"جب میں پاکستان کے موجودہ حالات دیکھتی ہوں تو میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ میرے بچے یہاں پیدا ہوئے، انہوں نے یہاں اپنی پرورش پائی۔ میں اب 56 سال کی ہوچکی ہوں اور 18 سال کی عمر سے کام کر رہی ہوں۔ جتنا بھی کام کیا، اپنے ملک کے لیے کیا، لیکن آج جو حالات ہیں، اس کی ذمہ دار صرف سیاستدان نہیں بلکہ ہم سب ہیں۔ ہم سب نے پاکستان کے زوال میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب ہماری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں بیرون ملک ایک دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح دیکھا جاتا ہے، اور میں نہیں چاہتی کہ ہمارے بچے اپنی شناخت کے بارے میں شرمندہ ہوں۔ میں صرف دعا ہی کر سکتی ہوں کہ ہم سدھر جائیں کیونکہ باہر سے کوئی نہیں آئے گا ہمیں بچانے، یہ کام ہمیں خود ہی کرنا ہوگا۔ کیا ہم نے وہ قربانیاں بھلا دی ہیں جو اس ملک کے لیے دی گئی تھیں؟"
احمد علی بٹ کی پوڈکاسٹ میں عتیقہ اوڈھو نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے کیرئیر اور ذاتی زندگی کے تجربات شیئر کیے بلکہ پاکستان کے موجودہ حالات پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دوران گفتگو وہ جذباتی ہو گئیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، جو ان کے دل میں موجود غم کی عکاسی کر رہے تھے۔
عتیقہ نے اپنے وطن کے حالات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جب بھی ملکی حالات کو دیکھتی ہیں، ان کا دل بھر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ملک کے لیے کام کرتے ہوئے گزاری، اور اب انہیں اس بات پر غصہ آتا ہے کہ ہم سب نے مل کر اس ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔
انہوں نے سیاستدانوں کے ساتھ عوام کو بھی ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ ہم سب نے اپنی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے اس حال کو پہنچنے میں کردار ادا کیا ہے۔ عتیقہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم دوسروں پر انحصار نہیں کر سکتے، ہمیں خود ہی اپنے حالات کو بہتر بنانا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ملک جاتے ہوئے انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح دیکھا جاتا ہے، اور وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے بچے اس شرمندگی کا سامنا کریں یا اپنی شناخت پر افسوس کریں۔