’بشار الاسد کے غنڈوں نے میرا ریپ کیا، رحم کی بھیک مانگی لیکن وہ ہنستے رہے‘

بی بی سی اردو  |  Dec 29, 2024

BBCرینے کا کہنا ہے کہ وہ اب تصویر بنوانے سے خوفزدہ نہیں کیونکہ ’خوف کی وجہ اب ختم ہو چُکی ہے‘

رینے شیوان کے پاس جو میوزک باکس تھا دراصل وہ ان کی دادی کا تھا جسے وہ اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھتے تھے اور اس پر اپنی انگلیاں پھیر کر اپنے گھر کی بزرگ کو یاد کرتے ہیں۔

رینے جیسے ہی میوزک باکس کھولتے ہیں اس میں سے موسیقی کی آواز آنے لگتی ہے۔ اسی گانے کی آواز بہت عرصہ پہلے دمشق میں ان کے ڈرائنگ روم میں بھی سنائی دیتی تھی۔

’میرے گھر کی بس یہی ایک آخری چیز بچی ہے۔‘

اس نوجوان کی ہر چیز یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک نرم مزاج شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک پست قامت شخص ہیں اور انتہائی نرم انداز میں بات کرنے کے عادی ہیں۔

رواں ہفتے وہ انتہائی جذباتی کیفیت میں رہے ہیں۔ وہ خوش ہیں کیونکہ بشار الاسد کا اقتدار جا چکا ہے لیکن ان کا دل اکثر ڈوب بھی جاتا ہے جب وہ شام کی جیل میں گزرے اپنے وقت کو یاد کرتے ہیں۔

’وہاں ایک خاتون تھیں۔ میرے ذہن میں آج بھی ان کی تصویر محفوظ ہے، وہ وہاں کونے میں کھڑی تھیں اور گڑگڑا رہی تھیں۔ یہ بہت واضح ہے کہ ان کا ریپ کیا گیا تھا۔‘

’وہاں ایک لڑکا بھی تھا۔ اس کی عمر 15 یا 16 برس تھی اور اس کا ریپ کیا جا رہا تھا۔ وہ اپنی والدہ کو پکار رہا تھا۔‘ ریپ اور جنسی استحصال کا نشانہ بننے والا لڑکا کوئی اور نہیں بلکہ خود رینے تھے۔

میری رینے سے ملاقات تب ہوئی تھی جب وہ شام سے فرار ہو کر آئے تھے۔ یہ 12 برس پُرانی بات ہے، وہ میرے مقابل بیٹھے ہوئے کانپ رہے تھے، آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور وہ کیمرے میں اپنا چہرہ دیکھ کر بھی گھبرا رہے تھے۔

انھیں خفیہ پولیس نے اس لیے گرفتار کیا تھا کیونکہ وہ جمہوریت کی حمایت میں ایک احتجاج میں شریک ہوئے تھے۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ رینے ہم جنس پرست ہیں۔

خفیہ پولیس کے تین اہلکاروں نے رینے کا ریپ کیا۔ انھوں نے رحم کی بھیک مانگی لیکن اہلکار ہنستے رہے۔

سنہ 2012 میں انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو یاد کر کے کہا تھا کہ ’کسی نے میری آواز نہیں سُنی۔ میں تنہا تھا۔‘

ان اہلکاروں نے رینے کو کہا تھا کہ جو آزادی مانگتا ہے اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔ وہاں ایک افسر تھا جس نے ہر روز رینے کو استحصال کا نشانہ بنایا۔ تقریباً چھ مہینوں تک رینے سے اس ظلم کو برداشت کرتے رہے تھے۔

شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا اسرائیل پر حماس کے حملوں سے کیا تعلق ہے اور کیا اگلا مرحلہ ایرانی حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟30 کلومیٹر طویل مجوزہ بفرزون: صدر اُردوغان شمالی شام کے کُرد گروہوں سے نمٹنے کے کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟حکومت کے خاتمے سے قبل آخری لمحات میں بشار الاسد نے کیسے اپنے خاندان کواندھیرے میں رکھا؟روسی حکومت کی بشار الاسد اور اُن کی اہلیہ کے درمیان طلاق کی خبروں کی تردید: ’دمشق کا پھول‘ قرار دی گئی اسما الاسد کون ہیں؟

