Getty Images
سڑکوں پر جگہ جگہ سجاوٹ اور روشنیاں، دف اور ڈھول کی تھاپ، گلیوں میں گونجنے والے مذہبی ترانے اور حمد و نعت کی محفلیں۔۔۔ یہ سب مناظر عرب دنیا کے ان مسلم ممالک میں دکھائی دیتے ہیں جہاں جشن میلاد النبی منایا جاتا ہے تاہم ان ممالک میں جشن منانے کے طریقوں اور رسومات میں فرق ہے۔
جشن میلاد النبی ایک مذہبی تہوار ہے جو ہر سال قمری سال کے تیسرے ماہ یعنی ربیع الاول کے مہینے میں منایا جاتا ہے تاہم پیغمبر اسلام کی درست تاریخ پیدائش کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
مختلف مسالک میں جشن میلاد النبی کے حوالے سے نظریات بھی مختلف ہیں۔ ایل سنت 12 ربیع الاول کے دن جشن مناتے ہیں جبکہ اہل تشیع اسی مہینے کی 17 تاریخ کو جشن میلاد النبی مناتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ہم کچھ عرب ممالک کے اس دن سے منسلک چند انوکھی رسومات کا جائزہ لیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جاننے کی کوشش کی گئی کہ عرب دنیا میں اس روایت کا آغاز کیسے اور کب ہوا؟
جشن میلاد النبی کی روایت کی ابتدا
تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے جشن میلاد النبی باقاعدگی سے منایا وہ عراق کے شہر اربیل کے حکمران شاہ ابو سعید کوکبری تھے۔
ان کے بعد مصر میں فاطمیوں کے دور میں اس روایت کا آغاز ہوا اور تقریبات کا آغاز ایک خلیفہ کے 969 عیسوی میں مصر میں داخل ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق یہ تقریبات خلیفہ کا مصریوں سے قربت کا ذریعہ تھیں۔
یہ تقریبات ایوبی دور میں غریب مسلمانوں میں رقوم تقسیم کرنے، شاعری اور ترانے پڑھنے سے عثمانیوں کے دور میں بڑی شاندار تقریبات سے مختلف تھیں۔
مصر میں گھوڑوں کا جلوسGetty Images
مصر جشن میلاد النبی کے حوالے سے سب سے مشہور ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مصری ثقافت میں فاطمی دور سے جڑی اس تہوار کی روایات ہیں۔
اس مقدس مذہبی تہوار کے موقع پر سڑکوں اور مساجد کو روشنیوں سے سجا دیا جاتا ہے اور روایتی طور پر چراغ اور لالٹینوں سے منور کیا جاتا ہے۔
مصر میں جشن میلاد النبی کافی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کی پیدائش کے دن خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، سیرت نبوی پر خطبات دیے جاتے ہیں اور تقریبات کے دوران مشروبات اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔ مصر میں اہل تصوف ایک جلوس بھی نکالتے ہیں جو قدیم قاہرہ کی گلیوں سے ہوتا ہوا الحسینی مسجد تک پہنچ جاتا ہے۔
تاہم ایک انوکھی روایت مصر کے کچھ دیہات میں ’گھوڑوں کی پریڈ‘ کے نام سے ایک روایتی جلوس کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس جلوس میں گھوڑوں کو مختلف رنگ اور ڈیزائن کی چادروں سے سجایا جاتا ہے۔ ان گھوڑوں کے ساتھ جلوس کے شرکا سڑکوں پر موم بتیاں اٹھائے چلتے ہیں۔
مصر کے اس جشن میں لڑکوں کے لیے گھوڑے اور لڑکیوں کے لیے گڑیوں کی شکل کی خاص مٹھائیاں بنتی ہیں۔ یہ دونوں مصری ثقافت کا اہم حصہ ہیں اور ان کو میلاد کی تقریبات میں لازمی شامل کیا جاتا ہے۔
پرانے زمانے میں گڑیا اور گھوڑے چینی سے بنائے جاتے تھے اور انھیں خوش رنگ کپڑے پہنا کر سجایا جاتا تھا تاہم وقت کے ساتھ ان کو پلاسٹک سے بنایا جانے لگا۔
قاہرہ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر آیا جمال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’والدین اس خاص موقع پر اپنے بچوں کو گڑیا اور گھوڑا بطور تحفہ دیتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیےحضرت خدیجہ: جن کی کاروباری ذہانت نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالیمسجدِ نبوی: مٹی کے کمرے سے دنیا کی دوسری بڑی مسجد تکدس رمضان: یوم باب الاسلام اور محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے نقطۂ آغاز کی کہانیغزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟دولہا کا دلہن کو مٹھائی کے ساتھ گڑیا کا تحفہ
