گوریلاؤں کے وہ ’ٹوٹکے‘ جو انسانوں کی ادویات بنانے میں کام آ سکتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Sep 12, 2024

Getty Images

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں پائے جانے والے گوریلے نئی ادویات کی دریافت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

افریقی ملک گبون میں محققین نے ان پودوں کا مطالعہ کیا جنھیں جنگلی گوریلے اور دیسی طریقے سے علاج کرنے والے مقامی افراد مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے چار ایسے پودوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں دوائیوں کی خصوصیات ہیں۔

لیبارٹری کے مشاہدے کے دوران پتہ چلا ہے کہ ان پودوں میں اینٹی آکسیڈینٹس اور اینٹی مائکروبیلز خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

ان میں سے ایک پودے میں سپر بگ سے لڑنے کی ممکنہ صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔

Getty Imagesکیا جانور بھی انسانوں کی طرح شعور رکھتے ہیں؟زہریلے بچھو جن کے زہر کی قیمت کئی ملین ڈالر فی لیٹر ہے مگر انھیں پکڑنے کے لیے گھپ اندھیرے کا انتظار کرنا پڑتا ہےدنیا کے پانچ چالاک ترین جانوراگر آپ بچے پالنے کا دباؤ محسوس کر رہے ہیں تو چیونٹیوں سے سیکھیں

گوریلے شفایابی کی خصوصیات کے حامل پودوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا علاج کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

حال ہی میں ایک زخمی اورنگوٹین اپنی چوٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے پودے کا پیسٹ استعمال کرنے کے لیے سرخیوں میں رہا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق میں ماہرین نباتات نے گبون کے موکلابا-ڈوڈو نیشنل پارک میں پائے جانے والے گوریلوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے پودوں کا مطالعہ کیا۔

محققین نے دیسی طریقوں سے علاج کرنے والوں کی ساتھ انٹرویوز کی بنیاد پر چار درختوں کا انتخاب کیا جن میں ان کو یقین تھا کہ شفایابی کی صلاحیات پائی جاتی ہیں۔

ان درختوں کی چھال کو دیسی علاج کرنے والے پیٹ درد سے لے کر بانجھ پن تک ہر چیز کے علاج کے لیے روایتی ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔ ان درختوں میں فینول اور فلیوونوائدز جیسے کیمیکل پائے گئے جو عموماً ادویات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

Getty Imagesگیبون حیاتیاتی طور پر دنیا کے سب سے زیادہ متنوع مقامات میں سے ایک ہے۔

تحقیق کے دوران پتہ چلا ہے کہ ان چاروں پودوں میں اینٹی بیکٹیریئل خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ ای کولی کی ایک ایسی قسم کے خلاف بھی مؤثر دکھائی دیتی ہیں جس کے خلاف عمومی طور پر دوائیاں کام نہیں کرتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان چاروں میں سے ایک درخت ای کولی کی تمام قسموں کے خلاف مؤثر ثابت ہوا ہے۔

برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کی ماہر بشریات ڈاکٹر جوانا سیچل نے گبون کے سائنسدانوں کے ساتھ اس تحقیق پر کام کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ گوریلے ایسے پودے کھاتے ہیں جو ان کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وسطی افریقہ کے برساتی جنگلات کے بارے میں ہماری معلومات کتنی محدود ہیں۔

Getty Images

گبون میں وسیع رقبے پر پھیلے ایسے جنگلات موجود ہیں جن کے بارے میں سائنسدان آج بھی بہت کم جانتے ہیں۔ یہ جنگلات ہاتھیوں، چمپینزیوں اور گوریلوں کے ساتھ ساتھ لاتعداد پودوں کا بھی گھر ہیں۔

غیر قانونی شکار اور بیماری کی وجہ سے گوریلوں کی ایک بڑی تعداد ان جنگلات سے ختم ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچرز کے ریڈ لسٹ پر انھیں انتہائی خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ تحقیق پلوس ون نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

پلائیوسار: سمندر کا سب سے خونخوار شکاری جو ’قریب سے گزرتے کسی بھی جانور کو دبوچ سکتا تھا‘وہ مائع سونا جو ’مستقبل کا ایندھن‘ بن سکتا ہےپودے خوشبو کے ذریعے باتیں کرتے ہیں!کیا جانور بھی انسانوں کی طرح خواب دیکھتے ہیں؟وہ جانور جس کی سیکس کی خواہش اس کی نسل مٹا سکتی ہے’بڑھاپا روکنے والی دوا‘ جو طویل اور صحتمند زندگی ممکن بنا سکتی ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More