2024 میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 4112 کیسز رپورٹ

ہم نیوز  |  Jan 02, 2025

پاکستان میں 2024 میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 4112 کیسز رپورٹ ہوئے۔

پاکستان میں بڑھتے ہوئے صنفی بنیاد پر تشدد کی ایک پریشان کن عکاسی کے طور پر ساحل تنظیم نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو خواتین اور بچوں کی حفاظت اور سلامتی کے لیے کام کر رہی ہے۔

اس رپورٹ میں 2024 جنوری سے نومبر تک پاکستان بھر میں 4,112 کیسز رپورٹ ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے، ان کیسز میں قتل، ریپ، خودکشی، اغوا، غیرت کے نام پر قتل اور تشدد جیسے واقعات شامل ہیں، تشویش کی بات یہ ہے کہ تشدد خواتین کے لیے ہر عمر میں معمول بنتا جا رہا ہے۔

یہ رپورٹ 81 اخباروں سے جمع کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جو ملک کے تمام چار صوبوں، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، آزاد جموں و کشمیر، اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف جاری جدوجہد کی ایک سیاہ تصویر پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان کیسز میں سے 1,273 قتل کے واقعات، 799 اغوا، 579 تشدد کے کیسز، 533 ریپ کے واقعات اور 380 خودکشی کی وارداتیں شامل ہیں۔

پنجاب میں پہلی بار ای ٹیکسی اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ

مزید یہ کہ متاثرہ افراد کی ایک بڑی تعداد نوجوان خواتین کی ہے۔ اگرچہ صرف 5 فی صد متاثرہ افراد 18 سال سے کم عمر تھیں، تاہم یہ ڈیٹا نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو مختلف قسم کے استحصال کے لیے کمزور ثابت کرتا ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ عمر کا گروپ 21 سے 30 سال کی خواتین کا تھا، جن کے 459 کیس رپورٹ ہوئے۔ اس کے بعد 11 سے 20 سال کی عمر کی خواتین کے 444 کیسز ہیں، اور 31 سے 40 سال کی خواتین کے 167 کیسز ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ زیادتی کرنے والے (33 فی صد) افراد جاننے والے تھے، جبکہ 14 فی صد شوہر اور 10 فی صد اجنبی تھے۔ متعدد کیسز میں، ملزم کی شناخت معلوم نہیں ہو سکی یا رپورٹ نہیں کی گئی، جس کی شرح 22 فی صد ہے۔

صوبوں کی بنیاد پر رپورٹ شدہ کیسز کی تقسیم میں صنفی بنیاد پر تشدد کی غیر متوازن تقسیم سامنے آئی ہے۔ سب سے زیادہ کیسز 73 فی صد پنجاب میں رپورٹ ہوئے جو ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ اس کے بعد سندھ 15 فی صد، خیبر پختونخوا 8 فی صد اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں 2 فی صد کیسز رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق ان اضلاع کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں خواتین کے خلاف تشدد کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ فیصل آباد سب سے آگے ہے جس میں 766 کیسز رپورٹ ہوئے، اس کے بعد راولپنڈی میں 367 کیسز ہیں۔ لاہور اور سیالکوٹ میں 269 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ گوجرانوالہ میں 257 کیسز ہیں۔

قصور میں بھی ایک نمایاں تعداد ہے جہاں 215 کیسز رپورٹ ہوئے۔ دوسرے اضلاع جیسے ملتان، رحیم یار خان اور شیخوپورہ میں بالترتیب 134، 129 اور 102 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ پشاور میں 100 کیسز ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ نتائج ایک پریشان کن رجحان کی عکاسی کرتے ہیں جو خواتین کے خلاف تشدد کی بڑھتی ہوئی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی کوششوں کے باوجود، پاکستان میں خواتین کو بدستور تشدد کا سامنا ہے اور ملزمان کے لیے محدود احتساب ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان، مقامی حکام اور معاشرے کے تمام افراد کو خواتین کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں قانون سازوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مضبوط قوانین پاس کریں، موجودہ قوانین کے نفاذ کو ترجیح دیں اور ان اقدامات کو نافذ کریں جو کمزور خواتین اور لڑکیوں کو صنفی بنیاد پر تشدد کے شکار ہونے سے بچانے میں معاون ثابت ہوں۔

سال 2024 میں شہریوں کو سہولت دینے کے حوالے سے بی آر ٹی پشاور کی نمایاں کامیابیاں

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تشدد صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ دیہی کمیونٹیز، جہاں وسائل اور قانونی مدد تک رسائی کم ہوتی ہے، ان میں اکثر ایسے کیسز ہوتے ہیں جو نظر انداز یا رپورٹ نہیں ہوتے۔

اگرچہ دسمبر کے اعداد و شمار کو اس رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا لیکن ابتدائی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دسمبر میں 554 مزید کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو کہ تشویش کی ایک نئی لہر کو اجاگر کرتا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ اعداد و شمار نہایت پریشان کن ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے فوری طور پر صنفی بنیاد پر تشدد کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ معاشرے کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک محفوظ ماحول بنانے میں اپنا حصہ ڈالے جہاں خواتین تشدد، بدسلوکی اور امتیاز کے بغیر زندگی گزار سکیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More