دنیا کے بینکار: وینس کے تاجروں سے زیادہ دولتمند ہندوستانی ساہوکار جن کے قرضوں کی مدد سے انگریزوں نے انڈیا پر قبضہ کیا

بی بی سی اردو  |  Feb 17, 2025

Getty Imagesویرجی وورا

مغربی ہندوستان میں مغل شاہی سے آزاد مراٹھا حکومت قائمکرنے والے جنگجو رہنما شِواجی نے سنہ 1664 میں ریاست گجرات کے شہر سُورت پر حملہ کرتے ہوئے وہاں کے ایک تاجر اور ساہوکار ویرجی وورا کے ہاں سے جو مال لوٹا اس کی قیمت 50 ہزار برطانوی پاؤنڈ یا ساڑھے چھ لاکھ چاندی کے روپوں کے برابر تھی۔

معاشیات دان، صحافی اور مصنف پریم شنکر جھا کے مطابق سورت کے ویرجی وورا احمد آباد کے شانتی داس اور بنگال کے جَگَت سیٹھ گھرانے جیسے سترھویں اور اٹھارہویں صدی کے تاجر ساہوکاروں نے اتنی دولت اکٹھی کی کہ اطالوی ساحلی شہر وینس کے تاجروں اور بحیرہ روم کے بندرگاہی شہرجنوا کے بنکاروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

اپنی کتاب ’کراؤچنگ ڈریگن، ہِڈن ٹائیگر‘ میں جھا لکھتے ہیں کہ ’وہ ان بادشاہوں اور نوابوں سے زیادہ دولت مند ہوگئے تھے جن کے وہ تابع تھے‘۔

مراٹھا لوٹ مارکے بعد وورا جن کی ذاتی دولت تب 80 لاکھ روپے تھی، کو دوبارہ اپنے قدم جمانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

وورا تھوک تجارت، رقم کا لین دین اور بینکنگ کرتے تھے۔ سورت میں بعض درآمدات پران کیاجارہ داری تھی اور مسالوں، سونے چاندی، مونگا، ہاتھی دانت، سیسہ اور افیون سمیت کئی دیگر اشیا کا کاروبار کرتے تھے۔

مغل دور میں سورت کے صوبے داروں کے ساتھ وورا کے تعلقات زیادہ تر خوشگوار رہے۔

مکرنڈ مہتا نے انڈین تاجروں کے تاریخی پس منظر کا اپنی کتاب ’انڈین مرچنٹس اینڈ آنٹرپرینیورز ان ہسٹاریکل پرسپیکٹو‘ میں جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’سورت کے صوبے دار معز الملک میر موسیٰ خود بھی انگریزوں کے ساتھ تجارت کرتے تھے۔

ان کے مطابق ’ان سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کے لیےوورا نے ان اجناس میں انگریزوں کے ساتھ لین دین نہیں کیا جن میں میر موسیٰ تجارت کرتے تھے۔ بعد ازاں 1642 میں میر موسیٰ نے وورا کو مونگے کا ذخیرہ خریدنے میں مدد دی اور 1643 میں وورا نے ان سے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مونگے، کالی مرچ اور دیگر اشیا پر اجارہ داری قائم کر لی‘۔

Getty Images

کتاب کے مندرجات کے مطابق ’ایک بار میر موسیٰ کی مختصر غیر موجودگیمیں سورت کے ایکصوبے دار نے تمام کالی مرچ ضبط کر لی اور تاجروں سے زبردستی رقم وصول کی، جس کی وجہ سے ان کا وورا سے تنازع ہوا‘۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ’سنہ1638 میں وورا کو پچاس الزامات کے تحت قید کر دیا گیا ۔ شاہ جہاں کے دربار میں وورا نے تمام الزامات کی تردید کی۔ شہنشاہ نے انھیں رہا کر کےصوبے دارکو برطرف کر دیا‘۔

تاریخ میں وورا کا ذکر شاہ جہاں کو چار عربی گھوڑے بھیجنے کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔

