Getty Images
کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ نیند کی آغوش میں جانے والے ہوں اور اچانک آپ کے آنکھ ایک بم دھماکے کی آواز سے کھل جائے مگر یہ دھماکہ حقیقت میں نہیں بلکہ صرف آپ کے دماغ کی اختراع ہو۔
اگر ایسا ہے تو آپ ایکسپلوڈنگ ہیڈ سینڈروم (ای ایچ ایس) کا شکار ہیں۔ یہ بے خوابی کا ایک پراسرار مرض ہے جس کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔
ایکسپلوڈنگ ہیڈ سینڈروم (ای ایچ ایس) پیراسومنیا نامی بے خوابی کی بیماری کی ایک قسم ہے۔ پیراسومنیا کی دیگر اقسام میں سلیپ پیرالاسز یعنی نیند میں جسمانی اعضا کا حرکت نہ کرنا، مائکولونک یا نوکٹرنل سیپازم یعنی سوتے وقت ایسا محسوس ہونا جیسے آپ گہری کھائی میں گر رہے ہیں شامل ہیں۔
ڈاکٹروں نے کم از کم سنہ 1876 میں ای ایس ایچ کی تشخیص کی تھی اور فرانسیسی فلاسفر رینے ڈیسکارٹی کو بظاہر یہ مرض لاحق تھا۔
مگر ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود بھی یہ نہایت حیران کن ہے کہ ہم اس مرض کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔
اس مرض میں مبتلا افراد عمومی طور پر نیند میں جانے کے دوران سب سے زیادہ شکایات ایک زور دار دھماکہ محسوس کرنے یا سننے کی کرتے ہیں۔
ای ایچ ایس سینڈروم کے دوران سنائی دینے والی آواز کی نوعیت بعض اوقات مختلف بھی ہوتی ہے جیسا گولی چلنے کی آواز، زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز یا کسی کے چیخنے کی آواز۔
آواز جیسی بھی ہو مگر اہم بات یہ ہے کہ یہ ہمیشہ بہت مختصر وقت جیسا کہ چند سیکنڈز یا اس سے بھی کم کے لیے سنائی دیتی ہے، بہت اونچی ہوتی ہے اور کسی بیرونی ذریعے سے نہیں آ رہی ہوتی۔
Getty Images
اس سینڈروم میں بعض افراد کو آوازوں کے ساتھ ساتھ فرضی خیالات بھی آتے ہیں جیسے بہت تیز چمکتی روشنی، کچھ افراد نے شدید گرمی اور جسم کے اوپری حصے میں بجلی دوڑنے کے احساس کے بارے میں بھی بتایا ہے۔
اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے افراد نے ای ایچ ایس سینڈروم کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ معلومات کی عدم فراہمی ہے۔ اس بارے میں آج تک محدود مطالعے ہوئے ہیں۔
ایک ابتدائی تحقیق کے مطابق 11 فیصد صحت مند افراد نے بھی ای ایچ ایس سینڈروم کی شکایات کی جبکہ کالج طالعلموں کے ساتھ کی گئی ایک اور تحقیق کے مطابق 17 فیصد نے بھی زندگی میں اس چیز کا تجربہ کیا۔
میری اپنی حالیہ تحقیق کے مطابق جس میں کالج طلبہ اور میرے ساتھی شامل تھے میں نے جانا کہ ایک تہائی افراد نے زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ای ایچ ایس کا تجربہ کیا ہے۔ جبکہ چھ فیصد کا کہنا ہےکہ انھوں نے مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ اس کا تجربہ کیا ہے۔
کیا یہ مطالعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ای ایچ ایس ایک عام حالت ہے یا کم از کم نوجوانوں میں عام ہے۔ البتہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ دیگر پیراسومنیا حالتوں کے مقابلے میں زیادہ عام نہیں ہیں۔
’سلیپ ڈائیورس‘ یا سوتے وقت کی طلاق: جوڑوں میں یہ نیا رجحان کیا ہے اور اس میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟’سلیپ اپنیا‘: نیند کے دوران سانس رکنے کی بیماری جو انڈین موسیقار بپی لہری کی موت کی وجہ بنینیند کی چھوٹی ’جھپکیوں‘ یا مائیکرو نیپس کے انسانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟وہ امراض اور خطرات جو کم دورانیے کے لیے سونے سے جنم لے سکتے ہیںکیا چیز ایکسپلوڈنگ ہیڈ سینڈروم کو متحرک کرتی ہے؟
