پاکستان میں گدھے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی اسے حقیر جانور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دیہات کی کچی پگڈنڈیوں سے لے کر شہروں کے گلی کوچوں تک، گدھا وہ بوجھ اٹھاتا رہا ہے ج انسانوں کے بس سے باہر ہوتا ہے۔
کسان کے لیے کھاد اور فصلیں ڈھونے سے لے کر اینٹوں اور پانی کی ترسیل تک، یہ جانور ہمیشہ ہی جُتا ہوا نظر آیا۔ پاکستان میں جب بھی اقتصادی سروے میں گدھوں کی تعداد کا ذکر آتا ہے تو یہ خبر ہنسی مذاق کا موضوع بن جاتی ہے اور اخبارات اور ٹی وی چینلز اس کو فکاہیہ خبر کے طور پر ہی شائع یا نشر کرتے ہیں۔
مگر جمعرات کو اسلام آباد کے ایک معروف فائیو سٹار ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں گدھے کے بارے میں اس تصور کو بدلنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ اس تقریب کو ڈونکی ڈیویلپمنٹ فورم کا نام دیا گیا تھا۔
کانفرنس میں چین اور پاکستان کے نمائندوں کی تقاریر اور کاروباری وفود کی شرکت نے اس بات کو اجاگر کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گدھے کو صرف محنت کش جانور نہیں بلکہ ’معاشی اثاثہ‘ مانا جائے۔
یہ کانفرنس دراصل پاکستان اور چین کی کمپنیوں، وزارتِ غذائی تحفظ کے حکام اور دیگر متعلقہ محکموں کی مشترکہ کاوش تھی جس کا مقصد گدھوں کی افزائش، بہتر پرورش، بیماریوں سے بچاؤ، خوراک اور پھر انہیں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ گدھوں کی کھال اور گوشت عالمی مارکیٹ میں کس طرح برآمد کر کے پاکستان کے لیے زرِمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر ایک مفصل ’اعلامیہ‘ بھی جاری کیا گیا۔ اس میں گدھوں کے غیرقانونی ذبح اور ان کی مصنوعات کی سمگلنگ کو روکنے کا عہد کیا گیا اور یہ طے پایا کہ صرف قانونی، رجسٹرڈ اور شفاف طریقے سے اس صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ پائیداری اور منصفانہ تجارت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ مقامی گدھوں کے جینیاتی وسائل کو محفوظ بنایا جائے گا اور کسی بھی غیرذمہ دارانہ تجارتی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
مقامی ثقافت اور مذہبی حساسیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان میں گدھوں کی مصنوعات مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں کی جائیں گی اور اگر ذبح کا عمل کیا بھی جائے تو وماہر افراد کے ذریعے اور انسانی طریقے سے ہوگا اور اس میں پاکستان کے اسلامی قوانین کو سامنے رکھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے سلاٹر ہاؤس گوادر میں چین کے زیرانتظام تجارتی مرکز میں قائم کیا جائے گا۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان میں ’اوورسیز چراگاہیں‘ بنائی جا سکتی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اس موقع پر اردو نیوز سے گفتگو میں ’چائنا چیمبر آف کامرس اِن پاکستان‘ کے چیئرمین وانگ ہوئی ہوا نے کہا کہ سی پیک کے وسیع فریم ورک کے تحت ’چائنہ پاکستان ڈونکی انڈسٹری ڈویلپمنٹ فورم‘ کا شاندار افتتاح دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئی جہت کا آغاز ہے۔
وانگ ہوئی ہوا کے مطابق چین اور پاکستان ہمہ موسمی تزویراتی شراکت دار ہیں اور سی پیک کی بدولت زرعی شعبے سمیت مختلف میدانوں میں تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گدھوں کی افزائش ایک ایسا شعبہ ہے جو کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور ترقی کے نئے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ چین نے اس صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ پاکستان کے پاس دنیا کے بڑے ڈونکی وسائل موجود ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فورم دونوں ملکوں کے درمیان جینیاتی افزائش، بیماریوں سے بچاؤ، مصنوعات کی پروسیسنگ اور معیار کے حوالے سے تعاون کو فروغ دے گا۔ ’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ تعاون دونوں ملکوں کے کسانوں کے لیے خوشحالی، غربت کے خاتمے اور زرعی ترقی میں نئی راہیں کھولے گا۔‘
چین کی ’ڈونگے کاؤنٹی ایس ہائیڈ گلو انڈسٹری ایسوسی ایشن‘ اس کانفرنس میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ادارہ 2014 میں قائم ہوا اور اس وقت اس کے 100 سے زائد ارکان ہیں جو براہ راست گدھے کی کھال سے بننے والی مخصوص مصنوعات ’ایجو‘ تیار کرتے ہیں۔ چین میں ایجو کو ایک قیمتی دوا اور کاسمیٹک پراڈکٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ منصوبوں میں مقامی مزدوروں کو ترجیح دی جائے گی۔ فوٹو: اردو نیوز
ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے اسلام آباد کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان جیسے ممالک میں گدھوں کی افزائش کے وسیع امکانات ہیں، اور اگر اس عمل کو منظم اور سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو پاکستان عالمی سطح پر ایک بڑی سپلائی چین کا حصہ بن سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان میں ’اوورسیز چراگاہیں‘ تعمیر کی جا سکتی ہیں، جہاں گدھوں کی افزائش اور انڈسٹریل پروسیسنگ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔
کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کے لیے گدھے آمدورفت اور مزدوری کا واحد ذریعہ ہیں۔ اگر یہ منصوبے عملی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ان کے لیے نئی روزگار کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ کسان نہ صرف اپنی زمین پر پیداوار لے سکیں گے بلکہ اپنے پالتو جانور کو عالمی مارکیٹ کے ساتھ جوڑنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔
اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ گدھے کی صنعت سے وابستہ منصوبوں میں مقامی مزدوروں کو ترجیح دی جائے گی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی جائے گی۔