Getty Images
محققین نے کافی عرصے سے چیونٹیوں اور انسانی آبادیوں میں پائی جانے والی مماثلت پر توجہ دی ہے خصوصی طور پر ان کے معاشرتی اور آپس کے تعلقات پر۔ تاہم اب سائنسدان چیونٹیوں کے پیچیدہ رویوں پر بہتر طریقے سے روشنی ڈالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
’فلوریڈا کارپینٹر‘ نامی بھورے رنگ کی چیونٹیوں میں محققین نے ایک غیر معمولی چیز دیکھی اور حالیہ تحقیق کے مطابق یہ چیونٹیاں ساتھی چیونٹی کی جان بچانے کے لیے اس کی ٹانگ تک کاٹ دیتی ہیں۔
ایرک فرینک ورزبرگ یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات ہیں جو اس تحقیق میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حیوانوں میں یہ پہلا موقع ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ کسی کے جسم کا ایک حصہ زندگی بچانے کے لیے کاٹا یا الگ کیا گیا ہو۔‘
یہ ایک ایسے رویے کی نشان دہی ہے جس کے تحت غیر معمولی طور پر جانوروں میں سرجری کی طرز پر ایک عمل کو دیکھا گیا۔
اگرچہ چیونٹیوں میں زخمیوں کا خیال رکھنے اور کالونی کے دفاع میں جان دینے کے واقعات پہلے بھی دیکھے گئے ہیں تاہم براہ راست زندگی بچانے کا عمل دیکھے جانے کا یہ پہلا ایسا واقعہ ہے جو چیونٹیوں کے رویوں اور ان کے پیچیدہ لیکن بے لوث عمل کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
دفاع کی لڑائی
چیونٹیوں کے معاشرے میں ایسے رویوں کی بہتات ہائی جاتی ہے جو انسانی رویوں جیسے ہیں۔ کچھ چیونٹیوں میں پتے اور لکڑی کے ٹکڑے جمع کرنے کے بعد ان کے ذریعے خوراک بنا کر محفوظ رکھنے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
ایک دن میں نے اپنے گھر کے دروازے پر دیکھا کہ ایک چیونٹی ایک دوسری چیونٹی کا سر اٹھائے اس کے بے جان جسم کو گھسیٹ رہی تھی۔
بنگلور کے ڈاکٹر پریادرشن کا کہنا ہے کہ ’چیونٹیوں میں بھی تنازعے ہوتے ہیں خصوصا مختلف اقسام کی چیونٹیوں کے درمیان جن کا ایک دوسرے کی کالونی سے تعلق نہ ہو اور یہ جھگڑے اکثر خوراک سے جڑے ہوتے ہیں۔‘
لیکن چیونٹیوں کا ایک عجیب رویہ وہ ہے جس میں دوسری قسم کی چیونٹیوں کے کالونی پر حملہ کیا جاتا ہے اور ان کے انڈوں کو اغوا کرنے کے بعد پیدا ہونے والی چیونٹیوں کو غلام بنا کر ان سے کام لیا جاتا ہے۔
گوا کی ڈاکٹر بیدیا کا کہنا ہے کہ ’غلام بنانے والی چیونٹیاں یہ کام اپنی کالونی کی دیکھ بھال کے لیے کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کا مقصد دوسری کالونی کے وسائل کو اپنے لیے حاصل کرنا ہوتا ہے۔‘
بنگلور کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والی سہاناشری کا کہنا ہے کہ ’ایسی لڑائیوں میں چیونٹیاں اپنی کالونی کا بہت شدت سے دفاع کرتی ہیں لیکن اگر ان کی ملکہ کو گرفتار کر لیا جائے تو ان کا دفاع ختم ہو جاتا ہے اور وہ ایک طرح سے ہتھیار پھینک دیتی ہیں۔‘
چیونٹیوں کی ’ملکہ‘
چیونٹیوں کی کالونی میں ملکہ کے علاوہ مرد چیونٹیاں، کام کرنے والی چیونٹیاں اور سپاہی چیونٹیاں ہوتی ہیں اور ہر کسی کا مخصوص کردار ہوتا ہے۔
زیادہ تر چیونٹیاں مادہ ہوتی ہیں لیکن سب تولیدی صلاحیت کی حامل نہیں ہوتیں۔ تولیدی صلاحیت کی حامل چیونٹیوں کو ’ملکہ‘ کہا جاتا ہے۔
مرد چیونٹیاں تعداد میں کم ہوتی ہیں لیکن ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ ملکہ کی مدد سے بچے پیدا کریں۔
ڈاکٹر بیدیا کا کہنا ہے کہ ’ملکہ چیونٹی کالونی کے لیے ضروری ہوتی ہے اور اگر وہ غائب ہو جائے تو کالونی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور اسی لیے باقی چیونٹیاں کسی بیرونی حملے کی صورت میں اپنی جان کی قربانی سے گریز نہیں کرتی ہیں۔‘
BBCکالونی میں ملکہ کے لیے الگ جگہ ہوتی ہے
ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ جنسی عمل سے پہلے ملکہ چیونٹیاں اور تولیدی صلاحیت رکھنے والی مردانہ چیونٹیاں ایک رسم میں شریک ہوتے ہیں جس میں ملکہ کسی مختلف کالونی سے ایک مرد چیونٹی کو ہوا میں اڑ کر چنتی ہے اور زمین پر نیچے اترنے کے بعد اپنے پر کھو دیتی ہے اور زیر زمین ایک نئی جگہ پر انڈے دیتی ہے۔ ان انڈوں سے ایسی چیونٹیاں نکلتی ہیں جو نئی کالونی کو وسعت دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
اور اسی سے ملکہ چیونٹی کا اہم کردار واضح ہوتا ہے کہ ان کی گرفتاری سے کس طرح پوری کالونی ختم ہو سکتی ہے۔
اگر دنیا سے شہد کی مکھیاں ختم ہو گئیں تو انسانوں کو کیا خطرہ ہو گا؟کیا جانور بھی انسانوں کی طرح شعور رکھتے ہیں؟رسل وائپر: وہ خطرناک سانپ جس کا زہر انسانی اعضا کو ناکارہ کر دیتا ہےڈارون نامی مینڈک کی اُلٹ پُلٹ سیکس لائف جس نے سائنسدانوں کی دلچسپی حاصل کیچیونٹیوں کی کالونی
چیونٹیوں کی کالونی میں کردار واضح ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بیدیا کا کہنا ہے کہ ان کی رابطہ کاری بہت بہترین ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ چیونٹیوں کی کالونی میں انفرادیت کے بجائے اجتماعی فرائض اور مفادات اہمیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر بیدیا کا کہنا ہے کہ ’تمام حیاتیات کا بنیادی مقصد صحت مند نئی نسل کے ذریعے جینیات کی منتقلی ہوتی ہے۔ چیونٹیوں کی کالونی میں بنیادی طور پر سب بہنوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے جینیات تقریب 75 فیصد تک ملتے ہیں لیکن صرف ملکہ تولیدی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے انڈے کالونی کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اسی لیے چاہے مزدور ہوں یا سپاہی، سب چیونٹیاں ملکہ کی حفاظت اور خوراک کا بہت خیال رکھتی ہیں۔‘
چیونٹیاں ایک دوسرے سے رابطہ کیسے کرتی ہیں؟
چیونٹیاں رابطے کے لیے اپنے اینٹینا پر انحصار کرتی ہیں جو بہت حساس ہوتے ہیں اور روز مرہ امور کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب کوئی چیونٹی ایسی خوراک کا ذریعہ تلاش کرتی ہے جو اکیلے واپس لے جانا ناممکن ہو تو وہ اس مقام کی نشان دہی ’فیرومونز‘ سے کرتی ہے۔ یہ کیمیائی لکیر ایک ’جی پی ایس‘ نظام کی طرح کام کرتی ہے جس سے دیگر چیونٹیاں اس مقام تک پہنچ سکتی ہیں۔
ڈاکٹر دھرمراجن کا کہنا ہے کہ ’اگر چیونٹیاں اپنا اینٹینا کھو دیں تو ان کے لیے سفر کرنا، رابطہ کرنا اور خطرے کا احساس کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ ان کے زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔‘
کالونی کی خوراک
چیونٹیاں ایک انوکھے طریقے سے باقی چیونٹیوں کو خوراک تک بلانے، اسے محفوظ مقام تک لے جانے اور پھر مل کر اسے کھانے کا نظام رکھتی ہیں۔
یہ نظام ان تصاویر میں واضح کیا گیا ہے۔
BBCچیونٹیاں اپنے جسم سے خارج ہونے والے کیمیائی مادے سے خوراک کی نشان دہی کرتی ہیںBBCیہ کیمیائی لکیر ایک ’جی پی ایس‘ نظام کی طرح کام کرتی ہےBBCخوراک کی نشان دہی کے بعد دیگر چیونٹیاں اپنے حساس نظام کی مدد سے اسے تلاش کر لیتی ہیں
یہی پیچیدہ رابطہ کاری کا نظام چیونٹیوں کی دنیا اور پیچیدہ زندگی کا اہم حصہ ہے۔
گوریلاؤں کے وہ ’ٹوٹکے‘ جو انسانوں کی ادویات بنانے میں کام آ سکتے ہیںانڈیا میں بچوں کا شکار کرنے والے ’پراسرار آدم خور‘ بھیڑیے جنھیں ڈرون بھی نہیں روک پا رہےہوالدیمیر: پوتن کی ہمنام ’روسی جاسوس‘ وہیل کی موت ’گولی لگنے سے ہوئی‘وہ ڈولفن جو ’سیکس اور ساتھی کی تلاش میں‘ انسانوں کو نشانہ بنا رہی ہےپاکستانی پارلیمان چوہوں سے پریشان: ’چوہے اتنے موٹے تازے ہیں کہ شاید بلیاں بھی ان سے ڈر جائیں‘سمندر میں تیرنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی؟