تقریباً دو ہفتے قبل جب رینے نے شام کے جیلوں سے قیدیوں کے آزاد ہونے کے مناظر دیکھتے تو ان کو وہ وقت یاد آگیا جو انھوں نے خود جیل میں گزارا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اب جیل میں نہیں ہوں لیکن میں شام میں لوگوں کی تصاویر میں خود کو دیکھا ہے۔ میں ان کے لیے بہت خوش تھا لیکن پھر میں خود کو وہاں دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ مجھے وہاں ریپ کیا گیا تھا، مجھ پر وہاں تشدد کیا گیا تھا۔ یہ تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔‘

رینے اس وقت رو رہے تھے اور ہمیں یہ انٹرویو روکنا پڑا۔ میری نظر ان کے ڈرائنگ روم کی دیوار پر پڑی۔ یہاں ان کی اپنی ایک شام میں لی گئی تصویر تھی جس میں رینے میراتھن میں حصہ لے رہے تھے، ایک تصویر شامی یسوعی رہبر فرانس واندر لخت کی تصویر تھی جنھیں 2014 میں قتل کیا گیا تھا۔

وہ فرانس واندر لخت ہی تھے جنھوں نے رینے کو کہا تھا کہ وہ ایک عام انسان ہیں اور یسوع آپ سے پیار کرتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ جنسی طور پر مردوں کی طرف راغب ہیں یا خواتین کی طرف۔

اس وقت رینے نے پانی کا ایک گلاس مانگا اور ہم سے انٹرویو دوبارہ شروع کرنے کا کہا۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ رینے نے کیمرے پر آنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیوں کیا؟ رینے نے کہا کہ ’خوف کی حکومت اب ختم ہو چکی ہے۔ میں اب ان سے نہیں ڈرتا اور اب اسد خود ماسکو میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ کیونکہ شام سے تمام مجرم بھاگ گئے ہیں۔‘

مجھے امید ہے کہ ہم آزادی اور برابری کے ساتھ ایک قوم کی حیثیت سے رہ سکیں گے۔ مجھے اپنے آپ پر ایک شامی، ڈچ، ایل جی بی ٹی کے طور پر فخر ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ابھی تک ایک ہم جنس پرست شخص کی حیثیت سے شام میں رہنے کے بارے میں پراعتماد محسوس کرتا ہے۔

اسد حکومت کے دور میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا گیا تھا۔

ملک کے نئے حکمران بنیاد پرست مذہبی جڑیں رکھتے ہیں اور ہم جنس پرستوں کے خلاف تشدد اور ظلم و ستم میں ملوث رہ چُکے ہیں۔

رینے کہتے ہیں کہ 'بہت سے شامی ایل جی بی ٹی ہیں جنھوں نے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔'

'وہ انقلاب کا حصہ تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کھو دی۔ (شامی حکومت نے) انھیں صرف اس لیے قتل کیا کہ وہ ایل جی بی ٹی تھے اور اس لیے کہ وہ انقلاب کا حصہ تھے۔

رینے نے مجھے بتایا کہ وہ تبدیلی کے امکان کے بارے میں 'حقیقت پسندانہ سوچ' رکھتے ہیں۔ انھیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ کردوں سمیت تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

Getty Imagesکچھ شامی پناہ گزینوں نے ہمسایہ ممالک سے وطن واپس آنا شروع کر دیا ہے

رینے ان 60 لاکھ شامی باشندوں میں شامل ہیں جو ملک سے فرار ہو کر لبنان، اردن اور ترکی جیسے ہمسایہ ممالک یا پھر یورپ کے دیگر علاقوں میں محفوظ رہے۔

اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد متعدد یورپی ممالک پہلے ہی شامی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد روک چُکے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس اقدام کو قبل از وقت قرار دیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں دس لاکھ شامی باشندے آباد ہیں۔ ان میں سے معذور کرد لڑکی سے میری پہلی ملاقات اگست 2015 میں ہوئی تھی جب وہ یونانی جزیرے لیسبوس میں اترنے والے لوگوں کے ایک بڑے گروپ میں شامل ہو گئی تھی۔

انھوں نے سربیا، کروشیا، سلووینیا اور آسٹریا کے راستے شمال کی طرف سفر کیا۔

شمالی شام سے یورپ پہنچنے کے لیے نزین نے پہاڑوں، دریاؤں اور سمندر کو پار کیا تھا، ان کی بہن، نسرین، وہیل چیئر کو دھکا دے رہی تھیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ 'میں ایک خلاباز بننا چاہتی ہوں اور شاید کسی اجنبی سے ملنا چاہتی ہوں اور بس یہی نہیں بلکہ میں ملکہ سے بھی ملنا چاہتی ہوں۔'

میں دھول بھری سڑک پر ان کے قریب بیٹھا ہوا تھا جہاں ہزاروں پناہ گزین دوپہر کی تیز دھوپ اور شدید گرمی میں تھکے ہارے بیٹھے تھے۔ اُن کا مزاج اور پُراعتمادی بڑی واضح تھی۔

یہ ایک ایسی لڑکی تھیں جنھوں نے امریکی ٹیلی ویژن پروگرام دیکھ کر روانی سے انگریزی زبان بولنی سیکھی۔ نجین کی پرورش حلب میں ہوئی اور پھر جب جنگ بڑھتی گئی تو وہ اپنے خاندان کے آبائی شہر کوبانی چلی گئیں جو کردوں کا مضبوط گڑھ تھا جو بعد میں دولت اسلامیہ (داعش) کے حملوں کی زد میں آیا۔

اب میں ان سے کولون کے مصروف نیومارک سکوائر میں ملا ہوں جو کرسمس مارکیٹ کے سٹالزسے بھرا ہوا ہے جہاں مقامی لوگ سوسیج کھا اور شراب پی رہے ہیں اور شام پر سے خوف کے سائے چھٹ چُکے ہیں۔

لیکن نوجین کے لیے یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔

وہ اپنے خاندان والوں کے سو جانے کے بعد بھی اکثر ٹی وی دیکھتی رہتی ہیں اور ہفتہ بھر بس یہی اُن کا معمول ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کے بزنس ایڈمنسٹریشن کورس کے لئے امتحان اُن کے سر پر ہیں مگر وہ سب سنبھال لیں گی۔

نوجین سمجھتی ہیں کہ کیا پھر کبھی اسد کے زوال جیسا لمحہ نہیں آئے گا، جو اس طرح کی واحد امید کا لمحہ ہوگا۔

BBCنوجین ایک نوعمر تھی جب وہ شمالی شام سے اپنے خاندان کے ساتھ بھاگ کر جرمنی میں آباد ہو گئی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ 'کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا، ہر اندھیری رات کے بعد ایک خوبصورت اور روشن صبح ہوتی ہے۔'

اُن کا مزید کہنا ہے کہ 'میں جانتی تھی کہ میں کبھی بھی ایسے شام میں واپس نہیں آؤں گی جس میں اسد صدر تھے اور یہ کہ ہمیں اس شخص کے ساتھ ایک بہتر قوم بننے کا موقع کبھی نہیں ملے گا۔ ہم جانتے تھے کہ جب تک وہ اس ملک سے چلے نہیں جاتے ہمیں کبھی امن اور سکون نہیں ملے گا اور اب اس باب کے ختم ہونے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ اصل چیلنج شروع ہوتا ہے۔'

رینے کی طرح وہ ایک ایسا ملک چاہتی ہیں جو تنوع کو برداشت کرے اور معذور افراد کی دیکھ بھال کرے۔

'میں ایسی جگہ واپس نہیں جانا چاہتی جہاں کوئی لفٹ نہ ہو اور جہاں چوتھی منزل تک پہنچنے کے لیے واحد راستہ سیڑھیاں ہوں۔'

ایک کرد کی حیثیت سے وہ اس خطے میں اپنے لوگوں کے مصائب کے تجربے سے بخوبی واقف ہیں۔

اب جبکہ کرد فورسز تیل پیدا کرنے والے شمال کے شہروں سے نکلنے پر مجبور ہیں نجوین کو ترکی کی حمایت یافتہ ایک نئی حکومت کی طرف سے لاحق خطرے کا سامنا ہے۔

نوجین کا کہنا ہے کہ 'ہم ان لوگوں کو جانتے ہیں جو اب اقتدار میں آئے ہیں۔ ہم ان ممالک اور طاقتوں کو جانتے ہیں جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور وہ کردوں کے بالکل حامی نہیں ہیں۔ وہ بالکل ہم سے محبت نہیں کرتے ہیں۔ یہ اس وقت ہماری سب سے بڑی تشویش ہے۔'

اگر شام کے نئے رہنما ملک میں استحکام حاصل نہیں کر سکے تو داعش کے دوبارہ منظم ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

کرد علاقوں میں اب بھی رہنے والے خاندانوں کو مسلسل فون کالز کی جا رہی ہیں۔

نوجین کہتی ہیں کہ 'وہ مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں جیسا کہ ہم سب ہیں۔'

'ہم کبھی فون کرنا بند نہیں کرتے اور ہمیں ہمیشہ اپنے پیاروں کی فکر رہتی ہے کہ اگر انھوں نے فون کی پہلی گھنٹی پر ہمارا فون نہیں اُٹھایا تو کہیں اُن کے ساتھ کُچھ غلط نہ ہو گیا ہو۔ اس ساری صورتحال کی وجہ سے بہت غیر یقینی کی صورتحال ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ دل میں ایک وہم بھی ہوتا ہے کہ اب اس سب کے بعد آگے کیا ہونے والا ہے۔'

یورپ میں پناہ کی پالیسی میں تبدیلی سے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔

پھر بھی اس ایک نوجوان خاتون کی زندگی کے تجربات سے بھری پڑی ہے، پیدائشی معذوری، جنگ کے حالات کے بعد مشرق وسطی اور یورپ میں محفوظ مقامات کے سفر تک موجودہ حالات نے خوف کے ساتھ ساتھ امید کی صلاحیت پیدا کی ہے۔

جب سے میں انھیں جانتا ہوں ان میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ بشار الاسد کے زوال نے شام اور اس کے عوام پر ان کے اعتماد کو مزید گہرا کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ 'بہت سے لوگ ہیں جو شام کو تنظلی کی جانب جاتا دیکھنے کے منتظر ہیں۔'

'ہم ایسے لوگ نہیں ہیں جو نفرت یا حسد کرتے ہیں یا ایک دوسرے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے احترام کے لئے پلے بڑھے ہیں اور ہماری تربیت ایسی ہے کہ ہم محبت کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔'

اُن کا کہنا ہے کہ 'ہم ایک بہتر قوم بن سکتے ہیں۔ محبت، ایک دوسرے کو قبول کرنا اور امن پسند قوم ہونے کے ساتھ ساتھ افراتفری، خوف اور تباہی سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔'

شام اور اس سے باہر بہت سے دل ایسے ہوں گے کہ جو اس بات کی اُمید کر رہے ہوں گے کہ وہ جو کہ رہی ہیں وہ درست ہو۔

بشار الاسد کے مفرور ساتھیوں کے محل جن میں سونے کی تجوریاں اور تہہ خانوں میں سوئمنگ پول ہیں’غریبوں کی کوکین‘: بشار الاسد کے بعد اب شام کی 5.6 ارب ڈالر کی ’منشیات کی سلطنت‘ کا کیا بنے گا؟روسی حکومت کی بشار الاسد اور اُن کی اہلیہ کے درمیان طلاق کی خبروں کی تردید: ’دمشق کا پھول‘ قرار دی گئی اسما الاسد کون ہیں؟حکومت کے خاتمے سے قبل آخری لمحات میں بشار الاسد نے کیسے اپنے خاندان کواندھیرے میں رکھا؟30 کلومیٹر طویل مجوزہ بفرزون: صدر اُردوغان شمالی شام کے کُرد گروہوں سے نمٹنے کے کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا اسرائیل پر حماس کے حملوں سے کیا تعلق ہے اور کیا اگلا مرحلہ ایرانی حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More