آنکھ کی پُتلیوں سے بائیومیٹرک تصدیق کا نظام ’آئرس‘ پاکستان میں کب سے؟

اردو نیوز  |  Jan 16, 2025

پاکستان کی قومی رجسٹریشن اتھارٹی نادرا اس  وقت شہریوں کی جدید اور محفوظ بائیو میٹرک تصدیق کو ممکن بنانے کے لیے آنکھوں کی پتلیوں کی مدد سے بائیو میٹرک تصدیق کے نظام ’آئرس‘ پر کام کر رہی ہے۔

نادرا کی جانب سے اس نظام کے سال 2025 کے دوران ہی نفاذ کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

نادرا نے اس حوالے سے آزمائشی بنیادوں پر 60 لاکھ شہریوں کو آئرس کی مدد سے شناخت کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنا لیا ہے جبکہ اس مقصد کے لیے آئرس ڈیوائس بھی مقامی سطح پر ہی تیار کی گئی ہے۔

اس وقت ملک بھر میں نادرا کے 35 مراکز میں بطور پائلٹ پراجیکٹ آئرس کی سہولت موجود ہے۔ نادرا کے مطابق آئرس انسانی شناخت کے لیے ایک مؤثر ترین طریقۂ کار ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

’اس اقدام سے جہاں جعلی شناخت کے مسائل حل ہوں گے وہیں قومی شناخت کی ڈیجیٹلائزیشن میں بھی مدد ملے گی۔‘

ماہرین کے خیال میں آئرس دنیا بھر میں شہریوں کی بائیو میٹرک تصدیق کے لیے استعمال ہونے والے طریقۂ کار میں سے ایک ہے جسے نسبتاً جدید اور زیادہ محفوظ تصوّر کیا جاتا ہے۔

تاہم، مستقبل قریب میں پاکستان بھر میں آئرس کی مدد سے شہریوں کی شناخت کے نظام پر مکمل عمل درآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

آئرس سے بائیو میٹرک تصدیق کا نظام ہے کیا؟اُردو نیوز نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ترجمان سید شباعت علی سے رابطہ کیا اور اس حوالے سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی ہیں۔

سید شباعت علی نے کہا کہ ’نادرا قومی شناخت کو جدید اور محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ نادرا نے اسی سلسلے میں ابتدائی طور پر آئرس کے استعمال کے پائلٹ پراجیکٹ کے طور تجربات بھی کیے ہیں جس میں اُنہیں کامیابی ملی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ نادرا نے ابتدائی طور پر آزمائشی بنیادوں پر 60 لاکھ شہریوں کا اُن کی آنکھوں کی پتلیوں یا قرنیہ کی مدد سے ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔

’آزمائشی مراحل کے دوران یہ پہلو سامنے آیا کہ نادرا نے اگر اس نظام کو قومی شناخت کے لیے استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے استعمال ہونے والی ڈیوائسز پاکستان میں ہی بنانا پڑیں گی۔‘

نادرا نے آئرس ڈیوائس مقامی سطح پر تیار کی ہے: ترجمانآنکھوں کی مدد سے شہریوں کی شناخت کے لیے درکار ڈیوائس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان نادرا نے بتایا کہ ’آنکھوں کی پتلیوں کی مدد سے شناخت کے لیے ملک بھر میں نادرا کے 860 سے زائد سینٹرز پر یہ ڈیوائس چاہیے ہو گی اور ہم اگر یہ درآمد کرتے ہیں تو ان پر بہت زیادہ لاگت آئے گی۔‘

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر عمر آصف نے بتایا کہ ’انسانی آنکھ کا قرنیہ دو سال کی عمر سے ایک نہ تبدیل ہونے والی شکل یا حالت اختیار کر لیتا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)ان کے مطابق ’نادرا نے اسی لیے یہ ڈیوائس مقامی سطح پر ہی تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم یہ مشین بنانے میں کامیاب رہے ہیں جس کی وجہ سے آج ہمارے پاس ‘میڈ ان پاکستان’ ڈیوائسز موجود ہیں۔‘

شباعت علی نے بتایا کہ ’نئے نظام کے عمل درآمد کے دوران 10 سال سے اوپر کے تمام شہریوں کی آئرس کی مدد سے شناخت کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔‘

