تو اب ہوگا کیا؟ اجمل جامی کا کالم 

اردو نیوز  |  Jan 16, 2025

ضد تھی اور شاید ہے بھی، ہٹ دھرمی تھی، نظر بھی آتی ہے، ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے سے فریقین انکاری تھے، کسی حد تک اب بھی ہیں، لیکن فطرت کا اپنا ہی اصول ہوتا ہے، سیاست کے اپنے ہی ڈھنگ ہوا کرتے ہیں، سیاست کی طریقت طویل عرصے تک غیر سیاسی حکمتِ عملی کا ساتھ نہیں دیا کرتی۔ سرکار اور اپوزیشن کے بیچ ربط لازم ہو کر ٹھہرتا ہے۔ مقبولیت اور قبولیت کے استعارے تدبر اور معاملہ فہمی کی اپروچ کے بغیر اپنی تاثیر کھو بیٹھتے ہیں۔ بالآخر وطنِ عزیز میں بھی سیاسی رہنماؤں کو احساس ہوا، ادراک ہوا، جیسے بھی ہوا جتنا بھی ہوا یہ بعد کی کہانی ہے۔ 

اندرونِ خانہ سیاسی استحکام حاصل کیے بغیر معاشی استحکام ناممکن ہوتا ہے۔ سیاسی طور پر معاشرہ تقسیم در تقسیم ہو چکا۔ مقبول سیاسی جماعت کے مقبول رہنما اڈیالہ کے مکین ہیں، پارٹی تقسیم ہوئی، رہنما چھوڑ گئے۔ انتخابی نشان سے محرومی مقدر ٹھہری، پکڑ دھکڑ اور بندشوں کے بیچ چناؤ میں اسی جماعت نے اپنا نقش خوب جمایا اور پیغام دیا کہ نہیں صاحب! نوجوان بدل چکے ہیں، ووٹرز کی سوچ میں تبدیلی آچکی اب ایسے نہیں چلے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود سب سے بڑی جماعت اقتدار تک نہ پہنچ سکی، پی پی اور ن لیگ کے ملاپ نے راجدھانی میں اقتدار کے نقش تو جما لیے لیکن مقبولیت کی گونج ایسی تھی کہ کسی پل فیصلہ سازوں کو چین نہ مل سکا۔ رہی سہی کسر بیرون ملک سے اٹھتی آوازوں اور سہاروں کے ذریعے بھی پوری ہوتی رہی۔

برطانیہ ہو، یورپی یونین یا پھر ٹرمپ سرکار کا عروج، تحریک انصاف کا سپورٹر اندرونِ خانہ سسٹم سے مایوس ہو کر اب ان قوتوں سے بڑی امیدیں لگا بیٹھا ہے۔ اس بیچ یورپی یونین کا بیان ہو یا امریکی نامزد عہدیدران کی کپتان کے حق میں سوشل میڈیا پوسٹس، مقبول بیانیے کو گویا سٹیرائیڈز کی سی ڈوز لگ گئی۔ لیکن کیا یہ سب کافی ہے؟ شاید نہیں۔ ٹرمپ سرکار کے ہم کسی بھی اہم مدعے پر اتحادی نہیں، موصوف کا اپنا ہی مشن ہے، اپنے ہی پلان ہیں۔ ہاں! یہ مقبول بیانیے پر مبنی سوشل میڈیائی شور سے توجہ ہٹانے کے قائل نہیں اور شاید اسی لیے ان کے نامزد اہلکاروں نے کپتان کے حق میں پوسٹس بھی کیں۔ اس پر سنجیدگی کے بجائے تحریک انصاف کی باہر بیٹھی قیادت نے کچھ زیادہ ہی ری ایکٹ کر دیا، حد تو یہ ہوگئی کہ بار بار رچرڈ گرینل کو ’ایکس‘ پر ٹیگ کر کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر الغرض مقامی صحافیوں کی شکایات تک لگا دی گئیں۔ 