ای ایچ ایس کی وجہ اب تک نامعلوم ہے البتہ اس متعلق بہت سے نظریات تجویز کیے گئے ہیں۔ ان میں سے سب سے مقبول نظریہ یہ ہے کہ ایک قدرتی دماغی عمل ہے جو نیند میں بے ہوشی کی حالت میں جانے کے دوران وقوع پذیر ہوتا ہے۔
کسی بھی ایک رات جب ہم نیند سے بے ہوشی کی حالت میں جاتے ہیں تو دماغ سے ریڑھ کی ہڈی کے درمیان رابطہ کاری کا عمل کم ہو جاتا ہے۔ اس عمل کو طبی اصطلاح میں برینز ریٹکیولر فارمیشن کہا جاتا ہے۔
یہ عمل دماغ کو ’آن اینڈ آف‘ یعنی سونے او جگانے کا کام کرتا ہے۔
نیند میں بے ہوشی کی حالت میں جانے کے دوران یہ عمل سست ہو جاتا ہے اور بینائی، سماعت اور جسم کی موٹر موومنٹ کرنے والے عمل بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ماہرین یہ تجویز کرتے ہیں کہ ای ایچ ایس دماغ کے اس شٹ ڈاؤن عمل کے دوران خلل پڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ اس سے سست اور بے ربط دماغی سینسر ایک دم کام کرتے ہیں۔
دماغ میں ان سینسرز کا ایک دم سے متحرک ہونا ایک اونچی آواز کے طور پر محسوس ہوتا ہے اور ای ایچ ایس کا سبب بنتا ہے۔
تاہم ای ایچ ایس کی اعصابی وجوہات کے متعلق قیاس ہے اور ہم اس متعلق اب جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ابتدائی تحقیقات میں سے ایک میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذہنی تناؤ یا دباؤ کا تعلق بھی اس کے متحرک ہونے میں ہے۔
تاہم اس کا تعلق انسومنیا یعنی نیند کے نہ آنے کی شکایات سے ہیں، دوسرے الفاظ میں ذہنی تناؤ کا براہ راست ای ایچ ایس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ابتدائی نیند کے دوران خلل پڑنے سے ہے۔
Getty Imagesکیا ای ایچ ایس خطرناک ہے؟
اگرچہ اس کا نام بہت خطرناک ہے لیکن یہ حالت خود بے ضرر ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ہم اس میں اور دیگر دماغی حالتوں میں تفریق کر سکے جیسا کے میگرین کی اقسام۔
ای ایچ ایس کی حالت بہت محتضر وقت یعنی چند سکینڈز کے لیے ہوتی ہے اور اس میں کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوتی۔ اگر کوئی درد ہو بھی تو بہت ہی معمولی اور مختصر ہوتی ہے۔
جب کہ اس کے برعکس بہت کی میگرین حالتوں میں درد بہی دیر تک اور شدید ہوتا ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ا ی ایچ ایس کا تجربہ آپ کے لیے ڈرا دینے والا نہیں ہو گا۔
تین ہزار افراد کے ایک حالیہ سروے میں 45 فیصد افراد نے کہا ہےکہ انھیں ای ایچ ایس کے تجربے کے دوران معمولی سے شدید خوف محسوس ہوا۔ یا انھیں ای ایچ ایس کے تجربے کے دوران انھیں تناؤ محسوس ہوا۔
بدقسمتی سے اس متعلق زیادہ تحقیق نہیں ہے جو اس کے ممکنہ علاج کے بارے میں بات کرے۔
ہمارے سروے کے شرکا نے بتایا کہ سوتے وقت کروٹ لینا، کمر کے بل لیٹنے سے اجتناب کرنا اور اپنی نیند کے دورانیے کو تبدیل کرنے سے اس میں کمی میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ان تمام باتوں کی افادیت کے متعلق کلینکل تجربات یا طبی بنیاد نہیں ہے۔
مگر ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ سینڈروم عام اور بے ضرر ہے۔ فی الوقت سب سے اچھا مشورہ یہ ہے کہ یہ محسوس کریں کہ یہ تجربے قدرتی ہے اور کچھ خراب یا غلط نہیں ہو رہا۔
*ڈین ڈینس یونیورسٹی آف یارک، انگلینڈ میں نفسیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کا اصل مضمون دی کونورسیشن میں شائع ہوا تھا۔
وہ امراض اور خطرات جو کم دورانیے کے لیے سونے سے جنم لے سکتے ہیںکیا کم سونا آپ کو پورا دن تروتازہ رکھ سکتا ہے؟رات کی بہترین نیند کا حصول کیسے مُمکن ہے؟