بال کرشنا گووند گوکھلے’مرچنٹ پرنس ویرجی وورا‘ میں لکھتے ہیں کہ وورا کے کاروباری ادارے کی شاخیں ہندوستان کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ خلیج فارس، بحیرہ احمر اور جنوب مشرقی ایشیا کے بندرگاہی شہروں میں بھی موجود تھیں۔

مہتا کے مطابق وورا اکثر کسی خاص جنس کی پوری کھیپ خرید لیتے تھے اور پھر دیگر ہندوستانی اور غیر ملکی تاجروں پر اپنی شرائط مسلط کرتے تھے۔

انھوں نے ڈبلیو ایچ مورلینڈ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وورا کی زیر قیادت تجارتی گروہ ایسے پورے کارگو بھی خرید لیتے جن کی مالیت پانچ سے دس لاکھ روپے تک ہوتی تھی۔

اٹھارہ جولائی 1643 کے ایک انگریزی فیکٹری ریکارڈ میں انھیں ’یورپی اشیا کا واحد اجارہ دار‘ بیان کیا گیا ہے۔ اس ریکارڈ میں مزید لکھا ہے کہ وورا نے یورپی تاجروں اور مقامی چھوٹے تاجروں کے درمیان لین دین کو محدود کر دیا تھا اور ’وقت اور قیمت‘ کا تعین ’اپنی مرضی اور منشا‘ کے مطابق کرتے تھے۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی ان سے قرض لیتیں۔

Getty Imagesشانتی داس جھاوری

مہتا لکھتے ہیں کہ وورا بعض اوقات برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ مسابقت کرتے لیکن وہ سورت میں ان کے سب سے بڑے قرض دہندہ اور گاہک بھی تھے۔ دونوں کے درمیان اکثر تحائف اور خطوط کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ انگریزوں نے کئی بار وورا کی جانب سے عائد کردہ زیادہ شرح سود جو ماہانہ ایک سے 1.5 فیصد کے درمیان تھی، پر شکایت بھی کی۔

گوکھلے کے مطابق ایک انگریزی ریکارڈ میں لکھا ہے ’شہر سورت میں رقم کی شدید کمی ہے، ویرجی وورا ہی اس کے واحد مالک ہیں‘۔ مہتا لکھتے ہیں کہمزید یہ کہ ’ویرجی وورا کے سوا کوئی بھی نہ قرض دینے کی استطاعت رکھتا ہے اور نہ دینا چاہتا ہے‘۔

آر جے برندسے نے اپنی کتاب ’دی عریبین سیز: دی انڈین اوشین ورلڈ آف دی سیونٹینتھ سنچری‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو دیا گیا زیادہ تر سرمایہ بھی ویرجی وورا اور ان کے قریبی ساتھی شانتی داس جھاوری کی طرف سے آتا تھا۔

گوکھلے کے مطابق وورا نے کئی انگریز تاجروں کو ذاتی تجارت کے لیے بھی قرض دیا، جس پر کمپنی کے لندن دفتر نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

ڈچ اور انگریز دونوں سورت سے آگرہ تک بڑی رقوم کی ترسیل کے لیے وورا کی خدمات اور ہُنڈیوں یعنی ڈیمانڈ ڈرافٹ یا ٹریولرز چیک سے ملتی جلتی دستاویزات کا استعمال کرتے تھے۔

ڈچ تجارتی رپورٹ کے مطابق وورا کی مالی گرفت نے سورت کی تجارت میں یورپی تاجروں کے لیے ایک مستقل رکاوٹ کھڑی کر دی تھی۔

سنہ 1670 تک وورا بوڑھے ہو چکے تھے اور اسی سال شِواجی کی سورت پر دوسری یلغار میں انھیں ایک اور بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ 1670 کے بعد انگریز اور ڈچ ریکارڈز میں سورت کے تاجروں اور دلالوں میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔

مہتا کے مطابق اگر وورا 1670 کے بعد بھی زندہ ہوتے تو انگریزی ریکارڈز میں ان کا تذکرہ ضرور ملتا، اس لیےان کااندازہ ہے کہ وورا غالباً 1670 ہیمیں وفات پا گئے۔ لیکن گوکھلے کا خیال ہے کہ وورا نے شاید کاروبار سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اپنے پوتے نانچند کو کاروبار سونپ دیا تھا اور ان کی وفات 1675 میں ہوئی۔