مصری لوک کہانیوں کی مصنفہ اور محقق ڈاکٹر عزہ عزت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نسل در نسل روایات میں سے ایک رواج یہ ہے کہ دولہا اپنی دلہن کو مٹھائی کے ساتھ گڑیا بھی تحفے میں دیتا ہے۔‘
دلہن اور گھوڑے کی کہانی کی ابتدا کے بارے میں ڈاکٹر آیا جمال کہتی ہیں کہ اس روایت کا تعلق فاطمی دور سے ہے۔ وہ اس حوالے سے گردش کرنے والی دو روایتوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
Getty Images
آیا جمال کے مطابق پہلی روایت کہتی ہے کہ ’فاطمی حکمران پیغمبر اسلام کی ولادت کے دن اپنے گھوڑے پر سوار اپنی بیویوں میں سے سفید لباس پہنے ایک بیوی کے ساتھ تھے اور یہیں سے حکمرانوں میں مصری دلہن اور گھوڑے کی مٹھائیاں بنانے کا رواج ہوا۔‘
دوسری روایت پر ان کا کہنا ہے کہ ’ایک حاکم نے حکم جاری کیا جس میں شادی کی تقریب سمیت تمام تقریبات پر پابندی لگا دی گئی سوائے پیغمبر اسلام کے یوم ولادت کی تقریب کے۔ تو اس پابندی کے باعث مصری شادی کی تقریبات منعقد کرنے کے لیے اس دن کا انتخاب کرتے تھے اور دولہے کے خاندان والے دلہن کو تحفے کے طور پر مٹھائی پیش کرتے تھے۔‘
مصری لوک داستانوں کی مصنفہ اور محقق عزہ عزت کے مطابق مصر میں اس موقع پر روایتاً بطخ پکانا پسند کیا جاتا ہے جسے خاندان کے افراد ایک دسترخوان پر اکٹھے ہو کر کھاتے ہیں۔
Getty Images
’کچھ مصری سال کے اس وقت عمرہ کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور وہ اسے 'یوم ولادت کا عمرہ' کہتے ہیں۔‘
مراکش میں موم بتی جلوسGetty Images
جشن میلاد النبی مراکش کے لوگوں کے لیے بھی ایک اہم مذہبی موقع ہے جو اسے مختلف تاریخی رسومات کے ذریعے آج تک مناتے ہیں۔
مراکش کی لوک داستانوں کے محقق ڈاکٹر اسامہ خدروئی نے بی بی سی کو بتایا ’پیغمبر اسلام کی سالگرہ کے بہت سے نام ہیں اور مراکش میں ہمیں وہ لوگ ملتے ہیں جو اسے پیغمبر کا یوم پیدائش، میلودیہ یا سید میلود کہتے ہیں۔‘
ماہ ربیع الاول کے آغاز سے 12 تاریخ تک روزانہ تمام مساجد میں نماز مغرب کے بعد سیرت نبوی اور فضائل نبوی پر درس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ حمد و ثنا بھی ہوتی ہے۔
اس دوران ہر شہر کی جامع مسجد میں بڑی تقریبات کا آغاز ہوتا ہے، جہاں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، پھر امام ایک مختصر خطبہ دیتے ہیں اور پھر سب مقدس کلمات کی ادائیگی کرتے ہیں۔ تقریب کا اختتام دعا، کھجور اور دودھ کی تقسیم کے ساتھ ہوتا ہے اور خواتین چھتوں پر چڑھ کر نعرے بھی لگاتی ہیں۔
Getty Images
مراکش کی لوک داستانوں کے محقق ڈاکٹر اسامہ خدروئی بتاتے ہیں کہ ہر شہر کی بہت سی رسومات مختلف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان رسومات میں سب سے اہم ’موم بتی کا جلوس‘ ہے جو مراکش کے مغربی شہر سلا میں منعقد کیا جاتا ہے۔
اسامہ خدروئی نے مزید کہا کہ اس شہر میں 11 ربیع الاول کو ایک منفرد مذہبی تہوار منایا جاتا ہے، جس میں موم بتیوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ عشائیہ کا اہتمام کر کے تمام شرکا کو مدعو کیا جاتا ہے اور حاضرین موسیقی کی دھنوں پر رقص کرتے ہیں۔
تیونس کے تاریخی شہر قیروان میں جشن
تیونس کے تاریخی شہر قیروان میں مختلف شہروں اور ممالک سے زائرین آتے ہیں اور وہاں شہر کے چوک اور مساجد میں مذہبی ترانے خواتین کی آوازوں میں گونجتے ہیں۔
افریقہ کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک عقبہ بن نافع مسجد میں ہر سال ایک سرکاری مذہبی جشن منایا جاتا ہے۔ اس دن قرآن حفظ کرنے والوں میں اسناد تقسیم کی جاتی ہیں۔
ملک بھر میں مشہور مٹھائی ’زکوکو‘ کے بغیر جشن مکمل نہیں ہوتا۔ اسے حلب کے پہاڑی گری دار میوے سے بنایا جاتا ہے، جسے پاؤڈر بنا کر اچھی طرح پکایا جاتا ہے، پھر اسے چینی کے ساتھ میٹھا کر کے مختلف قسم کے خشک میوہ جات سے سجایا جاتا ہے۔
مہندی لگانے کی عراقی رسمGetty Images
