٹیریئل کا ہے۔ کشمیر میں اب بھی قرونِ وسطی کے دور کے مندر موجود ہیں لیکن وہ بنیادی طور پر پتھر کے بنے ہیں۔
’اس کے برعکس آج کی تاریخ میں ہمیں جتنے بھی آستانے اور مساجد نظر آتی ہیں وہ لکڑی سے بنی ہیں یعنی مٹیریئل کے لحاظ سے فرق ہے لیکن ان کی آئیکونوگرافی، طرزِ تعمیر اور جمالیات میں آپ کو ایک تسلسل نظر آتا ہے۔‘
چیچنیا میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاحاصفہان: شاندار محلات اور دیدہ زیب مساجد والے شہر کو نشانہ بنانا اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟پرانی دلی کی ’مبارک بیگم مسجد‘ آج کل خبروں میں کیوں ہے؟
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان میں جو موٹیفس (ڈیزائن) ہیں وہ ایرانی ثقافت سے کافی متاثر ہیں جیسے کہ ختم بندھ، نقاشی وغیرہ لیکن ان عمارتوں کی مجموعی شکل و صورت ہندو مندروں جیسی ہے۔‘
اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کشمیر کے قدیم مندروں اور مسلم عبادتگاہوں کے طرز تعمیر میں ایک تسلسل ہے۔
آئیں اب آپ کو کشمیر کی کچھ مساجد اور خانقاہوں کی سیر کرواتے ہیں۔
مدین سیئبُن (مدین صاحب مسجد)BBCمدين صاحب، سرينگر
مدین صاحب مسجد قدیم کشمیری مساجد میں سب سے پرانی ہے جو اب بھی ویسے ہی کھڑی ہے جیسی بنی تھی۔
یہ مسجد 1440 میں سید محمد مدنی نے تعمیر کروائی تھی جو ایک مذہبی شخصیت بھی تھے اور تیمورد سلطنت کے کشمیر کے سلاطین سلطان سکندر اور سلطان زین العابدین کے دربار میں سفیر بھی تھے۔
سمیر ہمدانی کے مطابق ’اس مسجد کی شکل و صورت ہو بہو ویسی ہی ہے جیسی ایک مندر کی ہوتی ہے۔ یہ بالکل چوکور ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے داخلی راستے میں دو ستون ہیں اور ان پر جس طرح کا مہراببنا ہوا ہے وہ آپ کو مسلم طرزِ تعمیر میں نہیں دکھتا ہے۔ یہ ایک ٹریفوائل آرچ یا محراب کا ایسا ڈیزائن ہے جو تین حصوں میں بنا ہوتا ہے۔ اگر آپ کشمیر کے کسی بھی پرانے مندر میں جائیں جیسے کہ مارتنڈ یا اونتی پوڑا، آپ دیکھیں گے کہ ہو بہو ایسی ہی محرابیں وہاں بھی ہیں۔ اس کے کونوں پر لگے پلاسٹرز بھی ہو بہو ویسے ہی ہیں جیسے مندروں میں ہوا کرتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس کے اوپر کے چھجے کی طرزِ تعمیر کی مثال ہمیں دسویں صدی میں آلچی نامی مقام پر تعمیر کی گئی ایک بدھ مت عبادت گاہ کی صورت میں ملتی ہے جسے کشمیری کاریگروں نے تعمیر کیا تھا۔ دونوں عمارتوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ آلچی میں آپ کو مختلف طرز کی شکلیں بنی ہوئی ملیں گی جب کہ اس مسجد میں آپ کو وہ مجسمے نہیں دکھتے۔
’اس کی چھت روایتی کشمیری چھت ہے، جسے ہم برزِ پش کہتے ہیں۔ چھت کے اوپر ایک اہرام نما حصہ تعمیر کیا گیا ہے جسے ’برنگ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ چیز آپ کو ہر کشمیری مندروں میں ملے گی فرق صرف اتنا ہے کہ مسجد کا سائز بڑا ہے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ اس مسجد کا رقبہ خانہ کعبہ کی پیمائش سے ملتا جلتا ہے۔
BBCخانقاہِ معلیٰ، سرينگرخانقاہِ معلیٰ، سرينگر
یہ قدیم کشمیری فنِ تعمیر کی ایک بہترین مثال ہے۔
اس خانقاہ کو چودہویں صدی عیسوی کے اواخر میں میر محمد ہمدانی نے سلطان سکندر شاہ کے عہد کے دوران قائم کیا تھا۔
یہا٘ں پہلے میر سید علی ہمدانی کا صوفہ ہوا کرتا تھا۔ انھیں کشمیر میں شاہِ ہمدان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ہمدانی کہتے ہیں ’آپ اس کی طرز تعمیر دیکھیں تو اس میں بھی وہی پیرامِڈ نما چھت ہے جسے ہم برنگ کہتے ہیں۔ اس کے اوپر ایک چھتری نما فیچر ہے جسے کشمیری میں دستار کہتے ہیں۔ کشمیری مندروں میں بھی یہ چیز ہوتی ہے اور وہاں اسے کلش کہتے ہیں۔‘
خانقاہ بھی چوکور شکل میں ہے جیسے کے کوئی مندر ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لکڑی کی بنی ہے اور یہ کشمیر میں لکڑی کے بنی عمارت کی بہترین مثال ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ اس کا سائز مندر کے مقابلے میں بڑا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مساجد میں مسلمان اجتماعی عبادت کرتے ہیں، باجماعت نماز پڑھتے ہیں، اس لیے بڑی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ مندر میں عبادت انفرادی ہوتی ہے اس لیے اس کا سائز چھوٹا ہوتا ہے۔
’یعنی سائز اور میٹیرئیل بدل گیا ہے لیکن جو بنیادی جز ہیں وہ بالکل مندر جیسے ہیں۔‘
BBCعالی مسجد، سرينگرعیئل مشید (عالی مسجد)
جامع مسجد کے بعد کشمیر کی روایتی مساجد میں یہ سے سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ 1470 کے آس پاس سلطان حسن شاہ کے دور میں تعمیر ہوئی تھی۔
ہمدانی کہتے ہیں کہ ’عیئل مشید میں آپ کو دکھاتا ہے کہ کشمیری طرزِ تعمیر میں ایرانی فنِ تعمیر کے اثرات آہستہ آہستہ شامل ہو رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق یہ مسجد دو بار مسمار ہوئی ہے۔ پہلی بار اس کی از سر نو تعمیر عہد جہانگیر میں ہوئی اور دوسری بار اٹھارہویں صدی میں افغان دور میں سردار گل احمد کے عہد میں ہوئی۔
ہمدانی کہتے ہیں کہ عالی مسجد کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک عید گاہ میں واقع ہے۔ عموماً عید گاہوں میں مساجد نہیں ہوا کرتیں۔ وہاں محض نماز گاہیں یا قبلہ گاہیں یا مہراب بنائے جاتے ہیں۔
وہ اس کی وجہ کشمیر کے سخت موسم کو ٹھہراتے ہیں۔ کئی بار عید مسلسل سردیوں میں پڑنے کی وجہ سے عید گاہ میں مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق یہ پہلی ایسی کمشیری مسجد ہے جس کے کتبے پر آرکیٹیکٹ کا نام لکھا ہوا ہے اور یہ وہی آرکیٹیکٹ ہیں جنھوں نے کشمیر کے شنکر آچاریا مندر کی تعمیر و بحالی میں بھی مدد کی تھی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اس کی پھر مرمت ہوئی تھی۔ مرمت کے دوران اس کے برزِ پش یا روایتی لکڑی سے بنی چھت جس پر پھول اگتے تھے اس سے بدل دیا گیا۔
اس مسجد کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہاں جن رہتے ہیں۔ ہمدانی کہتے ہیں ’میں نے بھی اس مسجد کی مرمت پر کام کیا ہے، لیکن میرا سامنا کبھی کسی جن سے نہیں ہوا۔‘
BBCجامع مسجد، سرينگرجامعہ مشید (جامع مسجد)
جامعہ مشید کو کشمیر کی تاریخی عمارات میں سے سب سے بڑی اور خوبصورت تصور کیا جاتا ہے۔
یہ مسجد 1402 میں سلطان سکندر کے عہد میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر میں بھی شاہِ ہمدان کے فرزند میر محمد علی ہمدانی کا ہاتھ تھا۔
اس مسجد کی طرزِ تعمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمدانی کہتے ہیں کہ ’جہاں تک مسجد کے نقشے کا تعلق ہے تو یہ بالکل کسی ایرانی مسجد جیسا ہے جس میں چاروں سمتوں میں چار ایوان بنے ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ایوان مہراب بن جاتا ہے۔‘
یہاں فرق یہ ہے کہ اس مسجد میں پتھر کی جگہ لکڑی کے ستوں اور چھت ہے۔
ان کے مطابق اس طرح کے نقشے کی سب سے پہلی مثال عہدِ سلجوک میں اسفہان شہر میں بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد اس طرح کی مساجد ہر اس جگہ بنیں جہاں جہاں ایرانی ثقافت کا اثر پہنچا۔
’کشمیر کی تاریخ میں بڑے فخریہ انداز میں لکھا جاتا ہے کہ اس طرزِ اور سائز کی مسجد دنیا میں اور کہیں موجود نہیں۔ نہ ہندوستان میں، نہ خوراسان میں اور نہ ایران میں۔ ہاں شاید مصر یا شام میں اس طرح کی کوئی مسجد ہو تو ہو۔‘
اس مسجد کا بنیادی مزاج ایرانی ہے لیکن اس کی طرزِ تعمیر خالص کشمیری ہے جہاں میناروں اور گنبد کی جگہ برنگ بنے ہوئے ہیں۔
ہمدانی کہتے ہیں کہ یہ مسجد بھی کئی بار مسمار ہوئی ہے۔ آخری بار اس کی مرمت مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں ہوئی جب مسجد کو مسمار کر دیا گیا تھا۔
’کہتے ہیں کہ جب اورنگزیب کو پتہ چلا تو انھوں نے کہا کہ مسجد تو میں دوبارہ بنوا لوں گا، لیکن اس کے صحن میں چار چنار تھے، ان کا کیا ہوا، وہ بچے کہ نہیں بچے؟‘
کشمیر کی ان خوبصورت مسجدوں اور درگاہوں کی مخصوص طرزِ تعمیر کے پیچھے اس خطے کی تاریخ کارفرما ہے جو انھیں وسطی ایشیا ہی نہیں بلکہ اس علاقے کی اپنی روایات اور قدیم آرکیٹیکچر سے بھی جوڑتی ہے۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ کشمیر میں گنبد اور مینار والی مسجدیں ہیں ہی نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں اس طرح کی کئی مساجد ضرور تعمیر ہوئی ہیں تاہم آج بھی تعمیر ہونے والی زیادہ تر مساجد اسی روایت کا تسلسل ہیں جو آج سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے شروع ہوئی تھی۔
نوشہرہ: زمین میں دھنستی 400 برس پرانی مسجدگیان واپی مسجد کا ’سائنسی سروے‘ دیگر مسلم تاریخی عمارتوں پر ہندوؤں کے دعوے کی راہ کھول دے گا؟’شاہی عیدگاہ میں بھگوان کی مورتی رکھیں گے‘: متھرا میں ایودھیا کی تاریخ دہرائے جانے کے خدشات