اب آتے ہیں شانتی داس کی جانب۔

رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایامعروف تاجر برادری کی دولت کی گواہی دینے والی سو سال پرانی حویلیاں ویرانی کی داستان کیسے بنیں؟دورابجی ٹاٹا: اپنے خرچ پر ہندوستانی کھلاڑیوں کو اولمپکس میں بھیجنے والا تاجرکراچی سے شروع ہونے والی ایئرلائن جو دنیا میں انڈیا کی پہچان بنی

مہتا کے مطابق وہ ایک شاہی جوہری کی حیثیت سے مغل دربار اور شاہی خاندان تک خصوصی رسائی رکھتے تھے۔

’شانتی داس نے زیورات کی فروخت میں شہرت پائی اور مغل شاہی خاندان اور اشرافیہ سمیت امرا کو زیورات فروختکرتے تھے۔‘

’شہنشاہ جہانگیر اور دارا شکوہ کے فرمانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہی خاندان کے لیے زیورات کی فراہمی کے لیے انھیں خصوصی طور پر منتخب کیا گیا تھا‘۔

ولیم فاسٹر نے انگلش فیکٹری ریکارڈز میں لکھا ہے کہ شانتی داس نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی، ڈچ اور فارسی و عرب تاجروں کے ساتھ بھی تجارت کی۔ ان کے تجارتی سامان میں لونگ سمیت مختلف اجناس شامل تھیں۔

ستمبر 1635میں شانتی داس اور کچھ دیگر تاجروں کے مال پر انگریز قزاقوں نے حملہ کر کے سامان لوٹ لیا۔ تاہم، شانتی داس نے اپنے سیاسی تعلقات اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے انگریزوں سے اپنے نقصانات کی تلافی کروا لی۔

شانتی داس کے بیٹے وکھٹ چند (1740–1814) اور پوتے کوشل چند (1680–1748) نے بھی تجارت میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ جب مراٹھوں نے احمد آباد کو لوٹنے کی دھمکی دی، تو کوشل چند نے رقمادا کر کے شہر کو تباہی سے بچایا۔

Getty Images

اسی طرح جگت سیٹھ ایک مالدار تاجر، بینکار اور ساہوکار خاندان کا نام تھا، جونوابانِ بنگال کے دور میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔

ولیم ڈالر یمپل نے اپنی کتاب ’دی انارکی‘ میں لکھا ہے کہ اگرچہ ان کا اثر و رسوخ یورپ کے روتھشائلڈ خاندان کے برابر تونہیں تھا، لیکن17ویں اور 18ویں صدی میں مغل سلطنت کے مالی معاملات پر ان کے اثرات کو روتھشائلڈ خاندان کے یورپی مالی نظام میں کردار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

خاندان کے بانی ہیرانند شاہ جن کا تعلق راجستھان کے علاقے ناگور سے تھا 1652 میں پٹنہ آئے۔

سنہ 1707 میں ان کے بیٹے مانک چند نے مغل شہزادے فرخ سِیَر کو مالی مدد فراہم کی، جس کے بدلے میں انھیں ’جگت سیٹھ‘ کا خطاب ملا، جس کے معنی ہیں ’دنیا کے بینکار‘۔

مانک چند ہی نے بنگال کے پہلے صوبے دار مرشد قلی خان کوڈھاکا چھوڑ کر ہُوگلی دریا کے کنارے مرشد آباد بسانے کا مشورہ دیا۔ مانک چند ان کے دیوان بنے۔

رابرٹ اورم نے جگت سیٹھ خاندان کو مغل سلطنت کا سب سے مالدار اور بااثر ہندو تجارتی خاندان قرار دیا ہے۔

Getty Imagesمغل شاہ جہان کا شانتی داس جھاوری کو لکھا گیا خطبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرکاری مورخ