عراق میں مرکزی جشن 11 اور 12 ربیع الاول کی درمیانی رات کو دارالحکومت بغداد کے قریبی شہر ادھمیہ میں امام ابو حنیفہ مسجد میں منایا جاتا ہے۔
اسلام کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آیات قرانی کی تلاوت اور حمد کے اجتماعات منعقد کرتے ہیں۔
بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں عراقی صحافی حیدر البصیر اس روایت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مسجد ابو حنیفہ کے اطراف کے چوکوں اور گلیوں کو پھولوں، جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے اور شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔‘
البصیر مزید کہتے ہیں ’جشن کے اختتام کے بعد، خاندان سحر کے وقت تک دریائے دجلہ کے کنارے جمع ہوتے ہیں، جشن مناتے اور رات کا کھانا کھاتے ہیں، نیز بکلاوا، جلیبی اور گاجر کے حلوے کا تبادلہ کرتے ہیں۔‘
Getty Images
جشن میلاد النبی کی تقریبات پورے ایک ہفتے تک جاری رہتی ہیں۔ اس دوران غریبوں میں خیرات اور امداد تقسیم کی جاتی ہے اور عام لوگوں کے لیے کھانے کی دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
البصیر کا کہنا ہے کہ ’پیغمبر اسلام کی پیدائش کے دن خاندان اور خاص کر کے سنی خاندان عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی طرح ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں۔‘
بی بی سی سے اپنے انٹرویو میں عراقی لوک داستانوں کے محقق عادل الاردوی نے جشن میلاد النبی کے ہفتے کے دوران خاص روایات کے حوالے سے بتایا کہ ’کچھ لوگ اپنے ہاتھ مہندی سے رنگتے ہیں، کچھ اپنے بچوں کا ختنہ کرتے ہیں اور کچھ لڑکیوں کی ان دنوں میں شادی کی تقریبات ہوتی ہیں۔ ان دنوں میں اگر ماں بچے کو جنم دیتی ہے تو اس کا نام عموماً محمد، احمد یا مصطفیٰ رکھا جاتا ہے۔‘
Getty Images
شمالی عراق کے خطے کردستان میں سنی کرد صوفی طریقے سے اس جشن کو مناتے ہیں جسے ’کسنازانیہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس طریقے کے تحت جشن میلاد النبی کی رات وہاں کے لوگ ’من السما‘ جیسی خاص مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔
17 ربیع الاول کو اہل تشیع جشن میلاد النبی مناتے ہیں اور اس دن وہ نجف شہر میں امام علی بن ابی طالب کے مزار اور کربلا شہر میں امام حسین کے مزار پر جاتے ہیں۔
Getty Imagesوہ ممالک جہاں سرکاری طور پر جشن میلاد النبی نہیں منایا جاتا
شام، لبنان، اردن اور فلسطین میں لوگ جشن میلاد النبی پر اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور آپس میں مبارکباد اور کھانے کا تبادلہ کرتے ہیں۔
دمشق میں اموی مسجد میں ایک بڑے مذہبی جشن کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں خواتین، مرد اور بچے شریک ہوتے ہیں۔
شمالی مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر نابلس میں اس دن کی مناسبت سے عمارتیں سجی ہوتی ہیں اور رنگ برنگے جھنڈوں والے جلوس شہر کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔ شہر کے لوگ اس موقع پر کنافہ اور نمرہ تقسیم کرنے میں مشہور ہیں۔
اگرچہ بہت سے عرب اور اسلامی ممالک پیغمبر اسلام کے یوم ولادت کا جشن مناتے ہیں لیکن کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اس دن تقریبات کا اہتمام نہیں ہوتا۔ سعودی عرب اور قطر میں سرکاری طور پر جشن میلاد النبی نہیں منایا جاتا۔
سعودی عبدالعزیز بن باز کے مطابق (1912-1999) شریعت میں پیغمبر اسلام کا یوم ولادت منانے کی اجازت دینے کا حوالہ نہیں۔
مدینہ: سلمان فارسی سے منسوب کنواں زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا، مگر اس جگہ کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیاکیا روزے کا تصور اسلام سے قبل بھی موجود تھا اور اسلام میں اس کا آغاز کب ہوا؟راہل گاندھی نے پارلیمان میں اپنی پہلی تقریر میں پیغمبر اسلام کا ذکر اور قرآنی آیت کا حوالہ کیوں دیا؟ایک معبود کے قائل نیوٹن، جنھوں نے مذہب کے بارے میں اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا