پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ میکرو اکنامک اور مالیاتی فریم ورک ناکام ہو گیا ہے، جس سے اسلام آباد کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ وہ پہلے جائزے کے موقع پر آئی ایم ایف کے عملے سے نظرثانی کی درخواست کرے جو 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلیٹی (ای ایف ایف) کے تحت کیا گیا تھا۔
میکرو اکنامک اعداد و شمار میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جن میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو اور سی پی آئی پر مبنی افراط زر شامل ہیں، جس سے پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران نامیاتی نمو کی شرح میں تبدیلی ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایف بی آر کے لئے ٹیکس میں تقریباً 321 ارب روپے کی کمی کی پیش گوئی کی جا رہی ہےکیونکہ بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کی شرح نمو 3.5 فیصد پر طے کی گئی تھی لیکن یہ گر کر 1.3 فیصد پر آ گئی ہے۔
جی ڈی پی کی شرح 3.5 فیصد تھی جسے کم کرکے 3 فیصد کر دیا گیا، ایف بی آر کو دوسری سہ ماہی میں 230 ارب خسارہ ہوسکتا ہے۔
نیز غیر ٹیکس وصولیوں کا ہدف بھی 100 سے 200 ارب روپے کے بڑے فرق سے حاصل نہیں کیا جا سکا۔ دونوں ٹیکس اور غیر ٹیکس کی کمی سے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالیاتی محاذ پر 500 سے 600 ارب روپے کا فرق پیدا ہو سکتا ہے۔
یہ دلیل دی جاتی ہے کہ شرح سود میں کمی سے قرض کی خدمت کے بوجھ میں کمی آئے گی لیکن بڑھتے ہوئے قرض کے ذخائر کے باعث اسلام آباد کے لیے قرض کی خدمت میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں ہو سکے گی۔
اس صورتحال میں توقع کی جا رہی ہے کہ پاک سیکرٹریٹ میں واقع کیو بلاک (وزارت خزانہ) کے مکینوں کے مطابق مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے آئندہ شیڈول اجلاس میں شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کی کمی ہو سکتی ہے جو 4 نومبر 2024 کو منعقد ہونے جا رہا ہے۔