’کیا آئرس کے فعال ہونے کے بعد شہریوں کی شناخت کے لیے دوبارہ ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا یا صرف نئے آنے والے شہریوں کے لیے ہی اس نظام کو استعمال کیا جائے گا؟

اس سوال کے جواب میں نادرا کے ترجمان نے بتایا کہ ’ہم آئرس کے تحت دو سال سے اوپر کے تمام شہریوں کی بائیو میٹرک تصدیق کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وزارتِ داخلہ کی جانب سے موصول ہونے والی ہدایات کے مطابق 10 سال سے اوپر کے تمام شہریوں کی شناخت کا ڈیٹا آئرس کی مدد سے محفوظ بنایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے نادرا کے تمام سینٹرز پر آئرس ڈیوائسز فراہم کی جائیں گی۔‘

آئرس کی مدد سے سکیورٹی پروٹوکولز کی بہتریاُنہوں نے آئرس نظام کی خصوصیات کے حوالے سے بتایا کہ انسانی شناخت کے لیے استعمال کیے جانے والے دوسرے طریقۂ کار جن میں انگلیوں کے نشانات اور تصویر شامل ہے، کو قدرے کم محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

’لیکن آئرس یعنی آنکھوں کے قرنیہ کی شناخت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی اس لیے اس کی مدد سے ہمارے لیے کسی بھی شہری کی شناخت ممکن ہو سکے گی۔ یوں کوئی بھی شخص جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نہیں بنا سکے گا۔‘

آئرس کے جلد نفاذ کے لیے کوشش کر رہے ہیں: نادراآئرس نظام کے مکمل نفاذ کے لیے مقررہ وقت کے حوالے سے ترجمان نادرا کا کہنا تھا کہ ’ملک بھر میں نادرا کے سینٹرز پر آئرس نظام کا نفاذ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس پر عملدرآمد کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا تاہم، شاید اسی سال اس پر باضابطہ عمل درآمد ہونا شروع ہو جائے گا۔‘

اُردو نیوز نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائبر سکیورٹی کے ماہرین سے آئرس نظام کی افادیت اور خصوصیات جاننے کی کوشش کی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر عمر آصف کے خیال میں آنکھوں کی پتلیوں یا قرنیہ کی مدد سے شناخت کا نظام آئرس بلاشبہ ایک جدید اور محفوظ انسانی شناخت کا ذریعہ ہے جو دنیا بھر میں استعمال ہو رہا ہے۔

سائبر سکیورٹی کے ماہر احتشام الحق کے مطابق مستقبل قریب میں آئرس نظام کے مکمل نفاذ کے امکانات قدرے کم ہیں (فوٹو: اے ایف پی)اُنہوں نے پڑوسی ملک چین اور خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات کی مثال بھی دی جہاں شناخت کے لیے اسی ںظام کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

عمر آصف نے بتایا کہ انسانی آنکھ کا قرنیہ دو سال کی عمر سے ایک نہ تبدیل ہونے والی شکل یا حالت اختیار کر لیتا ہے۔

’دو سال کے بچے کی آنکھ کا قرنیہ یا 80 سال کے بزرگ کی آنکھوں کی پتلی دونوں اپنی اصل حالت میں موجود ہوں گی اور آئرس کی مدد سے قابل شناخت بھی رہیں گی۔ اس لیے اس طریقۂ کار کو پائیدار سمجھا جاتا ہے۔‘

دوسری جانب سائبر سکیورٹی اور آئی ٹی کے ماہر احتشام الحق کے مطابق مستقبل قریب میں نادرا کی جانب سے آئرس نظام کے مکمل نفاذ کے امکانات قدرے کم ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان کے سرکاری اداروں کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی بھی منصوبہ یک دم مکمل نہیں ہوتا یا پھر مکمل صلاحیت کے ساتھ چلایا نہیں جاتا۔‘

سائبر سکیورٹی اور آئی ٹی کے ماہر احتشام الحق سمجھتے ہیں کہ نادرا کو ضرورت کے مطابق آئرس ڈیوائسز کی دستیابی اور پھر رش کے حساب سے اُن کے فعال رہنے پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’ہوم ورک کے بغیر چلائے جانے والے نظام زیادہ دیر نہیں چل پاتے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More