’ہم نے اپنے قومی ترانے پر بھی میوزک کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔‘
صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں ایک تقریب کے دوران افغان قونصل جنرل پاکستان کا قومی ترانہ شروع ہونے کے بعد اپنی نشست پر ہی بیٹھے رہے تو شاید ان کو یہ گمان نہیں ہو گا کہ یہ بات کتنی بڑھ جائے گی اور انھیں اس پر باقاعدہ وضاحت دینا پڑے گی۔
منگل کے دن اس تقریب میں، جہاں صوبے کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور بھی موجود تھے، جیسے ہی پاکستان کا قومی ترانہ شروع ہوا تو تمام شرکا معمول کے مطابق احتراماً کھڑے ہوگئے لیکن دو لوگ ایسے تھے، جو اپنی نشستوں پر براجمان رہے۔
ان میں سے ایک شخص افغان قونصل جنرل محب اللہ شاکر تھے جبکہ دوسری شخصیت بھی ان کے ساتھ اس تقریب میں شریک تھی۔
جیسے ہی اس تقریب کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی سوشل میڈیا پر قومی ترانے کی ’بے توقیری‘ کا الزام عائد ہونے لگا اور بات اتنی آگے بڑھ گئی کہ پشاور کے افغان قونصل خانے کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔
ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں یہ وضاحت دی گئی کہ پاکستان یا اس کے ’قومی ترانے کی توہین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستانی ترانے کی بے حرمتی اور بے توقیر ی مقصد نہیں تھا لیکن چونکہ ترانے میں میوزک تھا اس لیے قونصل جنرل کھڑے نہیں ہوئے۔‘
ترجمان کے مطابق ’اگر یہ ترانہ بغیر موسیقی کے چلتا یا اسے بچے پیش کرتے تو قونصل جنرل لازمی کھڑے ہوتے اور سینے پر ہاتھ بھی رکھتے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے اپنے قومی ترانے پر بھی میوزک کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔‘
اس سے قبل پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے مطابق دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے افغان سفارت کار کے اس عمل کو ’سفارتی آداب کی خلاف ورزی اور پاکستان کے قومی ترانے کی بے توقیری قرار دیا۔‘
بیان کے مطابق ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان نے اس واقعے کے بعد اسلام آباد اور کابل میں افغان حکام سے باضابطہ احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر علی امین گنڈاپور پر تنقید اور ’دھوکے‘ کی گونج
اس واقعے پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر صارفین افغان قونصل جنرل کے ساتھ ساتھ علی امین گنڈاپور کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
صحافی اور اینکر پرسن طلعت حسین نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور پر تنقید کی اور کہا کہ ’وزیر اعلی خیبرپختونخوا اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں جبکہ افغاستان کی جانب سے سفارتی پروٹوکول کو توڑتے ہوئے قومی ترانے کی بے عزتی کی گئی۔‘
کچھ صارفین نے افغان قونصل کو اس تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کرنے پر وزیر اعلی خیبرپختونخوا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
یہ بھی پڑھیےجب سورۃِ فاتحہ کو پاکستان کا قومی ترانہ بنانے کی تجویز پیش کی گئی’ترانہ ریکارڈ کرتے وقت کچھ کی آنکھوں میں آنسو، کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی‘علی امین گنڈا پور کا افغانستان سے مذاکرات کا اعلان: کیا کوئی صوبہ خارجہ اُمور پر کسی ملک سے براہ راست بات کر سکتا ہے؟’ہم اب بھائیوں کی طرح ہیں‘: افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی
ایک صارف نے علی امین گنڈاپور کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ عوام کو جواب دیں کہ جو شخص پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہیں ہوا، کیا وہ اس کانفرنس میں شرکت کا اہل تھا۔‘
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے حال ہی میں یہ بیان دیا تھا کہ وہ اپنے صوبے میں بڑھتی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے افغانستان سے خود بات چیت کریں گے اور وفد بھیجیں گے۔
پاکستان کا گذشتہ کچھ عرصے سے مؤقف ہے کہ خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بارہا افغانستان کو ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ (ٹی ٹی پی) زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاہم افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
اپنے اس اعلان کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین نے پھر گذشتہ ہفتے جمعرات کی شام پشاور میں تعینات افعان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکی سے ملاقات بھی کی تھی، جس میں انھوں نے اس ضرورت پر زور دیا تھا کہ ’علاقے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہییں‘۔
صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ ’پاکستان کو اس معاملے پر پرزور احتجاج کرنا چاہیے اور افغان سفارت کار کو ملک سے نکال دینا چاہیے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’ہم ان سے بھائیوں جیسا برتاؤ کرتے ہیں اور ان کا یہ ردعمل ہے؟‘
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے ایکس پر ردعمل میں کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس رویے کی مذمت کرنی چاہیے۔
محمد زبیر نے بھی تجویز دی کہ ’افغان سفارت کار کو افغانستان واپس بھجوایا جائے۔‘
محمد فیض نامی صارف نے لکھا کہ ’پاکستان برسوں سے افغانستان کے لیے ایک مہربان ہمسایہ رہا ہے۔ افغان قونصل جنرل کا یہ اقدام بے عزتی ہی نہیں بلکہ دھوکہ ہے۔‘
ایک اور صارف نے اس شک کا اظہار بھی کیا کہ ’ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ افغان قونصل جنرل پہلے سے ہی ایسا کرنے کا سوچ کر آئے تھے۔‘
یاد رہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران ایک نوجوان کو اس وقت تقریب سے نکل جانے کی ہدایت کی تھی جب وہ قومی ترانے کے دوران کھڑے نہیں ہوئے۔
یہ ہی نہیں بلکہ ماضی میں انڈیا میں بیشتر ایسے واقعات ہو چکے ہیں جب انڈیا کے قومی ترانے پر کھڑے نہ ہونے والے افراد کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔
سنہ 2017 میں انڈین ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چینئی کے بین الاقوامی فلمی میلے کے دوران قومی ترانہ بجنے کے دوران کھڑے نہ ہونے پر تین افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح سنہ 2016 میں انڈیا کے جنوبی شہر تیروآننت پورم میں بھی 12 افراد کو قومی ترانہ پر کھڑنے نہ ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان نے افغانستان میں ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیوں کیا؟مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی جو طالبان حکومت کے لیے ہزاروں ڈالر کمانے کا سبب بن رہی ہےافغان حکومت: طالبان کو پروٹوکول سفارتی اُصولوں کے خلافحنا ربانی کا دورہ کابل: ’یہ ایک خاتون کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں مگر اپنی بیٹیوں کو سکول نہیں جانے دیتے‘علی امین گنڈا پور کا افغانستان سے مذاکرات کا اعلان: کیا کوئی صوبہ خارجہ اُمور پر کسی ملک سے براہ راست بات کر سکتا ہے؟’ہم اب بھائیوں کی طرح ہیں‘: افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی