ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کی کارروائیوں کو توسیع پسندانہ خطرات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کو اسرائیل کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں اسلامک اسکولز ایسوسی ایشن میں ایک تقریب سے خطاب میں صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ اسرائیل کے تکبر، غنڈہ گردی اور اسرائیلی دہشت گردی کو صرف ایک اقدام اسلامی ممالک کے اتحاد سے روکا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ترکیہ کے مصر اور شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حالیہ اقدامات کا مقصد اس طرح کے توسیع پسندانہ خطرات کے خلاف اتحاد ہے۔
ترک صدر نے اسرائیل کو لبنان اور شام کے لیے بھی خطرہ قرار دیا۔
انادولو کی رپورٹ کے مطابق طیب اردوان نے یہ بیان فلسطین کے مغربی کنارے میں احتجاج کے دوران اسرائیل فورسز کی فائرنگ سے ترک نژاد امریکی شہری لڑکی آئیسنور ایزگی ایگی کی شہادت کے بعد دیا۔
انہوں نے ترک نژاد امریکی شہری کو نشانہ بنانے کے اسرائیلی فوج کے اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ اب وہ مغربی بینک اور غزہ دونوں اطراف نسل کشی اور ان علاقوں میں بھی قبضے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اردوان کا کہنا تھا کہ کل انہوں نے ہماری بچی آئیسنور ایزگی ایگی کو قتل کیا اور تاحال 40 ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کو شہید کردیا ہے، جن میں 17 ہزار سے زائد بچے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خون بہا رہا ہے چاہے یہ بچوں، خواتین، نوجوانوں یا بزرگوں کا ہو۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کی صورت حال محض اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک تنازع نہیں بلکہ صہیونیت کی توسیع پسندی اور مسلمانوں کی اپنے وطن کے دفاع کے درمیان جدوجہد ہے۔
طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ترکیہ اور چند دیگر اسلامی ممالک میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ تنازع ان سے مخفی ہے، جو ان کی بڑی غلطی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل صرف غزہ میں نہیں رکے اور اگر اس کی موجودہ کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو وہ مقبوضہ رملہ کا رخ کرے گا اور اس کے بعد اس کی نظریں دوسرے خطوں پر ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ لبنان اور شام اس کا اگلا ہدف ہوں گے، ان کی خواہش ہمارے مادر وطن کے تغریز اور فرات کے درمیان علاقوں کے حصول کی ہوگی۔
طیب اردوان نے کہا کہ حماس صرف غزہ کی جنگ نہیں لڑ رہی ہے بلکہ پوری اسلامی دنیا بشمول ترکیے کی جنگ لڑ رہی ہے۔
ترک صدر نے کہا کہ تمام مسلمان ممالک کو اسرائیل کے غیراعلانیہ قبضے کے خلاف ایک مؤقف اپنانا چاہیے۔