آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ سرکاری کاغذات میں جب بھی کسی فرد کے بارے میں کوئی تحریر، بالخصوص کوئی سٹام پیپر، ایف آئی آر یا کسی شہری کی جانب سے کسی ادارے کے نام کوئی درخواست لکھی جا رہی تو اس میں شہری کے نام کے سامنے اس کا شناختی کارڈ نمبر لازمی لکھا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ عمل ایک ہی تحریر میں بار بار دہرایا بھی جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شہری کا شناختی کارڈ نمبر دراصل اس کا ریاست کے شہری ہونے کے طور پر تعارف ہوتا ہے جسے بار بار تحریرمیں لا کر شہری اور ریاست کے ناطے کو بیان کیا جاتا ہے اور اسی میں شہری اور ریاست دونوں کے حقوق و فرائض طے کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں لندن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ پیش آئے واقعے کو حملہ قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے اس میں ملوث افراد کے شناختی کارڈ بلاک کرنے، ان کی شہریت منسوخ کرنے اور ایف آئی درج کر کے کارروائی کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے جن سوالات نے جنم لیا ان میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کیا ریاست اپنے شہریوں کے شناختی کارڈ منسوخ کر سکتی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہے؟
اس حوالے سے جب نادرا سے رابطہ کیا گیا تو حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کسی بھی شہری کا شناختی کارڈ منسوخ کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کی شہریت ہی ختم کر دی جائے اور ریاست ایسے شہری کے ساتھ اپنا ناطہ توڑ لے یا کوئی شہری خود درخواست دے کر اپنی شہریت ختم کر لے۔ اگر یہ عمل ریاست کی جانب سے کیا جائے تو یہ ایک سزا ہوتی ہے جو کسی بھی جرم کے ثابت ہونے سے پہلے نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے لندن واقعے میں ملوث افراد کی شناختی کارڈ منسوخی کا سوال ابھی پیدا نہیں ہوتا۔‘
حکام نے بتایا کہ ’البتہ ریاستی ادارے جن میں قانون نافذ کرنے والے تمام محکمے اور عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے شہری کا شناختی کارڈ بلاک کرنے کا کہہ دیں جو قانون کو مطلوب ہو لیکن وہ طلبی پر حاضر نہ ہو رہا ہو۔ ریاستی محکموں کی درخواست اور عدالتی احکامات کی روشنی میں نادرا کارروائی کرتے ہوئے اس کا شناختی کارڈ بلا کر دیتا ہے۔‘
ماضی قریب میں شہریوں کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کی مثال پاکستان تحریک انصاف کے ان رہنماؤں اور کارکنوں کی ملتی ہے جو نو مئی کے واقعات کے بعد عدالتوں میں پیش ہونے کے بجائے روپوش ہو گئے۔
شناختی کارڈ بلاک ہونے سے شہری کو نقصان کیا ہوتا ہے؟
اگر تو کوئی شہری ملک کے اندر رہ رہا ہو اور اس کا شناختی کارڈ بلاک کر دیا جائے تو وہ بطور شہری ریاست سے اپنے کسی بھی حق کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور اس کے یہ حقوق اس وقت تک معطل رہتے ہیں جب تک اس کا شناختی کارڈ بحال نہیں ہو جاتا۔
نادرا حکام کے مطابق ’اگر کسی شہری کا شناختی کارڈ بلاک ہو جاتا ہے وہ علاج معالجے کی سہولیات سمیت دیگر شہری حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے بینک اکاونٹ منجمند ہو جاتے ہیں اور اس کا پاسپورٹ بھی کسی کام کا نہیں رہتا۔ وہ کاروباری لین دین نہیں کر سکتا۔ زمین جائیداد کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا اور رقم کی ٹرانزیکشن کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس موجود شناختی کارڈ محض ایک دستاویز رہ جاتی ہے جو اس کے کسی کام کی نہیں ہوتی۔‘
اب یہاں پر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس واقعے پر وزیر داخلہ نے شہریوں کے شناختی کارڈ بلاک کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے وہ تو پاکستان میں موجود ہی نہیں تو ان کے خلاف پاکستان میں کیا کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لندن میں احتجاج کیا گیا تھا۔ فوٹو: سکرین گریب
حکام کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی بھی ایسے شہری کے متعلق کسی پاکستانی ادارے سے متعلق یہ درخواست آتی ہے کہ وہ قانون کو مطلوب ہے لیکن وہ پیش نہیں ہو رہا تو نادرا ان کا شناختی کارڈ بلاک کر سکتا ہے۔ جس سے وہ جب بھی پاکستان کا سفر کریں گے تو ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد ان کا ریکارڈ سب کچھ بتا دے گا۔‘
کیا پاکستانیوں کے خلاف سکاٹ لینڈ یارڈ میں مقدمہ درج کرایا جائے گا؟
گزشتہ روز یہ خبریں سامنے آئیں کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے سکاٹ لینڈ یارڈ کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دے دی یا خط لکھ دیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی ہائی کمیشن کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ابھی تک ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی البتہ اسلام آباد میں حکومت کو واقعے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اگر برطانیہ میں کوئی قانونی کارروائی کرنی ہے تو اس کا فیصلہ بھی اسلام آباد کو ہی کرنا ہے۔‘
حکام کے مطابق ’ہائی کمیشن کو بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کی وطن واپسی کے بعد وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ مل کر کارروائی کے تمام آپشنز ان کے سامنے رکھیں گے۔ جس کے بعد جو بھی فیصلہ ہوگا وزارت خارجہ کے ذریعے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو آگاہ کر دیا جائے گا۔‘
برطانیہ میں بڑی تعداد پاکستانی شہری وہاں کے ویزہ پر مقیم ہیں جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ہیں۔ دوسری بڑی تعداد ان پاکستانیوں کی جن کے پاس دوہری شہریت ہے اور وہ پاکستان اور برطانیہ دونوں ممالک کے پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ ان کے پاس پاس نائیکوپ یا پاکستانی کارڈ بھی ہیں۔ اس سے ان کو پاکستان کا سفر کرنے اور یہاں کاروبار اور دیگر شہری سہولیات کے حصول میں آسانی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی نژاد وہ وہ برطانوی شہری بھی ہیں جن کے پاس شہریت تو برطانیہ کی ہے لیکن انھوں نے پاکستان اوریجن کارڈز بنوا رکھے ہیں تاکہ ان کو پاکستان آتے وقت ویزہ نہ لگوانا پڑے۔