پنجاب میں طوطوں کی رجسٹریشن لازمی، نئے ضوابط کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اردو نیوز  |  Sep 18, 2025

لاہور کی فضا میں اُڑتے سبز پروں والے طوطے کبھی ہمارے شہروں کی پہچان تھے۔ صحن میں آم کے درخت پر بیٹھا ’مٹھو‘ بچوں کو ہنساتا تھا اور بازار میں پنجروں میں سجے رنگ برنگے پرندے ہر آنکھ کو لُبھاتے تھے، مگر اب یہ مناظر کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

اسی پس منظر میں پنجاب حکومت مقامی طوطوں کی بقا اور غیرقانونی تجارت پر قابو پانے کے لیے ایک نیا ضابطہ لے کر آئی ہے۔

 پنجاب حکومت کے اس نئے ضابطے کے تحت مقامی طوطوں کو پالنے کے لیے اب لائسنس لینا ہو گا اور اس کی فیس بھی ادا کرنا ہو گی۔ 

قانون سازی کی جھلکپنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کابینہ کو بھیجی گئی سمری منظور کر لی گئی ہے جس میں طوطوں کی چار مقامی نسلوں کو ریگولرائز کیا گیا ہے۔سمری کے مطابق ان پرندوں کی رجسٹریشن لازمی ہوگی، فی طوطا ایک ہزار روپے فیس ادا کرنے کے بعد بریڈرز کو لائسنس جاری کیا جائے گا۔ قید میں پائے جانے والے پرندے باقاعدہ کوڈ کے ذریعے شناخت کیے جائیں گے جبکہ جنگل میں موجود آبادی کو ’تحفظ یافتہ‘ کا درجہ دے کر اُن کے قدرتی مساکن کی حفاظت کی جائے گی۔ برصغیر میں طوطوں کی کہانی طوطا برصغیر کے کلچر اور تاریخ کے ساتھ ہمیشہ سے جُڑا رہا ہے۔ مغل دور میں یہ شاہی مشغلہ تھا۔ اکبر کے دربار میں قیمتی طوطے تحفے کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ پنجابی اور اردو شاعری میں ’مٹھو‘ کا استعارہ معصومیت اور محبت کے لیے آتا ہے، تاہم وقت کے ساتھ شہروں کے پھیلاؤ، درختوں کی کٹائی اور غیر قانونی پکڑ نے اِن کی آبادی کم کردی ہے۔ طوطوں کی کن چار اقسام کو ریگولرائز کیا گیا ہے؟ پاکستان میں طوطوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں مگر یہ چار نسلیں سب سے زیادہ نمایاں، تجارتی اہمیت کی حامل اور خطرے میں ہیں۔ الیگزینڈرین طوطا سب سے بڑا اور قیمتی ہے۔ سبز بدن، کندھے پر سُرخ دھبہ اور نر کے گلے میں گلابی ہار اِس کی پہچان ہے۔ یہ کبھی بادشاہوں کے دربار کی زینت تھا، اسی لیے آج بھی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ 

روز رِنگڈ یا مٹھو وہ طوطا ہے جو گھروں میں باتیں نقل کرتا ہے اور بچوں کا دوست بنتا ہے (فائل پِکسابے)

ایک بالغ پرندہ 25 سے 50 ہزار روپے تک فروخت ہوتا ہے۔ روز رِنگڈ یا مٹھو سب سے عام نسل ہے۔ نر کے گلے میں کالا اور گلابی حلقہ ہوتا ہے۔ یہی وہ طوطا ہے جو گھروں میں باتیں نقل کرتا ہے اور بچوں کا دوست بنتا ہے۔اس نسل کے طوطے کی قیمت کم ہے، چند سو سے ہزار روپے تک، لیکن اس کی جنگلی آبادی تیزی سے سُکڑ رہی ہے۔ سلیٹی سر والا طوطا نسبتاً کم پہچانا جاتا ہے۔ یہ طوطا شمالی پہاڑی علاقوں کا رہائشی ہے اور سر پر خاکستری رنگ اِس کی خاص پہچان ہے۔ سردیوں میں وادیوں کی طرف اُترتا ہے اور پرندوں کے شوقین اسے قیمتی گردانتے ہیں۔ گلابی سر والا یا پلم ہیڈڈ طوطا سب سے دلکش نسلوں میں سے ایک ہے۔ نر کا سر گلابی جبکہ مادہ کا نیلا مائل ہوتا ہے۔ اپنی خُوب صورتی کے باعث یہ پرندوں کے شوقین افراد میں مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں ایک جوڑا 15 سے 20 ہزار روپے تک مل جاتا ہے۔ ان نسلوں کو سب سے بڑا خطرہ غیرقانونی شکار اور سمگلنگ سے ہے۔ کراچی اور لاہور کے پرندوں کے بازار اِن کی تجارت کے مراکز ہیں۔ جنگلات کی کٹائی نے بھی اِن کے قدرتی مساکن کم کر دیے ہیں۔ 

اب فی طوطا ایک ہزار روپے فیس ادا کرنے کے بعد پنجاب میں بریڈرز کو لائسنس جاری کیا جائے گا (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

اگرچہ قید میں اِن کی افزائش بڑھ رہی ہے لیکن جنگل میں تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں یہ پرندے صرف تصویروں اور کتابوں میں باقی رہ جائیں گے۔ تاہم اس ضابطے کی منظوری کے بعد صوبائی دارالحکومت لاہور کے پرندہ بازاروں میں سے یہ چاروں اقسام کے طوطے غائب ہو گئے ہیں۔ کئی دکان داروں کا کہنا ہے کہ محکمہ وائلڈ لائف والے اُٹھا کر لے گئے ہیں۔ دوسروں نے خود ہی یہ طوطے دکانوں کے بجائے اب گھروں میں رکھ لیے ہیں۔ اس نئے ضابطے کے بعد طوطوں کی خروید و فروخت کے شوقین افراد حکومت سے خوش نظر نہیں آرہے۔آسٹریلوی یا دیگر درآمدی طوطے اس نئے ضابطے کے تحت نہیں آتے۔ صوبائی حکومت کے یہ نئے قوانین صرف مقامی نسل کے طوطوں کے لیے ہیں۔ 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More