پی ٹی آئی والوں نے رچرڈ گرینل کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکایات لگانا شروع کیں تو انہوں نے گھاس ڈالنا چھوڑ دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پھر کیا ہوا؟ رچرڈ نے گھاس ڈالنا چھوڑ دی۔ لیکن باہر بیٹھی قیادت اور حمایتی پُرامید ہیں کہ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد سرکاری طور پر خان کے حق میں بیان آئے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی سرکار اہم مدعوں پر قطعی فیصلوں سے گریزاں ہے کہ پہلے یہ ٹریلر بھی دیکھ ہی لیا جائے۔دباؤ مقامی ہو یا بین الاقوامی، معاملہ فہمی کی اپروچ جینوئن ہو یا سموک سکرین، ادراک ہوا ہو یا پھر سیاسی چال۔ کچھ بھی کہہ لیجیے لیکن حقیقت حال کچھ یوں ہے کہ کپتان اور سرکار کے بیچ ربط پیدا ہوا ہے۔ مذاکرات کے نام پر نشستیں برپا ہو رہی ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟یہ سوال ابھی زیادہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ کیا یہ انگیجمنٹ جاری رہتی ہے؟ کیونکہ سیاسی میدان میں ربط باہم کسی نہ کسی طور بہرحال نتیجہ برآمد کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتا ہے۔ ربط پیدا ہو تو پھر تلخیاں بھی فطری طور پر ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہیں، کیونکہ ربط ایک دوسرے کی پوزیشن کو ماننے کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ایسے میں ایک دوجے سے مانگا کیا جا رہا ہے؟ ڈیل یا ڈھیل؟ مطالبات یا دھونس؟ حقیقت حال یہ ہے کہ فی الحال سرکار مقبول ترین سے شانتی کا پالن مانگ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر برپا طوفان بدتمیزی پر بریک لگوانے کی خواہش رکھتی ہے۔ معاشی وجوہات کی بنیاد پر سسٹم کو کچھ عرصہ چلتے رہنے دینے کی دلیل دیتی ہے۔ 

خاکسار اب تک ہوئے ربط سے پرامید ہے، فریقین کے ہاں لچک بھی دیکھنے کو مل رہی ہے (فائل فوٹو: سپیکر آفس)

بدلے میں وہ اسیران کی رہائی مانگتے ہیں، نو مئی اور چھبیس نومبر پر جوڈیشل کمیشن مانگتے ہیں۔ لیکن اس سب کے بیچ پسِ پردہ بھی ایک کہانی ہے، یہ کہانی ایسی ہے جس کی تصدیق فریقین کرنے سے مسلسل انکاری ہیں۔ لیکن ہماری تاریخ شاہد ہے کہ پسِ پردہ کہانیوں کی گونج ہمیشہ وزن رکھتی ہے۔ اب بھی ایسے اشارے اس کہانی کی کسی حد تک تصدیق کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو خاکسار اب تک ہوئے ربط سے پرامید ہے، فریقین کے ہاں کسی حد تک لچک بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ طاقتور حلقوں کی جانب سے مقبول ترین کے بارے وہ لب و لہجہ اب نہیں جو کبھی ہوا کرتا تھا، غلطیوں کا ادراک بھی ہے۔ قومی یکجہتی کی خواہش بھی ہے۔ تو کیا پھر مقبول ترین کے حق میں انقلاب برپا ہوگا؟ نہیں صاحب! یہ ربط آغاز ہے، سلجھاؤ کا، یکجہتی کا، معاملہ فہمی کا۔ دیکھنے کی بات البتہ یہ ہوگی کہ کیا مقبول ترین کے ہاں سے لب و لہجہ تھوڑا شانت ہوگا یا نہیں؟ اصل مسئلہ اسی مدعے کا ہے۔رہنما راہ نمائی کیا کرتے ہیں، ڈیڈ اینڈ سے راہ تلاش کیا کرتے ہیں۔ ڈیڈ اینڈ پر پہنچ کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کیا کرتے۔ یہی وہ وقت ہے جب میرے ملک کی قیادت نے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ واقعی راہ نما کہلانے کے حق دار ہیں؟ 

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More