’جگت سیٹھ خاندان کی دولت اور اثر و رسوخ ایسا تھے کہ ان کے بغیر نہ تو مغل حکومت کی مالیاتی پالیسی آگے بڑھ سکتی تھی اور نہ ہی بنگال کی معیشت چل سکتی تھی‘۔

جگت سیٹھ کا مالیاتی کردار بینک آف انگلینڈ کے ہم پلہ تصور کیا جاتا تھا۔

یہ خاندان بنگال حکومت کے لیے مختلف مالیاتی خدمات انجام دیتا تھا، جن میں محصولات یا ریوینیوجمع کرنا، رقوم کی ترسیل اور قرض کی فراہمی شامل تھیں۔ اس خاندان نے بنگال میں سکہ سازی پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور مغل خزانے کو سالانہ خراج کی ادائیگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

صحافی شِو سہائے سنگھ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ نوابوں سے لے کر فرانسیسی، پرتگالی، ڈچ اور برطانوی کمپنیوں تک، سبانکے مقروض رہے۔

سنہ 1714 میں مانک چند چل بسے۔ تب تک وہ ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنے سودی کاروبار کی شاخیں قائم کر چکے تھے۔

سید عاصم محمود اپنے ایک اخباری مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اب وہ مغل بادشاہ، نواب بنگال اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے علاوہ فرانسیسی، ولندیزی اور پرتگالی تاجروں سے بھی لین دین کر رہے تھے۔ اس امر نے ماواڑی بنیا خاندان کی دولت، طاقت اور اثرورسوخ میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔

’مانک چند بے اولاد تھے۔ چناںچہ لے پالک بیٹے فتح چند نے مالیاتی کاروبار کو بڑھاوا دیا اور اسے عروج پہ پہنچا دیا۔

’سنہ 1722میں نئے مغل بادشاہ محمد شاہ نے انھیں ’جگت سیٹھ‘ کا خطاب دیا۔

’فتح چند نے مرشد آباد سے لے کر دلی اور صوبہ گجرات تک اپنے ذیلی دفاتر کا جال بچھا دیا۔ وہ بادشاہوں اور نوابوں سے لے کر زمین داروں، تاجروں اور غیر ملکی تجارتی کمپنیوں کو سود پہ بھاری سرمایہ فراہم کرنے لگے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ 1718 سے 1730 تک کمپنی نے ہر سال ان سے چالیس لاکھ روپےکا قرضہ لیا‘۔

پلاسی کی جنگ (1757)میں سراج الدولہ سے اختلافات کے بعد جگت سیٹھ مہتاب چند کی رابرٹ کلائیو کے لیے حمایتاور مددسے انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کی ابتدا ہوئی۔

اسی حمایت نے بعد میں جگت سیٹھ خاندان کے زوال کی بنیاد بھی رکھی۔

مر اٹھا حملوں میں ان کی کوٹھیاں لوٹ لی گئیں اور 1763 میں بنگال کے نوابمیر قاسم علی خان کے حکم پر مہتاب چند اور ان کے کزن سوروپ چند کو قتل کر دیا گیا۔ خاندان کی قیادت کُشل چند کو ملی، مگر ان کی بے تدبیری کی وجہ سے کاروبار زوال کا شکار ہوا۔

جگت سیٹھوں کے آخری وارث 1912 میں فوت ہو گئے اور یہ خاندان برطانوی حکومت کی پینشن پر گزارا کرتا رہا۔

رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایامعروف تاجر برادری کی دولت کی گواہی دینے والی سو سال پرانی حویلیاں ویرانی کی داستان کیسے بنیں؟دورابجی ٹاٹا: اپنے خرچ پر ہندوستانی کھلاڑیوں کو اولمپکس میں بھیجنے والا تاجرایسٹ انڈیا کمپنی جس نے ایک خطے پر راج کیاچپاتیوں پر ہونے والی ’خفیہ پیغام رسانی‘ جس نے برطانوی راج کی نیندیں اڑا دیںانڈیا میں انشورنس کا وہ سکینڈل، جس نے محمد علی جناح کے تاجر دوست کو جیل پہنچا دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More